وَلَـقَدۡ زَيَّـنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡيَا بِمَصَابِيۡحَ وَجَعَلۡنٰهَا رُجُوۡمًا لِّلشَّيٰطِيۡنِ وَاَعۡتَدۡنَا لَهُمۡ عَذَابَ السَّعِيۡرِ ﴿5﴾
بیشک ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں ( ستاروں ) سے آراستہ کیا اور انہیں شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بنا دیا اور شیطانوں کے لئے ہم نے ( دوزخ کا جلانے والا ) عذاب تیار کر دیا ۔
و لقد زينا السماء الدنيا بمصابيح و جعلنها رجوما للشيطين و اعتدنا لهم عذاب السعير
And We have certainly beautified the nearest heaven with stars and have made [from] them what is thrown at the devils and have prepared for them the punishment of the Blaze.
Phir dohra ker do do baar dekhley teri nigah teri taraf zalil ( o-aajiz ) hoker thaki hui lot aayegi.Be-shak hum ney aasman duniya ko chiraghon ( sitaron ) say aarasta kiya aur enehn shetanon kay maarnay ka zariya banadiya aur shetanon kay liye hum ney ( dozakh ka jalanay wala ) azab tayyar kerdiya.
اور ہم نے قریب والے آسمان کو روشن چراغوں سے سجا رکھا ہے ، اور ان کو شیطانوں پر پتھر برسانے کا ذریعہ بھی بنایا ہے ، ( ٢ ) اور ان کے لیے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
اور بیشک ہم نے نیچے کے آسمان کو ( ف۹ ) چراغوں سے آراستہ کیا ( ف۱۰ ) اور انہیں شیطانوں کے لیے مار کیا ( ف۱۱ ) اور ان کے لیے ( ف۱۲ ) بھڑکتی آگ کا عذاب تیار فرمایا ( ف۱۳ )
ہم نے تمہارے قریب کے آسمان 9 کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے 10 اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے11 ۔ ان شیطانوں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے مہیا کر رکھی ہے ۔
اور بے شک ہم نے سب سے قریبی آسمانی کائنات کو ( ستاروں ، سیاروں ، دیگر خلائی کرّوں اور ذرّوں کی شکل میں ) چراغوں سے مزیّن فرما دیا ہے ، اور ہم نے ان ( ہی میں سے بعض ) کو شیطانوں ( یعنی سرکش قوتوں ) کو مار بھگانے ( یعنی ان کے منفی اَثرات ختم کرنے ) کا ذریعہ ( بھی ) بنایا ہے ، اور ہم نے ان ( شیطانوں ) کے لئے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :9
قریب کے آسمان سے مراد وہ آسمان ہے جس کے تا روں اور سیاروں کو ہم برہنہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں اس سے آگے جن چیزوں کے مشاہدے کے لیے آلات کی ضرورت پیش آتی ہو وہ دور کے آسمان ہیں ۔ اور ان سے بھی زیادہ دور کے آسمان وہ ہیں جن تک آلات کی رسائی بھی نہیں ہے ۔
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :10
اصل میں لفظ مصابیح نکرہ استعمال ہوا ہے اور اس کے نکرہ ہونے سے خود بخود ان چراغوں کے عظیم الشان ہونے کا مفہوم پیدا ہوتا ہے ۔ ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ کائنات ہم نے اندھیری اور سنسان نہیں بنائی ہے بلکہ ستاروں سے خوب مزین اور آراستہ کیا ہے جس کی شان اور جگمگاہٹ رات کے اندھیروں میں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے ۔
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :11
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہی تارے شیطانوں پر پھینک مارے جاتے ہیں ، اور یہ مطلب بھی نہیں کہ شہاب ثاقب صرف شیطانوں کو مارنے ہی کے لیے گرتے ہیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ تاروں سے جو بے حد و حساب شہاب ثاقب نکل کر کائنات میں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گھومتے رہتے ہیں ، اور جن کی بارش زمین پر بھی ہر وقت ہوتی رہتی ہے ، وہ اس امر میں مانع ہے کہ زمین کے شیاطین عالم بالا میں جا سکیں ۔ اگر وہ اوپر جانے کی کوشش کریں بھی تو یہ شہاب انہیں مار بھگاتے ہیں ۔ اس چیز کو بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ عرب کے لوگ کاہنوں کے متعلق یہ خیال رکھتے تھے اور یہی خود کاہنوں کا دعویٰ بھی تھا ، کہ شیاطین ان کے تابع ہیں ، یا شیاطین سے ان کا رابطہ ہے ، اور ان کے ذریعہ سے انہیں غیب کی خبریں حاصل ہوتی ہیں اور وہ صحیح طور پر لوگوں کی قسمتوں کا حال بتا سکتے ہیں ۔ اس لیے قرآن میں متعدد مقامات پر یہ بتایا گیا ہے کہ شیاطین کے عالم بالا میں جانے اور وہاں سے غیب کی خبریں معلوم کرنے کا قطعا کوئی امکان نہیں ہے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الحجر ، حواشی 9 تا 12 ۔ الصافات ، حواشی 6 ، 7 ۔
رہا یہ سوال کہ ان شہابوں کی حقیقت کیا ہے ، تو اس کے بارے میں انسان کی معلومات اس وقت تک کسی قطعی تحقیق سے قاصر ہیں ۔ تاہم جس قدر بھی حقائق اور واقعات جدید ترین دور تک انسان کے علم آئے ہیں ، اور زمین پر گرے ہوئے شہابیوں کے معائنے سے جو معلومات حاصل کی گئی ہیں ، ان کی بناء پر سائنس دانوں میں سب سے زیادہ مقبول نظریہ یہی ہے کہ یہ شہابیے کسی سیارے کے انفجار کی بدولت نکل کر خلا میں گھومتے رہتے ہیں اور پھر کسی وقت زمین کی کشش کے دائرے میں آ کر ادھر کا رخ کر لیتے ہیں ( ملاحظہ ہو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ، ایڈیشن 1967ء ۔ جلد 15 ۔ لفظ ( Meteorites ) ۔