Surah

Information

Surah # 67 | Verses: 30 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 77 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الۡغَيۡظِ‌ؕ كُلَّمَاۤ اُلۡقِىَ فِيۡهَا فَوۡجٌ سَاَلَهُمۡ خَزَنَـتُهَاۤ اَلَمۡ يَاۡتِكُمۡ نَذِيۡرٌ‏ ﴿8﴾
قریب ہے کہ ( ابھی ) غصے کے مارے پھٹ جائے جب کبھی اس میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا اس سے جہنم کے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والا کوئی نہیں آیا تھا؟
تكاد تميز من الغيظ كلما القي فيها فوج سالهم خزنتها الم ياتكم نذير
It almost bursts with rage. Every time a company is thrown into it, its keepers ask them, "Did there not come to you a warner?"
Qareeb hai kay ( abhi ) gussay kay maaray phat jaye jab kabhi iss mein koi giroh dala jayega uss say jahannum kay daroghay poochen gey kay kiya tumharay pass daranay wala koi nahi aaya tha?
ایسا لگے گا جیسے وہ غصے سے پھٹ پڑے گی ۔ جب بھی اس میں ( کافروں کا ) کوئی گروہ پھینکا جائے گا تو اس کے محافظ ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟
معلوم ہوتا ہے کہ شدت غضب میں پھٹ جائے گی ، جب کبھی کوئی گروہ اس میں ڈالا جائے گا اس کے داروغہ ( ف۱۵ ) ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈر سنانے والا نہ آیا تھا ( ف۱٦ )
شدت غضب سے پھٹی جاتی ہو گی ۔ ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا ، اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے ” کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا14؟
گویا ( ابھی ) شدتِ غضب سے پھٹ کر پارہ پارہ ہو جائے گی ، جب اس میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا تو اس کے داروغے ان سے پوچھیں گے: کیا تمہارے پاس کوئی ڈر سنانے والا نہیں آیا تھا
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :14 اس سوال کی اصل نوعیت سوال کی نہیں ہو گی کہ جہنم کے کارندے ان لوگوں سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہوں کہ ان کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے کوئی خبردار کرنے والا آیا تھا یا نہیں ، بلکہ اس سے مقصود ان کو اس بات کا قائل کرنا ہو گا کہ انہیں جہنم میں ڈال کر ان کے ساتھ کوئی بے انصافی نہیں کی جا رہی ہے ۔ اس لیے وہ خود ان کی زبان سے یہ اقرار کرانا چاہیں گے کہ اللہ تعالی نے ان کو بے خبر نہیں رکھا تھا ، ان کے پاس انبیاء بھیجے تھے ، ان کو بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہے اور راہ راست کونسی ہے ، اور ان کو متنبہ کر دیا تھا کہ اس راہ راست کے خلاف چلنے کا نتیجہ اسی جہنم کا ایندھن بننا ہو گا جس میں اب وہ جھونکے گئے ہیں ، مگر انہوں نے انبیاء کی بات نہ مانی لہذا اب جو سزا انہیں دی جا رہی ہے وہ فی الواقع اس کے مستحق ہیں ۔ یہ بات قرآن مجید میں بار بار ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے جس امتحان کے لیے دنیا میں انسان کو بھیجا ہے وہ اس طرح نہیں لیا جا رہا ہے کہ اسے بالکل بے خبر رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہو کہ وہ خود راہ راست پاتا ہے یا نہیں ، بلکہ اسے راہ راست بتانے کا جو معقول ترین انتظام ممکن تھا وہ اللہ نے پوری طرح کر دیا ہے ، اور وہ یہی انتظام ہے کہ انبیاء بھیجے گئے ہیں اور کتابیں نازل کی گئیں ہیں ۔ اب انسان کا سارا امتحان اس امر میں ہے کہ وہ انبیاء علیم السلام اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کو مان کر سیدھا راستہ اختیار کرتا ہے یا ان سے منہ موڑ کر خود اپنی خواہشات اور تخیلات کے پیچھے چلتا ہے ۔ اس طرح نبوت درحقیقت اللہ تعالی کی وہ حجت ہے جو اس نے انسان پر قائم کر دی ہے ، اور اسی کے ماننے یا نہ ماننے پر انسان کے مستقبل کا انحصار ہے ۔ انبیاء کے آنے کے بعد کوئی شخص یہ عذر پیش نہیں کر سکتا کہ ہم حقیقت سے آگاہ نہ تھے ، ہمیں اندھیرے میں رکھ کر ہم کو اتنے بڑے امتحان میں ڈال دیا گیا ، اور اب ہمیں بے قصور سزا دی جا رہی ہے ۔ اس مضمون کو اتنی بار اتنے مختلف طریقوں سے قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کا شمار مشکل ہے ۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، آیت 213 ، حاشیہ 230 ، النساء آیات41 ۔ 42 ، حاشیہ 64 ۔ آیت 165 ، حاشیہ 208 ۔ الانعام ، آیات 130 ۔ 131 ، 98 تا 100 جلد دوم ، بنی اسرائیل ، آیت 15 ، حاشیہ 17 ۔ جلد سوم طٰہٰ ، آیت 134 ۔ القصص ، آیت 47 ، حاشیہ 66 ، آیت 59 ، حاشیہ 83 ۔ آیت 65 ۔ جلد چہارم ، فاطر ، آیت 37 ، المومن ، آیت50 حاشیہ 66 ۔