سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :16
یعنی ہم نے طالب حق بن کر انبیاء کی بات کو توجہ سے سنا ہوتا ، یا عقل سے کام لے کر یہ سمجھنے کی کوشش کی ہوتی کہ فی الواقع وہ بات کیا ہے جو وہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔ یہاں سننے کو سمجھنے پر مقدم رکھا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے نبی کی تعلیم کو توجہ سے سننا ( یا اگر وہ لکھی شکل میں ہو تو طالب حق بن کر اسے پڑھنا ) ہدایت پانے کے لیے شرط اول ہے ۔ اس پر غور کر کے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا مرتبہ اس کے بعد آتا ہے نبی کی رہنمائی کے بغیر اپنی عقل سے بطور خود کام لے کر انسان براہ راست حق تک نہیں پہنچ سکتا ۔