Surah

Information

Surah # 67 | Verses: 30 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 77 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
اِنَّ الَّذِيۡنَ يَخۡشَوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَيۡبِ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّاَجۡرٌ كَبِيۡرٌ‏ ﴿12﴾
بیشک جو لوگ اپنے پروردگار سے غائبانہ طور پر ڈرتے رہتے ہیں ان کے لئے بخشش ہے اور بڑا ثواب ہے ۔
ان الذين يخشون ربهم بالغيب لهم مغفرة و اجر كبير
Indeed, those who fear their Lord unseen will have forgiveness and great reward.
Be-shak jo log apnay perwerdigaar say ghaeebana tor per dartay rehtay hain unkay liye bakhhsish hai aur bara sawab hai.
۔ ( اس کے برخلاف ) جو لوگ بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ، ان کے لیے بیشک مغفرت اور بڑا اجر ہے ۔
بیشک جو بےدیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ( ف۲۰ ) ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے ( ف۲۱ )
جو لوگ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں18 ، یقینا ان کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر19 ۔
بے شک جو لوگ بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لئے بخشش اور بڑا اَجر ہے
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :18 یہ دین میں اخلاق کی اصل جڑ ہے ۔ کسی کا برائی سے اس لیے بچنا کہ اس کی ذاتی رائے میں وہ برائی ہے ، یا دنیا اسے برا سمجھتی ہے ، یا اس کے ارتکاب سے دنیا میں کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ، یا اس پر کسی دنیوی طاقت کی گرفت کا خطرہ ہے ، یہ اخلاق کے لیے ایک بہت ہی ناپائیدار بنیاد ہے ۔ آدمی کی ذاتی رائے غلط بھی ہو سکتی ہے ، وہ اپنے کسی فلسفے کی وجہ سے ایک اچھی چیز کو برا اور ایک بری چیز کو اچھا سمجھ سکتا ہے ۔ دنیا کے معیار خیر و شر اول تو یکساں نہیں ہیں ، پھر وہ وقتاً فوقتا بدلتے بھی رہتے ہیں ، کوئی عالمگیر اور ازلی و ابدی معیار دنیا کے اخلاقی فلسفوں میں نہ آج پایا جاتا ہے نہ کبھی پایا گیا ہے ۔ دنیوی نقصان کا اندیشہ بھی اخلاق کے لیے کوئی مستقل بنیاد فراہم نہیں کرتا ۔ جو شخص برائی سے اس لیے بچتا ہو کہ وہ دنیا میں اس کی ذات پر مترتب ہونے والے کسی نقصان سے ڈرتا ہے وہ ایسی حالت میں اس کے ارتکاب سے باز نہیں رہ سکتا جبکہ اس سے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو ۔ اسی طرح کسی دنیوی طاقت کی گرفت کا خطرہ بھی وہ چیز نہیں ہے جو انسان کو ایک شریف انسان بنا سکتی ہو ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی دنیوی طاقت بھی عالم الغیب و الشہادہ نہیں ہے ۔ بہت سے جرائم اس کی نگاہ سے بچ کر کیے جا سکتے ہیں ۔ اور ہر دنیوی طاقت کی گرفت سے بچنے کی بے شمار تدبیریں ممکن ہیں ۔ پھر کسی دنیوی طاقت کے قوانین بھی تمام برائیوں سے قبیح تر ہیں جن پر وہ گرفت کرتے ہیں ۔ اس لیے دین حق نے اخلاق کی پوری عمارت اس بنیاد پر کھڑی کی ہے کہ اس ان دیکھے خدا سے ڈر کر برائی سے اجتناب کیا جائے جو ہر حال میں انسان کو دیکھ رہا ہے ، جس کی گرفت سے انسان بچ کر کہیں نہیں جا سکتا جس نے خیر و شر کا ایک ہمہ گیر ، عالمگیر اور مستقل معیار انسان کو دیا ہے ۔ اسی کے ڈر سے بدی کو چھوڑتا اور نیکی اختیار کرنا وہ اصل بھلائی ہے جو دین کی نگاہ میں قابل قدر ہے ۔ اس کے سوا کسی دوسری وجہ سے اگر کوئی انسان بدی نہیں کرتا ، یا اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے جو افعال نیکی میں شمار ہوتے ہیں ان کو اختیار کرتا ہے تو آخرت میں اس کے یہ اخلاق کسی قدر اور وزن کے مستحق نہ ہوں گے ، کیونکہ ان کی مثال اس عمارت کی سی ہے جو ریت پر تعمیر ہوئی ہو ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :19 یعنی خدا سے بالغیب ڈرنے کے دو لازمی نتائج ہیں ۔ ایک یہ کہ جو قصور بھی بشری کمزوریوں کی بنا پر آدمی سے سر زد ہو گئے ہوں وہ معاف کر دیے جائیں گے ، بشرطیکہ ان کی تہ میں خدا سے بے خوفی کار فرما نہ ہو ۔ دوسرے یہ کہ جو نیک اعمال بھی انسان اس عقیدے کے ساتھ انجام دے گا اس پر وہ بڑا اجر پائے گا ۔
نافرمانی سے خائف ہی مستحق ثواب ہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوشخبری دے رہا ہے جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہتے ہیں ، گو تنہائی میں ہوں جہاں کسی کی نگاہیں ان پر نہ پڑ سکیں تاہم خوف اللہ سے کسی نافرمانی کے کام کو نہیں کرتے نہ اطاعت و عبادت سے جی چراتے ہیں ، ان کے گناہ بھی وہ معاف فرما دیتا ہے اور زبردست ثواب اور بہترین اجر عنایت فرمائے گا ، جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جن سات شخصوں کو جناب باری اپنے عرش کا سایہ اس دن دے گا جس دن اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا ان میں ایک وہ ہے جسے کوئی مال و جمال والی عورت زنا کاری کی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اسے بھی جو اس طرح پوشیدگی سے صدقہ کرے کہ دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر بائیں ہاتھ کو بھی نہ لگے مسند بزار میں ہے کہ صحابہ نے ایک مرتبہ کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دلوں کی جو کیفیت آپ کے سامنے ہوتی ہے آپ کے بعد وہ نہیں رہتی آپ نے فرمایا یہ بتاؤ رب کے ساتھ تمہارا کیا خیال رہتا ہے؟ جواب دیا کہ ظاہر باطن اللہ ہی کو ہم رب مانتے ہیں ، فرمایا جاؤ پھر یہ نفاق نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ تمہاری چھپی کھلی باتوں کا مجھے علم ہے دلوں کے خطروں سے بھی آگاہ ہوں ، یہ ناممکن ہے کہ جو خالق ہو وہ عالم نہ ہو ، مخلوق سے خالق بےخبر ہو ، وہ تو بڑا باریک بین اور بیحد خبر رکھنے والا ہے ۔ بعد ازاں اپنی نعمت کا اظہار کرتا ہے کہ زمین کو اس نے تمہارے لئے مسخر کر دیا وہ سکون کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے ہل جل کر تمہیں نقصان نہیں پہنچاتی ، پہاڑوں کی میخیں اس میں گاڑ دی ہیں ، پانی کے چشمے اس میں جاری کر دیئے ہیں ، راستے اس میں مہیا کر دیئے ہیں ، قسم قسم کے نفع اس میں رکھ دیئے ہیں پھل اور اناج اس میں سے نکل رہا ہے ، جس جگہ تم جانا چاہو جا سکتے ہو طرح طرح کی لمبی چوڑی سود مند تجارتیں کر رہے ہو ، تمہاری کوششیں وہ بار آور کرتا ہے اور تمیں ان اسباب سے روزی دے رہا ہے ، معلوم ہوا کہ اسباب کے حاصل کرنے کی کوشش توکل کے خلاف نہیں ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے اگر تم اللہ کی ذات پر پورا پورا بھرسہ کرو تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے جس طرح پرندوں کو دے رہا ہے کہ اپنے گھونسلوں سے خالی پیٹ نکلتے ہیں اور آسودہ حال واپس جاتے ہیں ، پس ان کا صبح شام آنا جانا اور رزق کو تلاش کرنا بھی توکل میں داخل سمجھا گیا کیونکہ اسباب کا پیدا کرنے والا انہیں آسان کرنے والا وہی رب واحد ہے ، اسی کی طرف قیامت کے دن لوٹنا ہے ، حضرت ابن عباس وغیرہ تو ( مناکب ) سے مراد راستے کونے اور ادھر ادھر کی جگہیں لیتے ہیں ، قتادہ وغیرہ سے مروی ہے کہ مراد پہاڑ ہیں ۔ حضرت بشیر بن کعب رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کی تلاوت کی اور اپنی لونڈی سے جس سے انہیں اولاد ہوئی تھی فرمایا کہ اگر ( مناکب ) کی صحیح تفسیر تم بتا دو تو تم آزاد ہو اس نے کہا مراد اس سے پہاڑ ہیں آپ نے حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا جواب ملا کہ یہ تفسیر صحیح ہے ۔