Surah

Information

Surah # 67 | Verses: 30 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 77 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
ءَاَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِىۡ السَّمَآءِ اَنۡ يَّخۡسِفَ بِكُمُ الۡاَرۡضَ فَاِذَا هِىَ تَمُوۡرُۙ‏ ﴿16﴾
کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ آسمانوں والا تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ۔
ءامنتم من في السماء ان يخسف بكم الارض فاذا هي تمور
Do you feel secure that He who [holds authority] in the heaven would not cause the earth to swallow you and suddenly it would sway?
Kiya tum iss baat say bey khof hogaye ho kay aasmanon wala tumhen zamin mein dhansa dey aur achanak zamin laraznay lagay.
کیا تم آسمان والے کی اس بات سے بے خوف ہو بیٹھے ہو کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے ، تو وہ ایک دم تھر تھرانے لگے؟ ( ٤ )
کیا تم اس سے نڈر ہوگئے جس کی سلطنت آسمان میں ہے کہ تمہیں زمین میں دھنسادے ( ف۲٦ ) جبھی وہ کانپتی رہے ( ف۲۷ )
کیا تم اس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں25 ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور یکایک یہ زمین جھکولے کھانے لگے؟
کیا تم آسمان والے ( رب ) سے بے خوف ہو گئے ہو کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے ( اس طرح ) کہ وہ اچانک لرزنے لگے
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :25 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی آسمان میں رہتا ہے ، بلکہ یہ بات اس لحاظ سے فرمائی گئی ہے کہ انسان فطری طور پر جب خدا سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو آسمان کی طرف دیکھتا ہے ۔ دعا مانگتا ہے تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے ۔ کسی آفت کے موقع پر سہاروں سے مایوس ہوتا ہے تو آسمان کا رخ کر کے خدا سے فریاد کرتا ہے ۔ کوئی ناگہانی بلا آ پڑتی ہے تو کہتا ہے یہ اوپر سے نازل ہوئی ہے ۔ غیر معمولی طور پر حاصل ہونے والی چیز کے متعلق کہتا ہے یہ عالم بالا سے آئی ہے ۔ اللہ تعالی کی بھیجی ہوئی کتابوں کو کتب سماوی یا کتب آسمانی کہا جاتا ہے ۔ ( ابو داؤد میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ ایک شخص ایک کالی لونڈی کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ پر ایک مومن غلام آزاد کرنا واجب ہو گیا ہے ، کیا میں اس لونڈی کو آزاد کر سکتاہوں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کردیا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اور میں کون ہوں؟ اس نے پہلے آپ کی طرف اور پھر آسمان کی طرف اشارہ کیا ، جس سے اس کا یہ مطلب واضح ہو رہا تھا کہ آپ اللہ کی طرف سے آئے ہیں ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اسے آزاد کر دو ، یہ مومنہ ہے ( اسی سے ملتا جلتا قصہ موطا ، مسلم اور نسائی میں بھی روایت ہوا ہے ) ۔ حضرت خولہ بنت ثعلبہ کے متعلق حضرت عمر نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا ، یہ وہ خاتون ہیں جن کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی ( تفسیر سورہ مجادلہ حاشیہ 2 میں ہم اس کی تفصیل نقل کر چکے ہیں ) ۔ ان ساری باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات کچھ انسان کی فطرت ہی میں ہے کہ وہ جب خدا کا تصور کرتا ہے تو اس کا ذہن نیچے زمین کی طرف نہیں بلکہ اوپر آسمان کی طرف جاتا ہے ۔ اسی کو ملحوظ رکھ کر یہاں اللہ تعالی کے متعلق من فی السماء ( وہ جو آسمان میں ہے ) کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں ۔ اس میں اس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن اللہ تعالی کو آسمان میں مقیم قرار دیتا ہے ۔ یہ شبہ آخر کیسے پیدا ہو سکتا ہے جبکہ اسی سورہ ملک کے آغاز میں فرمایا جا چکا ہے کہ الذی خلق سبع سموات طباقا ( جس نے تہ بر تہ سات آسمان پیدا کیے ) اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے ، فاینما تولوا فثم وجہ اللہ ۔ ( پس تم جدھر بھی رخ کرو اس طرف اللہ کا رخ ہے ) ۔
وہ لا انتہا عفو و مغفرت کا مالک بھی اور گرفت پر قادر بھی ہے ۔ ان آیتوں میں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے لطف و رحمت کا بیان فرما رہا ہے کہ لوگوں کے کفر و شرک کی بناء پر وہ طرح طرح کے دنیوی عذاب پر بھی قادر ہے لیکن اس کا علم اور عفو ہے کہ وہ عذاب نہیں کرتا ۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِيْرًا 45؀ۧ ) 35- فاطر:45 ) ، یعنی اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی برائیوں پر پکڑ لیتا تو روئے زمین پر کسی کو باقی نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مقررہ وقت تک انہیں مہلت دیئے ہوئے ہے ۔ جب ان کا وہ وقت آ جائے گا تو اللہ ان مجرم بندوں سے آپ سمجھ لے گا ۔ یہاں بھی فرمایا کہ زمین ادھر ادھر ہو جاتی ، ہلنے اور کانپنے لگ جاتی اور یہ سارے کے سارے اس میں دھنسا دیئے جاتے ، یا ان پر ایسی آندھی بھیج دی جاتی جس میں پتھر ہوتے اور ان کے دماغ توڑ دیئے جاتے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِيْلًا 68؀ۙ ) 17- الإسراء:68 ) یعنی کیا تم نڈر ہوگئے ہو کہ زمین کے کسی کنارے میں تم دھنس جاؤ یا تم پر وہ پتھر برسائے اور کوئی نہ ہو جو تمہاری وکالت کر سکے ، یہاں بھی فرمان ہے کہ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری دھمکیوں کو اور ڈراوے کو نہ ماننے کا انجام کیا ہوتا ہے؟ تم خود دیکھ لو کہ پہلے لوگوں نے بھی نہ مانا اور انکار کر کے میری باتوں کی تکذیب کی تو ان کا کس قدر برا اور عبرتناک انجام ہوا ۔ کیا تم میری قدرتوں کا روزمرہ کا یہ مشاہدہ نہیں کر رہے کہ پرند تمہارے سروں پر اڑتے پھرتے ہیں کبھی دونوں پروں سے کبھی کسی کو روک کر ، پھر کیا میرے سوا کوئی اور انہیں تھامے ہوئے ہے؟ میں نے ہواؤں کو مسخر کر دیا ہے اور یہ معلق اڑتے پھرتے یہیں یہ بھی میرا لطف و کرم اور رحمت و نعمت ہے ۔ مخلوقات کی حاجتیں ضرورتیں ان کی اصلاح اور بہتری کا نگراں اور کفیل میں ہی ہوں ، جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( اَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِيْ جَوِّ السَّمَاۗءِ 79؀ ) 16- النحل:79 ) کیا انہوں نے ان پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر ہیں جن کا تھامنے والا سوائے ذات باری کے اور کوئی نہیں یقیناً اس میں ایمانداروں کے لئے بڑی بڑی نشانیاں ہیں ۔