Surah

Information

Surah # 67 | Verses: 30 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 77 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَيَقُوۡلُوۡنَ مَتٰى هٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿25﴾
۔ ( کافر ) پوچھتے ہیں کہ وہ وعدہ کب ظاہر ہوگا اگر تم سچے ہو ( تو بتاؤ؟ )
و يقولون متى هذا الوعد ان كنتم صدقين
And they say, "When is this promise, if you should be truthful?"
( Kafir ) poochtay hain kay woh wada kab zahir hoga agar tum sachay ho ( to batao? )
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : اگر تم سچے ہو تو بتاؤ کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟ ( ٦ )
اور کہتے ہیں ( ف٤٦ ) یہ وعدہ ( ف٤۷ ) کب آئے گا اگر تم سچے ہو ،
یہ کہتے ہیں ” اگر تم سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ہوگا 35؟
اور وہ کہتے ہیں: یہ ( قیامت کا ) وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :35 یہ سوال اس غرض کے لیے نہ تھا کہ وہ قیامت کا وقت اور اس کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے اور اس بات کے لیے تیار تھے کہ اگر انہیں اس کی آمد کا سال ، مہینہ ، دن اور وقت بتا دیا جائے تو وہ اسے مان لیں گے ۔ بلکہ دراصل وہ اس کے آنے کو غیر ممکن اور بعید از عقل سمجھتے تھے اور یہ سوال اس غرض کے لیے کرتے تھے کہ اسے جھٹلانے کا ایک بہانہ ان کے ہاتھ آئے ۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ حشر و نشر کا یہ عجیب و غریب افسانہ جو تم ہمیں سنا رہے ہو آخر کب ظہور میں آئے گا ؟ اسے کس وقت کے لیے اٹھا رکھا گیا ہے؟ ہماری آنکھوں کے سامنے لا کر اسے دکھا کیوں نہیں دیتے کہ ہمیں اس کا یقین آ جائے؟ اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کوئی شخص اگر قیامت کا قائل ہو سکتا ہے تو عقلی دلائل سے ہو سکتا ہے ، اور قرآن مجید میں جگہ جگہ وہ دلائل تفصیل کے ساتھ دے دیے گئے ہیں ، رہی اس کی تاریخ ، تو قیامت کی بحث میں اس کا سوال اٹھانا ایک جاہل آدمی ہی کا کام ہو سکتا ہے کہ جب وہ تمہاری بتائی ہوئی تاریخ پر آ جائے گی تو مان لوں گا ، آج آخر میں کیسے یقین کر لوں کہ وہ اس روز ضرور آ جائے گی ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، لقمان ، حاشیہ 63 ، الاحزاب ، حاشیہ 116 ۔ سبا ، حواشی 5 ۔ 48 ۔ یسین ، حاشیہ 45 ) ۔