Surah

Information

Surah # 67 | Verses: 30 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 77 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ اَهۡلَـكَنِىَ اللّٰهُ وَمَنۡ مَّعِىَ اَوۡ رَحِمَنَا ۙ فَمَنۡ يُّجِيۡرُ الۡكٰفِرِيۡنَ مِنۡ عَذَابٍ اَلِيۡمٍ‏ ﴿28﴾
آپ کہہ دیجئے! اچھا اگر مجھے اور میرے ساتھیوں کو اللہ تعالٰی ہلاک کر دے یا ہم پر رحم کرے ( بہر صورت یہ تو بتاؤ ) کہ کافروں کو دردناک عذاب سے کون بچائے گا؟
قل ارءيتم ان اهلكني الله و من معي او رحمنا فمن يجير الكفرين من عذاب اليم
Say, [O Muhammad], "Have you considered: whether Allah should cause my death and those with me or have mercy upon us, who can protect the disbelievers from a painful punishment?"
Aap kehdijiye acha agar mujhay aur meray saathiyonko Allah taalaa halak kerdey ya hum per reham keray ( bahar sooratyeh to batao ) kay kafirron ko dardnaak azab say kon bachaye ga?
۔ ( اے پیغمبر ! ان سے ) کہو کہ : ذرا یہ بتلاؤ کہ چاہے اللہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کردے یا ہم پر رحم فرما دے ، ( دونوں صورتوں میں ) کافروں کو دردناک عذاب سے کون بچائے گا؟ ( ٧ )
تم فرماؤ ( ف۵۳ ) بھلا دیکھو تو اگر اللہ مجھے اور میرے ساتھ والوں کو ( ف۵٤ ) بلاک کردے یا ہم پر رحم فرمائے ( ف۵۵ ) تو وہ کونسا ہے جو کافروں کو دکھ کے عذاب سے بچالے گا ( ف۵٦ )
ان سے کہو ، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اللہ خواہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے یا ہم پر رحم کرے ، کافروں کو دردناک عذاب سے کون بچا لے 38 گا ؟
فرما دیجئے: بھلا یہ بتاؤ اگر اللہ مجھے موت سے ہم کنار کر دے ( جیسے تم خواہش کرتے ہو ) اور جو میرے ساتھ ہیں ( ان کو بھی ) ، یا ہم پر رحم فرمائے ( یعنی ہماری موت کو مؤخر کر دے ) تو ( ان دونوں صورتوں میں ) کون ہے جو کافروں کو دردناک عذاب سے پناہ دے گا
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :38 مکہ معظمہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا آغاز ہوا اور قریش کے مختلف خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا تو گھر گھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو بد دعائیں دی جانے لگیں ۔ جادو ٹونے کیے جانے لگے تاکہ آپ ہلاک ہو جائیں ۔ حتی کے قتل کے منصوبے بھی سوچے جانے لگے ۔ اس پر یہ فرمایا گیا کہ ان سے کہو ، خواہ ہم ہلاک ہوں یا خدا کے فضل سے زندہ رہیں ، اس سے تمہیں کیا حاصل ہو گا ؟ تم اپنی فکر کرو کہ خدا کے عذاب سے تم کیسے بچو گے ۔
زمین سے پانی ابلنا بند ہو جائے تو؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی! ان مشرکوں سے کہو جو اللہ کی نعمتوں کا انکار کر رہے ہیں کہ تم اس بات کی تمنا کر رہے ہو کہ نقصان پہنچے تو فرض کرو کہ ہمیں اللہ کی طرف سے نقصان پہنچایا اس نے مجھ پر اور میرے ساتھیوں پر رحم کیا لیکن اس سے تمہیں کیا ؟ صرف اس امر سے تمہارا چھٹکارا تو نہیں ہو سکتا ؟ تمہاری نجات کی صورت یہ تو نہیں ، نجات تو موقوف ہے توبہ کرنے ، اللہ کی طرف جھکنے پر ، اس کے دین کو مان لینے پر ، ہمارے بچاؤ یا ہلاکت پر تمہاری نجات نہیں ، تم ہمارا خیال چھوڑ کر اپنی بخشش کی صورت تلاش کرو ۔ پھر فرمایا ہم رب العالمین رحمن و رحیم پر ایمان لا چکے اپنے تمام امور میں ہمارا بھروسہ اور توکل اسی کی پاک ذات پر ہے ، جیسے ارشاد فرمایا آیت ( فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ۭ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ١٢٣؀ۧ ) 11-ھود:123 ) اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ کر ، اب تم عنقریب جان لو گے کہ دنیا اور آخرت میں فلاح وبہبود کسے ملتی ہے اور نقصان و خسران میں کون پڑتا ہے؟ رب کی رحمت کس پر ہے؟ اور ہدایت پر کون ہے؟ اللہ کا غضب کس پر ہے اور بری راہ پر کون ہے؟ پھر فرماتا ہے اگر اس پانی کو جس کے پینے پر انسانی زندگی کا مدار ہے زمین چوس لے یعنی زمین سے نکلے ہی نہیں گو تم کھودتے تھک جاؤ تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی ہے جو بہنے والا ابلنے اور جاری ہونے والا پانی تمہیں دے سکے؟ یعنی اللہ کے سوا اس پر قادر کوئی نہیں ، وہی ہے جو اپنے فضل و کرم سے صاف نتھرے ہوئے اور صاف پانی کو زمین پر جاری کرتا ہے جو ادھر سے ادھر تک پھر جاتا ہے اور بندوں کی حاجتوں کو پوری کرتا ہے ، ضرورت کے مطابق ہر جگہ بآسانی مہیا ہو جاتا ہے ، فالحمد للہ ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے سورۃ ملک کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فالحمد للہ رب العالمین ۔ ( حدیث میں ہے کہ اس آیت کے جواب میں اللہ رب العالمین کہنا چاہئے ۔ مترجم ) ۔