Surah

Information

Surah # 69 | Verses: 52 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 78 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَا تُبۡصِرُوۡنَۙ‏ ﴿38﴾
پس مجھے قسم ہے ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو ۔
فلا اقسم بما تبصرون
So I swear by what you see
Pus mujhy qasam hay un chezon ki jinhein tum dekhtay ho
اب میں قسم کھاتا ہوں اس کی بھی جسے تم دیکھتے ہو ۔
تو مجھے قسم ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو ،
پس نہیں21 ، میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی بھی جو تم دیکھتے ہو
سو میں قَسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو
سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :21 یعنی تم لوگوں نے جو کچھ سمجھ رکھا ہے بات وہ نہیں ہے ۔
ظاہر و باطن آیات الٰہی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے اپنی ان نشانیوں کی قسم کھا رہا ہے جنہیں لوگ دیکھ رہے ہیں اور ان کی بھی جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں ، اس بات پر کہ قرآن کریم اس کا کلام اور اس کی وحی ہے جو اس نے اپنے بندے اور اپنے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری ہے ، جسے اس نے ادائے امانت اور تبلیغ رسالت کے لئے پسند فرما لیا ہے ۔ رسول کریم سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، اس کی اضافت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس لئے کئی گئی کہ اس کے مبلغ اور پہنچانے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔ اسی لئے لفظ رسول لائے کیونکہ رسول تو پیغام اپنے بھیجنے والے کا پہنچاتا ہے گو زبان اس کی ہوتی ہے لیکن کہا ہوا بھیجنے والے کا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ تکویر میں اس کی نسبت اس رسول کی طرف کی گئی ہے جو فرشتوں میں سے ہیں فرمان ہے آیت ( اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ 40؀ڌ ) 69- الحاقة:40 ) ، یعنی یہ قول اس بزرگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے جو قوت والا اور مالک عرش کے پاس رہنے والا ہے وہاں اس کا کہنا مانا جاتا ہے اور ہے بھی وہ امانت دار ، اس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ، اسی لئے اس کے بعد فرمایا تمہارے ساتھی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجنون نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل کو ان کی اصلی صورت میں صاف کناروں پر دیکھا بھی ہے اور وہ پوشیدہ علم پر بخیل بھی نہیں ، نہ یہ شیطان رجیم کا قول ہے ، اسی طرح یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ نہ تو یہ شاعر کا کلام ہے نہ کاہن کا قول ہے البتہ تمہارے ایمان میں اور نصیحت حاصل کرنے میں کمی ہے ، پس کبھی تو اپنے کلام کی نسبت رسول انسی کی طرف کی اور کبھی رسول ملکی کی طرف ، اس لئے کہ یہ اس کے پہنچانے والے لانے والے اور اس پر اٰمین ہیں ، ہاں دراصل کلام کس کا ہے؟ اسے بھی ساتھ ہی ساتھ بیان فرما دیا کہ یہ اتارا ہوا رب العالمین کا ہے ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اسلام لانے سے پہلے کا اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرم میں پہنچ گئے ہیں ، میں بھی گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الحاقہ شروع کی جسے سن کر مجھے اس کی پیاری نشست الفاظ اور بندش مضامین اور فصاحت و بلاغت پر تعجب آنے لگا آخر میں میرے دل میں خیال آیا کہ قریش ٹھیک کہتے ہیں یہ شخص شاعر ابھی میں اسی خیال میں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتیں تلاوت کیں کہ یہ قول رسول کریم کا ہے شاعر کا نہیں تم میں ایمان ہی کم ہے تو میں نے کہا اچھا شاعر نہ سہی کاہن تو ضرور ہے ، ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت میں یہ آیت آئی کہ یہ کاہن کا قول بھی نہیں تم نے نصیحت ہی کم لی ہے ، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ پوری سورت ختم کی ۔ فرماتے ہیں یہ پہلا موقعہ تھا کہ میرے دل میں اسلام پوری طرح گھر کر گیا اور روئیں روئیں میں اسلام کی سچائی گھس گئی ، پس یہ بھی منجملہ ان اسباب کے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کا باعث ہوئے ایک خاص سبب ہے ، ہم نے آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی پوری کیفیت سیرت عمر میں لکھ دی ہے ۔ وللہ الحمد والمنہ