سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :27
یعنی بات وہ نہیں ہے جو انہوں نے سمجھ رکھی ہے ۔
سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :28
یہاں اللہ تعالی نے خود اپنی ذات کی قسم کھائی ہے ۔ مشرقوں اور مغربوں کا لفظ اس بنا پر استعمال کیا گیا ہے کہ سال کے دوران میں سورج ہر روز ایک نئے زاویے سے طلوع اور نئے زاویے پر غروب ہوتا ہے ۔ نیز زمین کے مختلف حصوں پر سورج الگ الگ اوقات میں پے درپے طلوع اور غروب ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ان اعتبارات سے مشرق اور مغرب ایک نہیں ہیں بلکہ بہت سے ہیں ۔ ایک دوسرے اعتبار سے شمال اور جنوب کے مقابلے میں ایک جہت مشرق ہے اور دوسری جہت مغرب ۔ اس بنا پر سورہ شعراء ، آیت 28 اور سورہ مزمل ، آیت 19 میں رب المشرق و المغرب کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ ایک اور لحاظ سے زمین کے دو مشرق اور دو مغرب ہیں ، کیونکہ جب زمین کے ایک نصف کرے پر سورج غروب ہوتا ہے تو دوسرے پر طلوع ہوتا ہے ۔ اس بنا پر سورہ رحمن ، آیت 17 میں رب المشرقین و رب المغربین کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، الرحمن ، حاشیہ 17 ) ۔