Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَمۡ لَهُمۡ نَصِيۡبٌ مِّنَ الۡمُلۡكِ فَاِذًا لَّا يُؤۡتُوۡنَ النَّاسَ نَقِيۡرًا ۙ‏ ﴿53﴾
کیا ان کا کوئی حصّہ سلطنت میں ہے؟ اگر ایسا ہو تو پھر یہ کسی کو ایک کھجور کی گُٹھلی کے شگاف کے برابر بھی کچھ نہ دیں گے ۔
ام لهم نصيب من الملك فاذا لا يؤتون الناس نقيرا
Or have they a share of dominion? Then [if that were so], they would not give the people [even as much as] the speck on a date seed.
Kiya inn ka koi hissa saltanat mein hai? Agar aisa ho to phir yeh kissi ko aik khujoor ki guthli kay shigaaf kay barabar bhi kuch na den gay.
تو کیا ان کو ( کائنات کی ) بادشاہی کا کچھ حصہ ملا ہوا ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگوں کو گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی کچھ نہ دیتے ۔ ( ٣٨ )
کیا ملک میں ان کا کچھ حصہ ہے ( ف۱۵٦ ) ایسا ہو تو لوگوں کو تِل بھر نہ دیں ،
کیا حکومت میں ان کا کوئی حصّہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ دوسروں کو ایک پھوٹی کوڑی تک نہ دیتے ۔ 84
کیا ان کا سلطنت میں کچھ حصہ ہے؟ اگر ایسا ہو تو یہ ( اپنے بخل کے باعث ) لوگوں کو تِل برابر بھی ( کوئی چیز ) نہیں دیں گے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :84 یعنی کیا خدا کی حکومت کا کوئی حصہ ان کے قبضہ میں ہے کہ یہ فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کون برسر ہدایت ہے اور کون نہیں ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو ان کے ہاتھوں دوسروں کو ایک پھوٹی کوڑی بھی نصیب نہ ہوتی کیونکہ ان کے دل تو اتنے چھوٹے ہیں کہ ان سے حق کا اعتراف تک نہیں ہو سکتا ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا ان کے پاس کسی ملک کی حکومت ہے کہ اس میں دوسرے لوگ حصہ بٹانا چاہتے ہیں اور نہ انہیں اس میں سے کچھ نہیں دینا چاہتے؟ یہاں تو محض اعتراف حق کا سوال درپیش ہے اور اس میں بھی یہ بخل سے کام لے رہے ہیں ۔
یہودیوں کی دشمنی کی انتہا اور اس کی سزا یہاں بطور انکار کے سوال ہوتا ہے کہ کیا وہ ملک کے کسی حصہ کے مالک ہیں ؟ یعنی نہیں ہیں ، پھر ان کی بخیلی بیان کی جاتی ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کسی کو ذرا سا بھی نفع پہنچانے کے دوا دار نہ ہوتے خصوصاً اللہ کے اس آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا بھی نہ دیتے جتنا کھجور کی گٹھلی کے درمیان کا پردہ ہوتا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا ) 17 ۔ الاسراء:100 ) یعنی اگر تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تم تو خرچ ہو جانے کے خوف سے بالکل ہی روک لیتے گو ظاہر ہے کہ وہ کم نہیں ہو سکتے تھے لیکن تمہاری کنجوسی تمہیں ڈرا دیتی اسی لئے فرما دیا کہ انسان بڑا ہی بخیل ہے ، ان کے ان بخیلانہ مزاج کے بعد ان کا حسد واضح کیا جا رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل سے نہیں اس لئے ان سے حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اور لوگوں کو آپ کی تصدیق سے روک رہے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہاں الناس سے مراد ہم ہیں کوئی اور نہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل کے قبائل میں اولاد ابراہیم سے ہیں نبوۃ دی کتاب نازل فرمائی جینے مرنے کے آداب سکھائے بادشاہت بھی دی اس کے باوجود ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اس انعام و اکرام کو مانا لیکن بعض نے خود بھی کفر کیا اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے روکاحالانکہ وہ بھی بنی اسرائیل ہی تھے تو جبکہ یہ اپنے والوں سے بھی منکر ہو چکے ہیں تو پھر اے نبی آخر الزمان آپ کا انکار ان سے کیا دور ہے؟ جب کہ آپ ان میں سے بھی نہیں ، یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ بعض اس پر یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور بعض نہ لائے پس یہ کافر اپنے کفر میں بہت سخت اور نہایت پکے ہیں اور ہدایت و حق سے بہت ہی دور ہیں پھر انہیں ان کی سزا سنائی جا رہی ہے کہ جہنم کا جلنا انہیں بس ہے ، ان کے کفر و عناد کی ان کی تکذیب اور سرکشی کی یہ سزا کافی ہے ۔