Surah

Information

Surah # 71 | Verses: 28 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 71 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
مِّمَّا خَطِٓيْئٰتِهِمۡ اُغۡرِقُوۡا فَاُدۡخِلُوۡا نَارًا  ۙ فَلَمۡ يَجِدُوۡا لَهُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَنۡصَارًا‏ ﴿25﴾
یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے ڈبو دیئے گئے اور جہنم میں پہنچا دیئے گئے اور اللہ کے سوا اپنا کوئی مددگار انہوں نے نہ پایا ۔
مما خطيتهم اغرقوا فادخلوا نارا فلم يجدوا لهم من دون الله انصارا
Because of their sins they were drowned and put into the Fire, and they found not for themselves besides Allah [any] helpers.
Yeh log ba sabab apney gunaahon kay dabo deygay aur jahanum mein phuncha diey gaye aur Allah kay siwa apna koi madadgar unhonay na paya
################
اپنی کیسی خطاؤں پر ڈبوئے گئے ( ف٤۲ ) پھر آگ میں داخل کیے گئے ( ف٤۳ ) تو انہوں نے اللہ کے مقابل اپنا کوئی مددگار نہ پایا ( ف٤٤ )
اپنی خطآؤں کی بنا پر ہی وہ غرق کیے گئے اور آگ میں جھونک دیے گئے19 ، پھر انہوں نے اپنے لیے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہ پایا20 ۔
۔ ( بالآخر ) وہ اپنے گناہوں کے سبب غرق کر دئیے گئے ، پھر آگ میں ڈال دئیے گئے ، سو وہ اپنے لئے اﷲ کے مقابل کسی کو مددگار نہ پا سکے
سورة نُوْح حاشیہ نمبر :19 یعنی غرق ہونے پر ان کا قصہ تمام نہیں ہو گیا ، بلکہ مرنے کے بعد فوراً ہی ان کی روحیں آگ کے عذاب میں مبتلا کر دی گئیں ۔ یہ بعینہ وہی معاملہ ہے جو فرعون اور اس کی قوم کے ساتھ کیا گیا ، جیسا کہ سورہ مومن ، آیات 45 ۔ 46 میں بیان کیا گیا ہے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، المومن ، حاشیہ 63 ) ۔ یہ آیت بھی ان آیات میں سے ہے جس سے برزخ کا عذاب ثابت ہوتا ہے ۔ سورة نُوْح حاشیہ نمبر :20 یعنی اپنے جن معبودوں کو وہ اپنی حامی و مددگار سمجھتے تھے ان میں سے کوئی بھی انہیں بچانے کے لیے نہ آیا ۔ یہ گویا تنبیہ تھی اہل مکہ کے لیے کہ تم بھی اگر خدا کے عذاب میں مبتلا ہو گئے تو تمہارے یہ معبود ، جن پر تم بھروسا کیے بیٹھے ہو ، تمہارے کسی کام نہ آئیں گے ۔
کثرت گناہ تباہی کو دعوت دیتا ہے خطیئاتھم کی دوسری قرأت خطایاھم بھی ہے فرماتا اپنے گناہوں کی کثرت کی وجہ سے یہ لوگ ہلاک کر دیئے گئے ان کی سرکشی ، ضد اور ہٹ دھرمی ان کی مخالفت و دشمنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حد سے گذر گئی تو انہیں پانی میں ڈبو دیا گیا ، اور یہاں سے آگ کے گڑھے میں دھکیل دیئے گئے اور کوئی نہ کھڑا ہوا جو انہیں ان عذابوں سے بچا سکتا ، جیسے فرمان ہے آیت ( قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ 43؀ ) 11-ھود:43 ) یعنی آج کے دن عذاب اللہ سے کوئی نہیں بچا سکتا صرف وہی نجات یافتہ ہو گا جس پر اللہ رحم کرے ، نوح نبی علیہ السلام ان بدنصیبوں کی اپنے قادر و ذوالجلال اللہ کی چوکھٹ پر اپنا ماتھا رکھ کر فریاد کرتے ہیں اور اس مالک سے ان پر آفت و عذاب نازل کرنے کی درخواست پیش کرتے ہیں کہ اللہ اب تو ان ناشکروں میں سے ایک کو بھی زمین پر چلتا پھرتا نہ چھوڑ اور یہی ہوا بھی کہ سارے کے سارے غرق کر دیئے گئے یہاں تک کہ حضرت نوح علیہ السلام کا سگا بیٹا جو باپ سے الگ رہا تھا وہ بھی نہ بچ سکا ، سمجھا تو یہ تھا کہ پانی میرا کیا بگاڑ لے گا میں کسی بڑے پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا لیکن وہ پانی تو نہ تھا وہ تو غضب الٰہی تھا ، وہ تو بد دعائے نوح تھا اس سے بھلا کون بچا سکتا تھا ؟ پانی نے اسے وہیں جا لیا اور اپنے باپ کے سامنے باتیں کرتے کرتے ڈوب گیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر طوفان نوح میں اللہ تعالیٰ کسی پر رحم کرتا تو اس کے لائق وہ عورت تھی جو پانی کو ابلتے اور برستے دیکھ کر اپنے بچے کو لے کر اٹھ کھڑی ہوئی اور پہاڑ پر چڑھ گئی جب پانی وہاں بھی آ گیا ہے تو بچے کو اٹھا کر اپنے مونڈھے پر بٹھا لیا جب پانی وہاں پہنچا تو اس نے بچے کو سر پر اٹھا لیا ، جب پانی سر تک جا چڑھا تو اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر سر سے بلند کر لیا لیکن آخر پانی وہاں تک جا پہنچا اور ماں بیٹا ڈوب گئے ، اگر اس دن زمین کے کافروں میں سے کوئی بھی قابل رحم ہوتا تو یہ عورت تھی مگر یہ بھی نہ بچ سکی نہ ہی بیٹے کو بچا سکی ۔ یہ حدیث غریب ہے لیکن راوی اس کے سب ثقہ ہیں ۔ الغرض روئے زمین کے کافر غرق کر دیئے گئے ۔ صرف وہ با ایمان ہستیاں باقی رہیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ان کی کشتی میں تھیں اور حضرت نوح نے انہیں اپنے ساتھ اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا ، چونکہ حضرت نوح علیہ السلام کو سخت تلخ اور دیرینہ تجربہ ہو چکا تھا اس لئے اپنی ناامیدی کو ظاہر فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا الٰہی میری چاہت ہے کہ ان تمام کفار کو برباد کر دیا جائے ، ان میں سے جو بھی باقی بچ رہا وہی دوسروں کی گمراہی کا باعث بنے گا اور جو نسل اس کی پھیلے گی وہ بھی اسی جیسی بدکار اور کافر ہو گی ، ساتھ ہی اپنے لئے بخشش طلب کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں میرے رب ، مجھے بخش میرے والدین کو بخش اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں آ جائے اور ہو بھی وہ با ایمان ، گھر سے مراد مسجد بھی لی ہے لیکن عام مراد یہی ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن ہی کے ساتھ بیٹھو ، رہو ، سہو اور صرف پرہیزگار ہی تیرا کھانا کھائیں ، یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے ، امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں صرف اسی اسناد سے یہ حدیث معروف ہے ، پھر اپنی دعا کو عام کرتے ہیں اور کہتے ہیں تمام ایماندار مرد و عورت کو بھی بخش خواہ زندہ ہوں خواہ مردہ اسی لئے مستحب ہے کہ ہر شخص اپنی دعا میں دوسرے مومنوں کو بھی شامل رکھے تاکہ حضرت نوح علیہ السلام کی اقتدار بھی ہو اور ان احادیث پر بھی عمل ہو جائے جو اس بارے میں ہیں اور وہ دعائیں بھی آ جائیں جو منقول ہیں ، پھر دعا کے خاتمے پر کہتے ہیں کہ باری تعالیٰ ان کافروں کو تو تباہی ، بربادی ، ہلاکت اور نقصان میں ہی بڑھاتا رہ ، دنیا و آخرت میں برباد ہی رہیں ۔ الحمد اللہ سورہ نوح کی تفسیر بھی ختم ہو گئی ۔