سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ( اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے ) ، تو بے شک وہ اس ( رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے ( علمِ غیب کی حفاظت کے لئے ) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے
سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :27
یعنی رسول بجائے خود عالم الغیب نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالی جب اس کو رسالت کا فریضہ انجام دینے کے لیے منتخب فرماتا ہے تو غیب کے حقائق میں سے جن چیزوں کا علم وہ چاہتا ہے اسے عطا فرما دیتا ہے ۔
سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :28
محافظوں سے مراد فرشتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالی وحی کے ذریعہ سے غیب کے حقائق کا علم رسول کے پاس بھیجتا ہے تو اس کی نگہبانی کرنے کے لیے ہر طرف فرشتے مقرر کر دیتا ہے تاکہ وہ علم نہایت محفوظ طریقے سے رسول تک پہنج جائے اور اس میں کسی قسم کی آمیزش نہ ہونے پائے ۔ یہ وہی بات ہے جو اوپر آیات 8 ۔ 9 میں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جنوں نے اپنے لیے عالم بالا تک رسائی کے تمام دروازے بند پائے اور انہوں نے دیکھا کہ سخت چوکی پہرے لگ گئے ہیں جن کے باعث کہیں ذرا سی سن گن لینے کا موقع بھی ان کو نہیں ملتا ۔