Surah

Information

Surah # 74 | Verses: 56 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 4 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
يٰۤاَيُّهَا الۡمُدَّثِّرُۙ‏ ﴿1﴾
اے کپڑا اوڑھنے والے ۔
يايها المدثر
O you who covers himself [with a garment],
Aey kapra orhnay waly
اے کپڑے میں لپٹنے والے ( ١ )
اے بالا پوش اوڑھنے والے! ( ف۲ )
اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے1 ،
اے چادر اوڑھنے والے ( حبیب! )
سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :1 اوپر دیباچے میں ہم ان آیات کے نزول کا جو پس منظر بیان کر کے آئے ہیں اس پر غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ سکتی ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یایھا الرسول یا یایھا النبی کہہ کر مخطاب کرنے کے بجائے یایھا المدثر کہہ کر کیوں مخاطب کیا گیا ہے ۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یکایک جبریل علیہ السلام کو آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے دیکھ کر ہیبت زدہ ہو گئے تھے اور اسی حالت میں گھر پہنچ کر آپ نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا تھا کہ مجھے اڑھاؤ ، مجھے اڑھاؤ ، اس لیے اللہ تعالی نے آپ کو یایھا المدثر کہہ کر خطاب فرمایا ۔ اس لطیف طرز خطاب سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اے میرے پیارے بندے ، تم اوڑھ لپیٹ کر لیٹ کہاں گئے ، تم پر تو ایک کار عظیم کا بار ڈالا گیا ہے جسے انجام دینے کے لیے تمہیں پورے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوناچاہیے ۔
ابتدائے وحی حضرت جابر سے صحیح بخاری شریف میں مروی ہے کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی یہی آیت ( يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ Ǻ۝ۙ ) 74- المدثر:1 ) نازل ہوئی ہے ، لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ سب سے پہلی وحی آیت ( اقرا باسم ) کی آیتیں ہیں جیسے اسی سورت کی تفسیر کے موقعہ پر آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ یحییٰ بن ابو کثیر فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن سے سوال کیا کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی کونسی آیتیں نازل ہوئیں؟ تو فرمایا آیت ( یا ایھا المدثر ) میں نے کہا لوگ تو آیت ( اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ Ǻ۝ۚ ) 96- العلق:1 ) بتاتے ہیں فرمایا میں نے حضرت جابر سے پوچھا تھا انہوں نے وہی جواب دیا جو میں نے تمہیں دیا اور میں نے بھی وہی کہا جو تم نے مجھے کہا اس کے جواب میں حضرت جابر نے فرمایا کہ میں تو تم سے وہی کہتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں حرا میں اللہ کی یاد سے جب فارغ ہوا اور اترا تو میں نے سنا کہ گویا مجھے کوئی آواز دے رہا ہے میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا تو میں نے سر اٹھا کر اوپر کو دیکھا تو آواز دینے والا نظر آیا ۔ میں خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا اور کہا مجھے چادر اڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو انہوں نے ایسا ہی کیا اور آیت ( يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ Ǻ۝ۙ ) 74- المدثر:1 ) کی آیتیں اتریں ( بخاری ) صحیح بخاری مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کی حدیث بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں چلا جا رہا تھا کہ ناگہاں آسمان کی طرف سے مجھے آواز سنائی دی ۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا کہ جو فرشتہ میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے میں مارے ڈر اور گھبراہٹ کے زمین کی طرف جھک گیا اور گھر آتے ہی کہا کہ مجھے کپڑوں سے ڈھانک دو چنانچہ گھر والوں نے مجھے کپڑے اوڑھا دیئے اور سورہ مدثر کی ( وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ Ĉ۝۽ ) 74- المدثر:5 ) تک کی آیتیں اتریں ، ابو سلمہ فرماتے ہیں ( رجز ) سے مراد بت ہیں ۔ پھر وحی برابر تابڑ توڑ گرما گرمی سے آنے لگی ، یہ لفظ بخاری کے ہیں اور یہی سیاق محفوظ ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کوئی وحی آئی تھی کیونکہ آپ کا فرمان موجود ہے کہ یہ وہی تھا جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام جبکہ غار میں سورہ اقراء کی آیتیں ( مالم یعلم ) تک پڑھا گئے تھے ، پھر اس کے بعد وحی کچھ زمانہ تک نہ آئی پھر جو اس کی آمد شروع ہوئی اس میں سب سے پہلے وحی سورہ مدثر کی ابتدائی آیتیں تھیں اور اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے کہ دراصل سب سے پہلے وحی تو اقراء کی آیتیں ہیں پھر وحی کے رک جانے کے بعد کی اس سے پہلی وحی اس سورت کی آیتیں ہیں اس کی تائید مسند احمد وغیرہ کی احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ہے کہ وحی رک جانے کے بعد کی پہلی وحی اس کی ابتدائی آیتیں ہیں ، طبرانی میں اس سورت کا شان نزول یہ مروی ہے کہ ولید بن مغیرہ نے قریشیوں کی دعوت کی جب سب کھا پی چکے تو کہنے لگا بتاؤ تم اس شخص کی بابت کیا کہتے ہو؟ تو بعض نے کہا جادوگر ہے بعض نے کہا نہیں ہے ، بعض نے کہا کاہن ہے کسی نے کہا کاہن نہیں ہے ، بعض نے کہا شاعر ہے بعض نے کہا شاعر نہیں ہے ، بعض نے کہا اس کا یہ کلام یعنی قرآن منقول جادو ہے چنانچہ اس پر اجماع ہو گیا کہ اسے منقول جادو کہا جائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع پہنچی تو غمگین ہوئے اور سر پر کپڑا ڈال لیا اور کپڑا اوڑھ بھی لیا جس پر یہ آیتیں فاصبر تک اتریں ۔ پھر فرمایا ہے کہ کھڑے ہو جاؤ ، یعنی عزم اور قومی ارادے کے ساتھ کمربستہ اور تیار ہو جاؤ اور لوگوں کو ہماری ذات سے ، جہنم سے ، اور ان کے بداعمال کی سزا سے ڈرا ۔ ان کو آگاہ کر دو ان سے غفلت کو دور کر دو ، پہلی وحی سے نبوۃ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ممتاز کیا گیا اور اس وحی سے آپ رسول بنائے گئے اور اپنے رب ہی کی تعظیم کرو اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو یعنی معصیت ، بدعہدی ، وعدہ شکنی وغیرہ سے بچتے رہو ، جیسے کہ شاعر کے شعر میں ہے کہ بحمد للہ میں فسق و فجور کے لباس سے اور غدر کے رومال سے عاری ہوں ، عربی محاورے میں یہ برابر آتا ہے کہ کپڑے پاک رکھو یعنی گناہ چھوڑ دو ، اعمال کی اصلاح کر لو ، یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ دراصل آپ نہ تو کاہن ہیں نہ جادوگر ہیں یہ لوگ کچھ ہی کہا کریں آپ پرواہ بھی نہ کریں ، عربی محاورے میں جو معصیت آلود ، بد عہد ہو اسے میلے اور گندے کپڑوں والا اور جو عصمت مآب ، پابند وعدہ ہو اسے پاک کپڑوں والا کہتے ہیں ، شاعر کہتا ہے ۔ اذا المر الم یدنس من اللوم عرضہ فکل ردا یرتدیہ جمیل یعنی انسان جبکہ سیہ کاریوں سے الگ ہے تو ہر کپڑے میں وہ حسین ہے اور یہ مطلب بھی ہے کہ غیر ضروری لباس نہ پہنو اپنے کپڑوں کو معصیت آلود نہ کرو ۔ کپڑے پاک صاف رکھو ، میلوں کو دھو ڈالا کرو ، مشرکوں کی طرح اپنا لباس ناپاک نہ رکھو ۔ دراصل یہ سب مطالب ٹھیک ہیں یہ بھی وہ بھی ۔ سات ہی دل بھی پاک ہو دل پر بھی کپڑے کا اطلاق کلام عرب میں پایا جاتا ہے جیسے امراء القیس کے شعر میں ہے اور حضرت سعید بن جبیر سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اپنے دل کو اور اپنی نیت کو صاف رکھو ، محمد بن کعب قرظی اور حسن سے یہ بھی مروی ہے کہ اپنے اخلاق کو اچھا رکھو ۔ گندگی کو چھوڑ دو یعنی بتوں کو اور اللہ کی نافرمانی چھوڑ دو ، جیسے اور جگہ فرمان ہے ( يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا Ǻ۝ۙ ) 33- الأحزاب:1 ) اے نبی اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی نہ مانو ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام سے فرمایا تھا اے ہارون میرے بعد میری قوم میں تم میری جانشینی کرو اصلاح کے درپے رہو اور مفسدوں کی راہ اختیار نہ کرو ۔ پھر فرماتا ہے عطیہ دے کر زیادتی کے خواہاں نہ رہو ، ابن مسعود کی قرأت میں آیت ( ان تستکثر ) ہے ، یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اپنے نیک اعمال کا احسان اللہ پر رکھتے ہوئے حد سے زیادہ تنگ نہ کرو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ طلب خیر میں غفلت نہ برتو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپنی نبوت کا بار احسان لوگوں پر رکھ کر اس کے عوض دنیا طلبی نہ کرو ، یہ چار قول ہوئے ، لیکن اول اولیٰ ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے ان کی ایذاء پر جو راہ اللہ میں تجھے پہنچے تو رب کی رضامندی کی خاطر صبر و ضبط کر ، اللہ تعالیٰ نے جو تجھے منصب دیا ہے اس پر لگا رہ اور جما رہ ۔ ( ناقور ) سے مراد صور ہے ، مسند احمد ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں کیسے راحت سے رہوں؟ حالانکہ صور والے فرشتے نے اپنے منہ میں صور لے رکھا ہے اور پیشانی جھکائے ہوئے حکم اللہ کا منتظر ہے کہ کب حکم ہو اور وہ صور پھونک دے ، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر ہمیں کیا ارشاد ہوتا ہے؟ فرمایا کہو دعا ( حسبنا اللہ ونعم الوکیل علی اللہ توکلنا ) پس صور کے پھونکے جانے کا ذکر کر کے یہ فرما کر جب صور پھونکا جائے گا پھر فرماتا ہے کہ وہ دن اور وہ وقت کافروں پر بڑا سخت ہو گا جو کسی طرح آسان نہ ہو گا ، جیسے اور جگہ خود کفار کا قول مروی ہے کہ آیت ( فَذٰلِكَ يَوْمَىِٕذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ Ḍ۝ۙ ) 74- المدثر:9 ) یہ آج کا دن تو بیحد گراں بار اور سخت مشکل کا دن ہے ، حضرت زرارہ بن اوفی رحمتہ اللہ علیہ جو بصرے کے قاضی تھے وہ ایک مرتبہ اپنے مقتدیوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے اسی سورت کی تلاوت تھی جب اس آیت پر پہنچے تو بےساختہ زور کی ایک چیخ منہ سے نکل گئی اور گر پڑے لوگوں نے دیکھا روح پرواز ہو چکی تھی ، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے ۔