Surah

Information

Surah # 74 | Verses: 56 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 4 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
وَمَا جَعَلۡنَاۤ اَصۡحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰٓٮِٕكَةً‌ وَّمَا جَعَلۡنَا عِدَّتَهُمۡ اِلَّا فِتۡنَةً لِّلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ۙ لِيَسۡتَيۡقِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ وَيَزۡدَادَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِيۡمَانًا‌ وَّلَا يَرۡتَابَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ‌ۙ وَلِيَقُوۡلَ الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ وَّالۡكٰفِرُوۡنَ مَاذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا ‌ؕ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ ‌ؕ وَمَا يَعۡلَمُ جُنُوۡدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ ‌ؕ وَمَا هِىَ اِلَّا ذِكۡرٰى لِلۡبَشَرِ‏ ﴿31﴾
ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے رکھے ہیں اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لئے مقرر کی ہے تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں اور اہل ایمان کے ایمان اور اضافہ ہو جائے اور اہل کتاب اور اہل ایمان شک نہ کریں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ اور کافر کہیں کہ اس بیان سے اللہ تعالٰی کی کیا مراد ہے؟ اس طرح اللہ تعالٰی جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا یہ تو کل بنی آدم کے لیے سراسر پندونصیحت ہے ۔
و ما جعلنا اصحب النار الا ملىكة و ما جعلنا عدتهم الا فتنة للذين كفروا ليستيقن الذين اوتوا الكتب و يزداد الذين امنوا ايمانا و لا يرتاب الذين اوتوا الكتب و المؤمنون و ليقول الذين في قلوبهم مرض و الكفرون ما ذا اراد الله بهذا مثلا كذلك يضل الله من يشاء و يهدي من يشاء و ما يعلم جنود ربك الا هو و ما هي الا ذكرى للبشر
And We have not made the keepers of the Fire except angels. And We have not made their number except as a trial for those who disbelieve - that those who were given the Scripture will be convinced and those who have believed will increase in faith and those who were given the Scripture and the believers will not doubt and that those in whose hearts is hypocrisy and the disbelievers will say, "What does Allah intend by this as an example?" Thus does Allah leave astray whom He wills and guides whom He wills. And none knows the soldiers of your Lord except Him. And mention of the Fire is not but a reminder to humanity.
Hum ney dozakh kay daroghy say farishtay rakhein hein aur hum ney unki tadad sirf kafiron ki azmaish kay liye mukarrar ki hay takay ahl e kitab yaqeen ker lein.aur ahl e eman kay eman mein asafa ho jay aur ahl e kitab aur ahl e eman shak na kerien aur jin kay dilon mein bimari hay wo aur kafir kahein kay is biyan say Allah Talah jissy chata hay ghumrah kerta hay aur jissy chata hay hidayat dyta hay tery rab kay lashkaron ko us kay siwa koi nahi janta yeh to kul bani adam kay liye sar a sar pind o nasehat hay
################
اور ہم نے دوزخ کے داروغہ نہ کیے مگر فرشتے ، اور ہم نے ان کی یہ گنتی نہ رکھی مگر کافروں کی جانچ کو ( ف۲۱ ) اس لیے کہ کتاب والوں کو یقین آئے ( ف۲۲ ) اور ایمان والوں کا ایمان بڑھے ( ف۲۳ ) اور کتاب والوں اور مسلمانوں کو کوئی شک نہ رہے اور دل کے روگی ( مریض ) ( ف۲٤ ) اور کافر کہیں اس اچنبھے کی بات میں اللہ کا کیا مطلب ہے ، یونہی اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور ہدایت فرماتا ہے جسے چاہے ، اور تمہارے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اور وہ ( ف۲۵ ) تو نہیں مگر آدمی کے لیے نصیحت ،
ہم 17 نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں18 ، اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے19 ، تاکہ اہل کتاب کو یقین آجائے20 اور ایمان لانے والوں کا ایمان بڑھے21 ، اور اہل کتاب اور مومنین کسی شک میں نہ رہیں ، اور دل کے بیمار22 اور کفار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اس عجیب بات سے کیا مطلب ہو سکتا ہے23 ۔ اس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے24 ۔ اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں25 جانتا ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس دوزخ کا ذکر اس کے سوا کسی غرض کے لیےنہیں کیا گیا کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو26 ۔ ؏١
اور ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے ہی مقرر کئے ہیں اور ہم نے ان کی گنتی کافروں کے لئے محض آزمائش کے طور پر مقرر کی ہے تاکہ اہلِ کتاب یقین کر لیں ( کہ قرآن اور نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق ہے کیونکہ ان کی کتب میں بھی یہی تعداد بیان کی گئی تھی ) اور اہلِ ایمان کا ایمان ( اس تصدیق سے ) مزید بڑھ جائے ، اور اہلِ کتاب اور مومنین ( اس کی حقانیت میں ) شک نہ کر سکیں ، اور تاکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں ( نفاق کی ) بیماری ہے اور کفار یہ کہیں کہ اس ( تعداد کی ) مثال سے اللہ کی مراد کیا ہے؟ اسی طرح اللہ ( ایک ہی بات سے ) جسے چاہتا ہے گمراہ ٹھہراتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت فرماتا ہے ، اور آپ کے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اور یہ ( دوزخ کا بیان ) اِنسان کی نصیحت کے لئے ہی ہے
سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :17 یہاں سے لے کر تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا تک کی پوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو دوران تقریر میں سلسلہ کلام کو توڑ کر ان معترضین کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا ہے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ سن کر کہ دوزخ کے کارکنوں کی تعداد صرف 19 ہو گی ، اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا تھا ۔ ان کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ ایک طرف سے ہم سے یہ کہا جا رہا کہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر قیامت تک دنیا میں جتنے انسانوں نے بھی کفر اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے ، اور دوسری طرف ہمیں یہ خبر دی جا رہی ہے کہ اتنی بڑی دوزخ میں اتنے بے شمار انسانوں کو عذاب دینے کے لیے صرف 19 کارکن مقرر ہوں گے ۔ اس پر قریش کے سرداروں نے بڑے زور کا ٹھٹھا مارا ۔ ابو جہل بولا ، بھائیو ، کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ تم میں سے دس دس آدمی مل کر بھی دوزخ کے ایک ا یک سپاہی سے نمٹ نہ لیں گے ؟ بنی جمح کے ایک پہلوان صاحب کہنے لگے 17 سے تو میں اکیلا نمٹ لوں گا ، باقی دو کو تم سب مل کر سنبھال لینا ۔ انہی باتوں کے جواب میں یہ فقرے بطور جملہ معترضہ ارشاد ہوئے ہیں ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :18 یعنی ان کی قوتوں کو انسانی قوتوں پر قیاس کرنا تمہاری حماقت ہے ۔ وہ آدمی نہیں ، فرشتے ہونگے اور تم اندازہ نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالی نے کیسی کیسی زبردست طاقتوں کے فرشتے پیدا کیے ہیں ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :19 یعنی بظاہر تو اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ دوزخ کے کارکنوں کی تعداد بیان کی جاتی ۔ لیکن ہم نے ان کی یہ تعداد اس لیے بیان کر دی ہے کہ یہ ہر اس شخص کے لیے فتنہ بن جائے جو اپنے اندر کوئی کفر چھپائے بیٹھا ہو ۔ ایسا آدمی چاہے ایمان کی کتنی ہی نمائش کر رہا ہو ، اگر وہ خدا کی خدائی اور اس کی عظیم قدرتوں کے با رے میں ، یا وحی و رسالت کے بارے میں شک کا کوئی شائبہ بھی اپنے دل کے کسی گوشے میں لیے بیٹھا ہو تو یہ سنتے ہی کہ خدا کی اتنی بڑی جیل میں بے حد و حساب مجرم جنوں اور انسانوں کو صرف 19 سپاہی قابو میں بھی رکھیں گے اور فردا فردا ایک ایک شخص کو عذاب بھی دیں گے ، تو اس کا کفر فورا کھل کر باہر آ جائے گا ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :20 بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اہل کتاب ( یہود و نصاری ) کے ہاں چونکہ ان کی اپنی کتابوں میں بھی دوزخ کے فرشتوں کی یہی تعداد بیان کی گئی ہے ، اس لیے یہ بات سن کر ان کو یقین آ جائے گا کہ یہ بات فی الواقع اللہ تعالی ہی کی فرمائی ہوئی ہے ۔ لیکن یہ تفسیر ہمارے نزدیک دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے ۔ اول یہ کہ یہود و نصاری کی جو مذہبی کتابیں دنیا میں پائی جاتی ہیں ان میں تلاش کے باوجود ہمیں یہ بات کہیں نہیں ملی کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد 19 ہے ۔ دوسرے قرآن مجید میں بکثرت ایسی باتیں ہیں جو اہل کتاب کے ہاں ان کی مذہبی کتابوں میں بھی بیان کی گئی ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس کی یہ توجیہ کر دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں ان کتابوں سے نقل کر لی ہیں ۔ ان وجوہ سے ہمارے نزدیک اس ارشاد کا صحیح مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میری زبان سے دوزخ کے 19 فرشتوں کا ذکر سن کر میرا خوب مذاق اڑایا جائے گا ، لیکن اس کے باوجود جو بات اللہ تعالی کی طرف سے آنے والی وحی میں بیان ہوئی تھی اسے انہوں نے کسی خوف اور جھجک کے بغیر علی الاعلان لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور کسی کے مذاق و استہزاء کی ذرہ برابر پروا نہ کی ۔ جہلائے عرب تو انبیاء کی شان سے ناواقف تھے ، مگر اہل کتاب خوب جانتے تھے کہ انبیاء کا ہر زمانے میں یہی طریقہ رہا ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آتا تھا اسے وہ جو کا تو لوگوں تک پہنچا دیتے تھے خواہ وہ لوگوں کو پسند ہو یا ناپسند ۔ اس بنا پر اہل کتاب سے یہ بات زیادہ متوقع تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل کو دیکھ کر انہیں یقین آ جائے گا کہ ایسے سخت مخالف ماحول میں ایسی بظاہر انتہائی عجیب بات کو کسی جھجک کے بغیر پیش کر دینا ایک نبی ہی کا کام ہو سکتا ہے ۔ یہ بات بھی وا ضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ طرز عمل بار ہا ظاہر ہوا ہے ۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال معراج کا واقعہ ہے جسے آپ نے کفار کے مجمع عام میں بلا تکلف بیان کر دیا اور اس بات کی ذرہ برابر پروا نہ کی اس حیرت انگیز قصے کو سن کر آپ کے مخالفین کیسی کیسی باتیں بنائیں گے ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :21 یہ بات اس سے پہلے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہو چکی ہے کہ ہر آزمائش کے موقع پر جب ایک مومن اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتا ہے اور شک و انکار یا اطاعت سے فرار یا دین سے بے وفائی کی راہ چھوڑ کر یقین و اعتماد اور اطاعت و فرمانبرداری اور دین سے وفاداری کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے ( تشریح کے لیے ملاحظہ تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، آیت 173 ۔ جلد دوم ، الانفال ، آیت 2 ، حاشیہ 6 ۔ التوبہ ، آیات 124 ۔ 125 ۔ حاشیہ 125 ۔ جلد چہارم ، الاحزاب ، آیت 22 ، حاشیہ 83 ۔ جلد پنجم ، الفتح ، آیت 4 ، حاشیہ 7 ) ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :22 قرآن مجید میں چونکہ بالعموم دل کی بیماری سے مراد منافقت لی جاتی ہے ، اس لیے یہاں اس لفظ کو دیکھ کر بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی کیونکہ منافقین کا ظہور مدینہ ہی میں ہوا ہے ۔ لیکن یہ خیال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے ۔ اول تو یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ مکہ میں منافق موجود نہ تھے ، اور اس کی غلطی ہم تفہیم القرآن ، جلد سوم میں صفحہ 672 ، 674 اور 680 تا 682 پر واضح کر چکے ہیں ۔ دوسرے یہ طرز تفسیر ہمارے نزدیک درست نہیں ہے کہ ایک سلسلہ کلام جو خاص موقع پر خاص حالات میں ارشاد ہوا ہو ، اس کے اندر یکایک کسی ایک فقرے کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ وہ کسی دوسرے موقعہ پر نازل ہوا تھا اور یہاں لا کر کسی مناسبت کے بغیر شامل کر دیا گیا ۔ سورہ مدثر کے اس حصے کا تاریخی پس منظر ہمیں معتبر روایات سے معلوم ہے ۔ یہ ابتدائی مکی دور کے ایک خاص واقعہ کے بارے میں نازل ہوا ہے ۔ اس کا پورا سلسلہ کلام اس واقعہ کے ساتھ صریح مناسبت رکھتا ہے ۔ اس مضمون میں آخر کونسا موقع تھا کہ اس ایک فقرے کو ، اگر وہ کئی سال بعد مدینہ میں نازل ہوا تھا ، اس جگہ لا کر چسپاں کر دیا جاتا ؟ اب رہا یہ سوال کہ یہاں دل کی بیماری سے مراد کیا ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد شک کی بیماری ہے ۔ مکہ ہی میں نہیں ، دنیا بھر میں پہلے بھی اور آج بھی کم لوگ ایسے تھے اور ہیں جو قطعیت کے ساتھ خدا ، آخرت ، وحی ، رسالت ، جنت ، دوزخ وغیرہ کا انکار کرتے ہوں ۔ اکثریت ہر زمانے میں انہی لوگوں کی رہی ہے جو اس شک میں مبتلا رہے ہیں کہ معلوم نہیں خدا ہے یا نہیں ۔ آخرت ہو گی یا نہیں ، فرشتوں اور جنت اور دوزخ کا واقعی کوئی وجود ہے یا یہ محض افسانے ہیں ، اور رسول واقعی رسول تھے اور ان پر وحی آتی تھی یا نہیں ۔ یہی شک اکثر لوگوں کو کفر کے مقام پر کھینچ لے گیا ہے ، ورنہ ایسے بے وقوف دنیا میں کبھی زیادہ نہیں رہے جنہوں نے بالکل قطعی طور پر ان حقائق کا انکار کر دیا ہو ، کیونکہ جس آدمی میں ذرہ برابر بھی عقل کا مادہ موجود ہے وہ یہ جانتا ہے کہ ان امور کے صحیح ہونے کا امکان بالکل رد کر دینے اور انہیں قطعاً خارج از امکان قرار دینے کے لیے ہرگز کوئی بنیاد موجود نہیں ہے ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :23 اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اسے اللہ کا کلام تو مان رہے تھے مگر تعجب اس بات پر ظاہر کر رہے تھے کہ اللہ نے یہ بات کیوں فرمائی ۔ بلکہ دراصل وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جس کلام میں ایسی بعید از عقل و فہم بات کہی گئی ہے وہ بھلا اللہ کا کلام کیسے ہو سکتا ہے ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :24 یعنی اس طرح اللہ تعالی اپنے کلام اور اپنے احکام و فرامین میں وقتاً فوقتاً ایسی باتیں ارشاد فرما دیتا ہے جو لوگوں کے لیے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔ ایک ہی بات ہوتی ہے جسے ا یک راستی پسند ، سلیم الطبع اور صحیح الفکر آدمی سنتا ہے اور سیدھے طریقے سے اس کا سیدھا مطلب سمجھ کر سیدھی راہ اختیار کر لیتا ہے ۔ اسی بات کو ایک ہٹ دھرم ، کج فہم اور راستی سے گریز کرنے والا آدمی سنتا ہے اور اس کا ٹیڑھا مطلب نکال کر اسے حق سے دور بھاگ جانے کے لیے ایک نیا بہانا لیتا ہے ۔ پہلا آدمی چونکہ خود حق پسند ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالی اسے ہدایت بخش دیتا ہے ، کیونکہ اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ ہدایت چاہنے والے کو زبردستی گمراہ کرے ۔ اور دوسرا آدمی چونکہ خود ہدایت نہیں چاہتا بلکہ گمراہی کو ہی اپنے لیے پسند کرتا ہے اس لیے اللہ اسے ضلالت ہی کے راستوں پر دھکیل دیتا ہے ، کیونکہ اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ جو حق سے نفرت رکھتا ہو وہ اسے جبراً کھینچ کر حق کی راہ پر لائے ۔ ( اللہ کے ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کے مسئلے پر تفہیم القرآن میں بکثرت مقامات پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی جا چکی ہے ۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: جلد اول ، البقرہ ، حواشی 10 ، 16 ، 19 ، 20 ۔ النساء ، حاشیہ 173 ۔ الانعام ، حواشی 17 ، 28 ، 90 ۔ جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 13 ۔ جلد سوم ، الکہف ، حاشیہ 45 ۔ القصص ، حاشیہ 71 ) ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :25 یعنی اللہ تعالی نے اپنی اس کائنات میں کیسی کیسی اور کتنی مخلوقات پیدا کر رکھی ہیں ، اور ان کو کیا کیا طاقتیں اس نے بخشی ہیں ، اور ان سے کیا کیا کام وہ لے رہا ہے ، ان باتوں کو اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا ایک چھوٹے سے کرہ زمین پر رہنے والا انسان اپنی محدود نظر سے اپنے گرد و پیش کی چھوٹی سی دنیا کو دیکھ کر اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ خدا کی خدائی میں بس وہی کچھ ہے جو اسے اپنے حواس یا اپنے آلات کی مدد سے محسوس ہوتا ہے ، تو یہ اس کی اپنی ہی نادانی ہے ۔ ورنہ یہ خدائی کا کارخانہ اتنا وسیع و عظیم ہے کہ اس کی کسی چیز کا بھی پورا علم حاصل کر لینا انسان کے بس میں نہیں ہے ، کجا کہ اس کی ساری وسعتوں کا تصور اس کے چھوٹے سے دماغ میں سما سکے ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :26 یعنی لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق بنانے اور اس کے عذاب کا مزا چکھنے سے پہلے ہوش میں آجائیں اور اپنے آپ کو اس سے بچانے کی فکر کریں ۔
سخت دل بےرحم فرشتے اور ابو جہل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عذاب دینے پر اور جہنم کی نگہبانی پر ہم نے فرشتے ہی مقرر کئے ہیں جو سخت بےرحم اور سخت کلامی کرنے والے ہیں اس میں مشرکین قریش کی تردید ہے انہیں جس وقت جہنم کے داروغوں کی گنتی بتلائی گئی تو ابو جہل نے کہا اے قریشیوں یہ اگر انیس ہیں تو زیادہ سے زیادہ ایک سو نوے ہم مل کر انہی ہرا دیں گے اس پر کہا جاتا ہے کہ وہ فرشتے ہیں انسان نہیں انہیں نہ تم ہرا سکو نہ تھکا سکو ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابو الاشدین جس کا نام کلدہ بن اسید بن خلف تھا اس نے اس گنتی کو سن کر کہا کہ قریشیو تم سب مل کر ان میں سے دو کو روک لینا باقی سترہ کو میں کافی ہوں ، یہ بڑا مغرور شخص تھا اور ساتھ ہی بڑا قوی تھا یہ گائے کے چمڑے پر کھڑا ہو جاتا پھر دس طاقتور شخص مل کر اسے اس کے پیروں تلے سے نکالنا چاہتے کھال کے ٹکڑے اڑ جاتے لیکن اس کے قدم جنبش بھی نہ کھاتے ، یہی شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر کہا تھا کہ آپ مجھ سے کشتی لڑیں اگر آپ نے مجھے گرا دیا تو میں آپ کی نبوت کو مان لوں گا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کشتی کی اور کئی بار گرایا لیکن اسے ایمان لانا نصیب نہ ہوا ، امام ابن اسحاق نے کشتی والا واقعہ رکانہ بن عبد یزید بن ہاشم بن عبدالمطلب کا بتایا ہے ، میں کہتا ہوں ان دونوں میں کچھ تفاوت نہیں ( ممکن ہے اس سے اور اس سے دونوں سے کشتی ہوئی ہو ) واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا کہ اس گنتی کا ذکر تھا ہی امتحان کے لئے ، ایک طرف کافروں کا کفر کھل گیا ، دوسری جانب اہل کتاب کا یقین کامل ہو گیا ، کہ اس رسول کی رسالت حق ہے کیونکہ خود ان کی کتاب میں بھی یہی گنتی ہے ، تیسری طرف ایماندار اپنے ایمان میں مزید توانا ہوگئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تصدیق کی اور ایمان بڑھایا ، اہل کتاب اور مسلمانوں کو کوئی شک شبہ نہ رہا بیمار دل اور منافق چیخ اٹھے کہ بھلا بتاؤ کہ اسے یہاں ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی ہی باتیں بہت سے لوگوں کے ایمان کی مضبوطی کا سبب بن جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کے شبہ والے دل اور ڈانوا ڈول ہو جاتے ہیں اللہ کے یہ سب کام حکمت سے اور اسرار سے ہیں ، تیرے رب کے لشکروں کی گنتی اور ان کی صحیح تعداد اور ان کی کثرت کا کسی کو علم نہیں وہی خوب جانتا ہے یہ نہ سمجھ لینا کہ بس انیس ہی ہیں ، جیسے یونانی فلسفیوں اور ان کے ہم خیال لوگوں نے اپنی جہالت و ضلالت کی وجہ سے سمجھ لیا کہ اس سے مراد عقول عشرہ اور نفوس تسعہ ہیں حالانکہ یہ مجرد ان کا دعویٰ ہے جس پر دلیل قائم کرنے سے وہ بالکل عاجز ہیں افسوس کہ آیت کے اول پر تو ان کی نظریں ہیں لیکن آخری حصہ کے ساتھ وہ کفر کر رہے ہیں جہاں صاف الفاظ موجود ہیں کہ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر صرف انیس کے کیا معنی؟ بخاری و مسلم کی معراج والی حدیث میں ثابت ہو چکا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المعمور کا صوف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ساتویں آسمان پر ہے اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں اسی طرح دوسرے روز دوسرے ستر ہزار فرشتے اسی طرح ہمیشہ تک لیکن فرشتوں کی تعداد اس قدر کثیر ہے کہ جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آنے کی ، مسند احمد میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے آسمان چرچرا رہے ہیں اور انہیں چرچرانے کا حق ہے ۔ ایک انگلی ٹکانے کی جگہ ایسی خالی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدے میں نہ پڑا ہو ۔ اگر تم وہ جان لیتے جو میں جانتا ہوں تم بہت کم ہنستے ، بہت زیادہ روتے اور بستروں پر اپنی بیویوں کے ساتھ لذت نہ پاسکتے بلک ہفریاد و زاری کرتے ہوئے جنگلوں کی طرف نکل کھڑے ہوتے ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے بےساختہ یہ نکل جاتا کاش کہ میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا ، یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں اور حضرت ابو ذر سے موقوفاً بھی روایت کی گئی ہے ، طبرانی میں ہے ساتوں آسمانوں میں قدم رکھنے کی بالشت بھر یا ہتھیلی جتنی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ قیام کی یا رکوع کی یا سجدے کی حالت میں نہ ہو پھر بھی یہ سب کل قیامت کے دن کہیں گے کہ اللہ تو پاک ہے ہمیں جس قدر تیری عبادت کرنی چاہئے تھی اس قدر ہم سے ادا نہیں ہو سکتی ، البتہ ہم نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا ، امام محمد بن نصر مروزی کی کتاب الصلوۃ میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے ایک مرتبہ صحابہ سے سوال کیا کہ کیا جو میں سن رہا ہوں تم بھی سن رہے ہو؟ انہوں نے جواب میں کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تو کچھ سنائی نہیں دیتا ، آپ نے فرمایا آسمانوں کا چرچر بولنا میں سن رہا ہوں اور وہ اس چرچراہٹ پر ملامت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس پر اس قدر فرشتے ہیں کہ ایک بالشت بھر جگہ خالی نہیں کہیں کوئی رکوع میں ہے اور کہیں کوئی سجدے میں ، دوسری روایت میں ہے آسمان دنیا میں ایک قدم رکھنے کی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں سجدے میں یا قیام میں کوئی فرشتہ نہ ہو ، اسی لئے فرشتوں کا یہ قول قرآن کریم میں موجود ہے ۔ آیت ( وَمَا مِنَّآ اِلَّا لَهٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ ١٦٤؀ۙ ) 37- الصافات:164 ) یعنی ہم میں سے ہر ایک کے لئے مقرر جگہ ہے اور ہم صفیں باندھنے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے والے ہیں ، اس حدیث کا مرفوع ہونا بہت ہی غریب ہے ، دوسری روایت میں یہ قول حضرت ابن مسعود کا بیان کیا گیا ہے ، ایک اور سند سے یہ روایت حضرت ابن علاء بن سعد سے بھی مرفوعاً مروی ہے یہ صحابی فتح مکہ میں اور اس کے بعد کے جہادوں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، لیکن سنداً یہ بھی غریب ہے ایک اور بہت ہی غریب بلکہ سخت منکر حدیث میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے نماز کھڑی ہوئی تھی اور تین شخص بیٹھے ہوئے تھے جن میں کا ایک ابو حجش لیثی تھا آپ نے فرمایا اٹھو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاؤ تو وہ شخص تو کھڑے ہوگئے لیکن ابو جحش کہنے لگا اگر کوئی ایسا شخص آئے جو طاقت و قوت میں مجھ سے زیادہ ہو اور مجھ سے کشتی لڑے اور مجھے گرا دے پھر میرا من مٹی میں ملا دے تو تو میں اٹھوں گا ورنہ بس اٹھ چکا ، حضرت عمر نے فرمایا اور کون آئے گا آجا میں تیار ہوں چنانچہ کشتی ہونے لگی اور میں نے اسے پچھاڑا پھر اس کے منہ کو مٹی میں مل دیا اور اتنے میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ گئے اور اسے میرے ہاتھ سے چھڑا دیا ، میں بڑا بگڑا اور اسی غصہ کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا ابو حفص آج کیا بات ہے؟ میں نے کل واقعہ کہہ سنایا آپ نے فرمایا اگر عمر اس سے خوش ہوتا تو اس پر رحم کرتا اللہ کی قسم میرے نزدیک تو اس خبیث کا سر اتار لیتا تو اچھا تھا ، یہ سنتے ہی حضرت عمر یونہی وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی طرف لپکے ۔ خاصی دور نکل چکے تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی اور فرمایا بیٹھو سن تو لو کہ اللہ ابو جحش کی نماز سے بالکل بےنیاز ہے آسمان دنیا میں خشوع و خضوع والے بیشمار فرشتے اللہ کے سامنے سجدے میں پڑے ہوئے ہیں جو قیامت کو سجدے سے سر اٹھائیں گے اور یہ کہتے ہوئے حاضر ہوں گے کہ اب بھی ہمارے رب ہم سے تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکا ، اسی طرح دوسرے آسمان میں بھی یہی حال ہے ، حضرت عمر نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تسبیح کیا ہے؟ فرمایا آسمان دنیا کے فرشتے تو کہتے ہیں دعا ( سبحان ذی الملک والملکوت ) اور دوسرے آسمان کے فرشتے کہتے ہیں دعا ( سبحان ذی العزۃ والجبروت ) اور تیسرے آسمان کے فرشتے کہتے ہیں دعا ( سبحان الحی الذی لا یموت ) عمر تو بھی اپنی نماز میں اسے کہا کرو حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے جو پڑھنا آپ نے سکھایا ہے اور جس کے پڑھنے کو فرمایا ہے اس کا کیا ہو گا کہا کبھی یہ کہو کبھی وہ پڑھو پہلے جو پڑھنے کو آپ نے فرمایا تھا وہ یہ تھا دعا ( اعوذ بعفوک من عقابک واعوذ برضاک من سخطک واعوذ بک منک جل وجھک ) یعنی اللہ تیرے ہی پناہ پکڑتا ہوں اور تیرا چہرہ جلال والا ہے اور اسحاق مروزی جو راوی حدیث ہے اس سے حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں اور امام ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ بھی انہیں ثقہ راویوں میں گنتے ہیں لیکن حضرت امام ابو داؤد امام نسائی امام عقیلی اور امام دار قطنی انہیں ضعیف کہتے ہیں ، امام ابو حاتم رازی فرماتے ہیں تھے تو یہ سچے مگر نابینا ہو گئے تھے اور کبھی کبھی تلقین قبول کر لیا کرتے تھے ہاں ان کی کاتبوں کی مرویات صحیح ہیں ۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ مضطرب ہیں اور ان کے استاد عبدالملک بن قدامہ ابو قتادہ جمعی میں بھی کلام ہے ، تعجب ہے کہ امام محمد بن نصر رحمتہ اللہ علیہ نے ان کی اس حدیث کو کیسے روایت کر دیا ؟ اور نہ تو اس پر کلام کیا نہ اس کے حال کو معلوم کرایا ، نہ اس کے بعض راویوں کے ضعف کو بیان کیا ۔ ہاں اتنا تو کیا ہے کہ اسے دوسری سند سے مرسلاً روایت کر دیا ہے اور مرسل کی دو سندیں لائے ہیں ایک حضرت سعید بن جبیر دوسری حضرت حسن بصری سے ، پھر ایک اور روایت لائے ہیں کہ حضرت عدی بن ارطاۃ نے مدائن کی جامع مسجد میں اپنے خطبہ میں فرمایا کہ میں نے ایک صحابی سے سنا ہے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے بہت سے ایسے فرشتے ہیں جو ہر وقت خوف اللہ سے کپکپاتے رہتے ہیں ان کے آنسو گرتے رہتے ہیں اور وہ ان فرشتوں پر ٹپکتے ہیں جو نماز میں مشغول ہیں اور ان میں ایسے فرشتے بھی ہیں جو ابتداء دنیا سے رکوع میں ہی ہیں اور بعض سجدے میں ہی ہیں قیامت کے دن اپنی پیٹھ اور اپنا سر اٹھائیں گے اور نہایت عاجزی سے جناب باری تعالیٰ میں عرض کریں گے کہ اللہ تو پاک ہے ہم سے تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکا ۔ اس حدیث کی اسناد میں کوئی حرج نہیں ۔ پھر فرماتا ہے یہ آگ جس کا وصف تم سن چکے یہ لوگوں کے لئے سراسر باعث عبرت و نصیحت ہے ۔ پھر چاند کی رات کے جانے کی صبح کے روشن ہونے کی قسمیں کھا کر فرماتا ہے کہ وہ آگ ایک زبردست اور بہت بڑی چیز ہے ، جو اس ڈراوے کو قبول کر کے حق کی راہ لگنا چاہے لگ جائے ۔ جو چاہے اس کے باوجود حق کو پیٹھ ہی دکھاتا رہے ، اس سے دور بھاگتا رہے ، یا اسے رد کرتا رہے ۔