Surah

Information

Surah # 75 | Verses: 40 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 31 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
لَاۤ اُقۡسِمُ بِيَوۡمِ الۡقِيٰمَةِۙ‏ ﴿1﴾
میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی ۔
لا اقسم بيوم القيمة
I swear by the Day of Resurrection
Mein qasam khata hun qayamat kay din ki
میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی ۔
روز قیامت کی قسم! یاد فرماتا ہوں ،
نہیں1 ، میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی ،
میں قسم کھاتا ہوں روزِ قیامت کی
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :1 کلام کی ابتدا نہیں سے کرنا خود بخود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے سے کوئی بات چل رہی تھی جس کی تردید میں یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اور آگے کا مضمون آپ ہی ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ بات قیامت اور آخرت کی زندگی کے بارے میں تھی جس کا اہل مکہ انکار کرر ہے تھے بلکہ ساتھ ساتھ مذاق بھی اڑا رہے تھے ۔ اس طرز بیان کو اس مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر آپ محض رسول کی صداقت کا اقرار کرنا چاہتے ہوں تو آپ کہیں گے خدا کی قسم رسول برحق ہے ۔ لیکن اگر کچھ رسول کی صداقت کا انکار کر رہے ہوں تو آپ جواب میں اپنی بات یوں شروع کریں گے کہ نہیں ، خدا کی قسم رسول برحق ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہوں وہ صحیح نہیں ہے ، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے ۔
ہم سب اپنے اعمال کا خود آئینہ ہیں یہ کئی دفعہ بیان ہو چکا ہے کہ جس چیز پر قسم کھائی جائے اگر وہ رد کرنے کی چیز ہو تو قسم سے پہلے لا کا کلمہ نفی کی تائید کے لئے لانا جائز ہوتا ہے یہاں قیامت کے ہونے پر اور جاہلوں کے اس قول کی تردید پر قیامت نہ ہو گی قسم کھائی جا رہی ہے تو فرماتا ہے قسم ہے قیامت کے دن کی اور قسم ہے ملامت کرنے والی جان کی ، حضرت حسن تو فرماتے ہیں قیامت کی قسم ہے اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم نہیں ہے ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں دونوں کی قسم ہے ، حسن اور اعرج کی قرأت آیت ( لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ Ǻ۝ۙ ) 75- القيامة:1 ) ہے اس سے بھی حضرت حسن کے قول کی تائید ہوتی ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک پہلے کی قسم ہے اور دوسرے کی نہیں ، لیکن صحیح قول یہی ہے کہ دونوں کی قسم کھائی ہے جیسے کہ حضرت قتادہ کا فرمان ہے ، ابن عباس اور سعید بن جبیر سے بھی یہی مروی ہے اور امام ابن جریر کا مختار قول بھی یہی ہے ۔ یوم قیامت کو تو ہر شخص جانتا ہی ہے ، نفس لوامہ کی تفسیر میں حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد مومن کا نفس ہے وہ ہر وقت اپنے تئیں ملامت ہی کرتا رہتا ہے کہ یوں کیوں کہدیا ؟ یہ کیوں کھا لیا ؟ یہ خیال دل میں کیوں آیا ؟ ہاں فاسق فاجر غافل ہوتا ہے اسے کیا پڑی جو اپنے نفس کو روکے ، یہ بھی مروی ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق قیامت کے دن اپنے تئیں ملامت کرے گی ، خیر والے خیر کی کمی پر اور شر والے شر کے سرزد ہونے پر ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مذموم نفس ہے جو نافرمان ہو ، فوت شدہ پر نادم ہونے والا اور اس پر ملامت کرنے والا ، امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ سب اقوال قریب قریب ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ نفس والا ہے جو نیکی کی کمی پر برائی کے ہو جانے پر اپنے نفس کو ملامت کرتا ہے اور فوت شدہ پر ندامت کرتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کیا انسان یہ سوچے ہوئے ہے کہ ہم قیامت کے دن اس کی ہڈیوں کے جمع کرنے پر قادر نہ ہوں گے ، یہ تو نہایت غلط خیال ہے ہم اسے متفرق جگہ سے جمع کر کے دوبارہ کھڑا کریں گے اور اس کی بالشت بالشت بنا دیں گے ۔ ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں یعنی ہم قادر ہیں کہ اسے اونٹ یا گھوڑے کے تلوے کی طرح بنا دیں ، امام ابن جریر فرماتے ہیں یعنی دنیا میں بھی اگر ہم چاہتے اسے ایسا کر دیتے ، آیت کے لفظوں سے تو ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ( قادرین ) حال ہے ( نجمع ) سے یعنی کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے ہاں ہاں ہم عنقریب جمع کریں گے درآنحالیکہ ہمیں ان کے جمع کرنے کی قدرت ہے بلکہ اگر ہم چاہیں تو جتنا یہ تھا اس سے بھی کچھ زیادہ بنا کر اسے اٹھائیں اس کی انگلیوں کے سرے تک برابر کر کے پیدا کریں ۔ ابن قتیبہ اور زجاج کے قول کے یہی معنی ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ انسان اپنے آگے فسق و فجور کرنا چاہتا ہے یعنی قدم بہ قدم بڑھ رہا ہے ، امیدیں باندھے ہوئے ہے ، کہتا جاتا ہے کہ گناہ کرتولوں توبہ بھی ہو جائے گی قیامت کے دن سے جو اس کے آگے ہے کفر کرتا ہے ، وہ گویا اپنے سر پر سوار ہو کر آگے بڑھ رہا ہے ، ہر وقت یہی پایا جاتا ہے کہ ایک ایک قدم اپنے نفس کو اللہ کی معصیت کی طرف بڑھاتا جاتا ہے مگر جن پر رب کا رحم ہے ، اکثر سلف کا قول اس آیت کی تفسیر میں یہی ہے کہ گناہوں میں جلدی کرتا ہے اور توبہ میں تاخیر کرتا ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو یوم حساب کا منکر ہے ، ابن زید بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ظاہر مراد ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ہے کہ وہ پوچھتا ہے قیامت کب ہو گی ، اس کا یہ سوال بھی بطور انکار کے ہے یہ جانتا ہے کہ قیامت کا آنا محال ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 48؀ ) 10- یونس:48 ) ، کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتا دو کہ قیامت کب آئے گی؟ ان سے کہدے کہ اس کا ایک دن مقرر ہے جس سے نہ تم ایک ساعت آگے بڑھ سکو گے نہ پیچھے ہٹ سکو گے ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ جب آنکھیں پتھرا جائیں گی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ 43؀ۭ ) 14- ابراھیم:43 ) ، یعنی پلکیں جھپکیں گی نہیں بلکہ رعب و دہشت خوف و وحشت کے مارے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھتے رہیں گے ، برق کی دوسری قرأت برق بھی ہے ، معنی قریب قریب ہیں اور چاند کی روشنی بالکل جاتی رہے گی اور سورج چاند جمع کر دیئے جائیں گے یعنی دونوں کو بےنور کر کے لپیٹ لیا جائے گا ، جیسے فرمایا آیت ( اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ Ǻ۝۽ ) 81- التكوير:1 ) حضرت ابن مسعود کی قرأت میں ( وجمیع بین الشمس والقمر ) ہے ، انسان جب یہ پریشانی شدت ہول گھبراہٹ اور انتظام عالم کی یہ خطرناک حالت دیکھے گا تو بھاگا جائے گا اور کہے گا کہ جائے پناہ یعنی بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ملے گا کہ کوئی پناہ نہیں رب کے سامنے اور اس کے پاس ٹھہرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( مَا لَكُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ يَّوْمَىِٕذٍ وَّمَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِيْرٍ 47؀ ) 42- الشورى:47 ) یعنی آج نہ تو کوئی جائے پناہ ہے نہ ایسی جگہ کہ وہاں جا کر تم انجان اور بےپہچان بن جاؤ ، آج ہر شخص کو اس کے اگلے پچھلے نئے پرانے چھوٹے بڑے اعمال سے مطلع کیا جائے گا ، جیسے فرمان ہے آیت ( وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا 49؀ۧ ) 18- الكهف:49 ) جو کیا تھا ، موجود پا لیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ انسان اپنے آپ کو بخوبی جانتا ہے اپنے اعمال کا خود آئینہ ہے گو انکار کرے اور عذر معذرت پیش کرتا پھرے ، جیسے فرمان ہے آیت ( اِقْرَاْ كِتٰبَكَ ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا 14۝ۭ ) 17- الإسراء:14 ) اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے اور اپنے تئیں آپ ہی جانچ لے ، اس کے کان آنکھ ، پاؤں اور دیگر اعضاء ہی اس پر شہادت دینے کافی ہیں ، لیکن افسوس کہ یہ دوسروں کے عیبوں اور نقصانوں کو دیکھتا ہے اور اپنے کیڑے چننے سے غافل ہے ، کہا جاتا ہے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے اے ابن آدم تو دوسروں کی آنکھوں کا تو تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر بھی تجھے دکھائی نہیں دیتا ؟ قیامت کے دن چاہے انسان فضول بہانے بنائے گا اور جھوٹی دلیلیں دے گا بیکار عذر پیش کرے گا مگر ایک بھی قبول نہ کیا جائے گا ۔ اس آیت کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ وہ پردے ڈالے ۔ اہل یمن پردے کو عذر کہتے ہیں ، لیکن صحیح معنی اوپر والے ہیں جیسے اور جگہ ہے کہ کوئی معقول عذر نہ پا کر اپنے شرک کا سر سے انکار ہی کر دیں گے کہ اللہ کی قسم ہم مشرک تھے ہی نہیں اور جگہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی قسمیں کھا کھا کر سچا ہونا چاہیں گے جیسے دنیا میں تمہارے سامنے ان کی حالت ہے لیکن اللہ پر تو ان کا جھوٹ ظاہر ہے چاہے کتنا ہی وہ اپنی تئیں کچھ بھی سمجھتے رہیں ، غرض عذر معذرت انہیں قیامت کے دن کچھ کار آمد نہ ہو گا ، جیسے اور جگہ فرماتا ہے آیت ( يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظّٰلِمِيْنَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ 52؀ ) 40-غافر:52 ) ظالموں کو ان کی معذرت کچھ کام نہ آئے گی یہ تو اپنے شکر کے ساتھ اپنی تمام بداعمالیوں کا بھی انکار کر دیں گے لیکن بےسود ہو گا ۔