Surah

Information

Surah # 75 | Verses: 40 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 31 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَةِؕ‏ ﴿2﴾
اور قسم کھاتا ہوں اس نفس کی جو ملامت کرنے والا ہو ۔
و لا اقسم بالنفس اللوامة
And I swear by the reproaching soul [to the certainty of resurrection].
Aur qasam khata hun uss nafas ki jo malamat kernay wala ho
اور قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی ۔ ( ١ ) ( کہ ہم انسان کو ضرور دوبارہ زندہ کریں گے )
اور اس جان کی قسم! جو اپنے اوپر ملامت کرے ( ف۲ )
اور نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس2 کی ،
اور میں قسم کھاتا ہوں ( برائیوں پر ) ملامت کرنے والے نفس کی
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :2 قرآن مجید میں نفس انسانی کی تین قسموں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک وہ نفس جو انسان کو برائیوں پر اکساتا ہے ۔ اس کا نام نفس امارہ ہے ۔ دوسرا وہ نفس جو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بری نیت رکھنے پر نادم ہوتا ہے اور انسان کو اس پر ملامت کرتا ہے ۔ اس کا نام نفس لوامہ ہے اور اسی کو ہم آج کل کی اصطلاح میں ضمیر کہتے ہیں ۔ تیسرا وہ نفس جو صحیح راہ پر چلنے اور غلط راہ چھوڑ دینے میں اطمینان محسوس کرتا ہے ۔ اس کا نام نفس مطمئنہ ہے ۔ اس مقام پر اللہ تعالی نے قیامت کے دن اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم جس بات پر کھائی ہے اسے بیان نہیں کیا ہے کیونکہ بعد کا فقرہ خود اس بات پر دلالت کر رہا ہے ۔ قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ اللہ تعالی انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ ضرور پیدا کرے گا اور وہ ایسا کرنے پر پوری طرح قادر ہے اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات پر ان دو چیزوں کی قسم کس مناسبت سے کھائی گئی ہے؟ جہاں تک روز قیامت کا تعلق ہے ، اس کی قسم کھانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا آنا یقینی ہے ۔ پوری کائنات کا نظام اس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ یہ نظام نہ ازلی ہے نہ ابدی ۔ اس کی نوعیت ہی خود یہ بتا رہی ہے کہ یہ نہ ہمیشہ سے تھا اور نہ ہمیشہ باقی رہ سکتا ہے ۔ انسان کی عقل پہلے بھی اس گمان بے اصل کے لیے کوئی مضبوط دلیل نہ پاتی تھی کہ یہ ہر آن بدلنے و الی دنیا کبھی قدیم اور غیر فانی بھی ہو سکتی ہے ، لیکن جتنا اس دنیا کے متعلق انسان کا علم بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ یہ امر خود انسان کے نزدیک بھی یقینی ہوتا چلا جاتا ہے کہ اس ہنگامئہ ہست و بو کی ایک ابتدا ہے جس سے پہلے یہ نہ تھا ، اور لازماً اس کی ایک انتہا بھی ہے جس کے بعد یہ نہ رہے گا ۔ اس بنا پر اللہ تعالی نے قیامت کے وقوع پر خود قیامت ہی کی قسم کھائی ہے ، اور یہ ایسی قسم ہے جیسے ہم کسی شکی انسان کو جو اپنے موجود ہونے ہی میں شک کر رہا ہو ، خطاب کر کے کہیں کہ تمہاری جان کی قسم تم موجود ہو ، یعنی تمہارا وجود خود تمہارے موجود ہونے پر شاہد ہے ۔ لیکن روز قیامت کی قسم صرف اس امر کی دلیل ہے کہ ایک دن یہ نظام کائنات درہم برہم ہو جائے گا ۔ رہی یہ بات کہ اس کے بعد پھر انسان دوباوہ اٹھایا جائے گا اور اس کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا اور وہ اپنے کیے کا اچھا یا برا نتیجہ دیکھے گا ، تو اس کے لیے دوسری قسم نفس لوامہ کی کھائی گئی ہے ۔ کوئی انسان دنیا میں ایسا موجود نہیں ہے جو اپنے اندر ضمیر نام کی ایک چیز نہ رکھتا ہو ۔ اس ضمیر میں لازماً بھلائی اور برائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے ، اور چاہے انسان کتنا ہی بگڑا ہوا ہو ، اس کا ضمیر اسے کوئی برائی کرنے اور کوئی بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے قطع نظر اس سے کہ اس نے بھلائی اور برائی کا جو معیار بھی قرار دے رکھا ہو وہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط ۔ یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نرا حیوان نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے ، اس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور برائی کی تمیز پائی جاتی ہے ، وہ خود اپنے آپ کو ا پنے اچھے اور برے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے ، اور جس برائی کا ارتکاب اس نے دوسرے کے ساتھ کیا ہو اس پر اگر وہ اپنے ضمیر کی ملامتوں کو دبا کر خوش بھی ہو لے ، تو اس کے برعکس صورت میں جبکہ اسی برائی کا ارتکاب کسی دوسرے نے اس کے ساتھ کیا ہو ، اس کا دل اندر سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس زیادتی کا مرتکب ضرور سزا کا مستحق ہونا چاہیے ۔ اب اگر انسان کے وجود میں اس طرح کے ایک نفس لوامہ کی موجودگی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ، تو پھر یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ یہی نفس لوامہ زندگی کے بعد موت کی ایک ایسی شہادت ہے جو خود انسان کی فطرت میں موجود ہے ۔ کیونکہ فطرت کا یہ تقاضا کہ اپنے جن اچھے اور برے اعمال کا انسان ذمہ دار ہے ان کی جزا یا سزا اس کو ضرور ملنی چاہیے ، زندگی بعد موت کے سوا کسی دوسری صورت میں پورا نہیں ہو سکتا ۔ کوئی صاحب عقل آدمی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ مرنے کے بعد اگر آدمی معدوم ہو جائے تو اس کی بہت سی بھلائیاں ایسی ہیں جن کے اجر سے وہ لازماً محروم رہ جائے گا ۔ اور اس کی بہت سی برائیاں ایسی ہیں جن کی منصفانہ سزا پانے سے وہ ضرور بچ نکلے گا ۔ اس لیے جب تک آدمی اس بیہودہ بات کا قائل نہ ہو کہ عقل رکھنے والا انسان ایک غیر معقول نظام کائنات میں پیدا ہو گیا ہے اور اخلاقی احساسات رکھنے والا انسان ایک ایسی دنیا میں جنم لیے بیٹھا ہے جو بنیادی طور پر اپنے پورے نظام میں اخلاق کا کوئی وجود ہی نہیں رکھتی ، اس وقت تک وہ حیات بعد موت کا انکار نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح تناسخ یا آواگون کا فلسفہ بھی فطرت کے اس مطالبے کا جواب نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر انسان اپنے اخلاقی اعمال کی سزا یا جزا پانے کے لیے پھر اسی دنیا میں جنم لیتا چلا جائے تو ہر جنم میں وہ پھر کچھ مزید اخلاقی اعمال کرتا چلا جائے گا جو نئے سرے سے جزا و سزا کے متقاضی ہوں گے ۔ اور اس لامتناہی سلسلے میں بجائے اس کے کہ اس کا حساب کبھی چک سکے ، الٹا اس کا حساب بڑھتا ہی چلا جائے گا ۔ اس لیے فطرت کا یہ تقاضا صرف اسی صورت میں پورا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کی صرف ایک زندگی ہو ، اور پھر پوری نوع انسانی کا خاتمہ ہو جانے کے بعد ایک دوسری زندگی ہو جس میں انسان کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک حساب کر کے اسے پوری جزا اور سزا دی جائے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف حاشیہ 30 ) ۔