Surah

Information

Surah # 75 | Verses: 40 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 31 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
لَا تُحَرِّكۡ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعۡجَلَ بِهٖؕ‏ ﴿16﴾
۔ ( اے نبی ) آپ قرآن کو جلدی ( یاد کرنے ) کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں ۔
لا تحرك به لسانك لتعجل به
Move not your tongue with it, [O Muhammad], to hasten with recitation of the Qur'an.
( ay nabi ) aap quran ko jadi ( yaad kernay ) kay liey apni zabaan ko herkat na den
۔ ( اے پیغمبر ) تم اس قرآن کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو ہلایا نہ کرو ۔ ( ٦ )
جب بھی نہ سنا جائے گا تم یاد کرنے کی جلدی میں قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو ( ف۱۲ )
اے11 نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو ،
۔ ( اے حبیب! ) آپ ( قرآن کو یاد کرنے کی ) جلدی میں ( نزولِ وحی کے ساتھ ) اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :11 یہاں سے لے کر پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے تک کی پوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو سلسلہ کلام کو بیج میں توڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ جیسا کہ ہم دیباچہ میں بیان کر آئے ہیں ، نبوت کے ابتدائی دور میں ، جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی اخذ کرنے کی عادت اور مشق پوری طرح نہیں ہوئی تھی ، آپ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کو یہ اندیشہ لاحق ہو جاتا تھا کہ جبریل علیہ السلام جو کلام الہی آپ کو سنا رہے ہیں وہ آپ کو ٹھیک ٹھیک یاد رہ سکے گا یا نہیں ، اس لیے آپ وحی سننے کے ساتھ ساتھ اسے یاد کرنے کی کوشش کرتے لگتے تھے ۔ ایسی ہی صورت اس وقت پیش آئی جب حضرت جبریل سورہ قیامہ کی یہ آیات آپ کو سنا رہے تھے ۔ چنانچہ سلسلہ کلام توڑ کر آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ وحی کے الفاظ یاد کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ غور سے سنتے رہیں ، اسے یاد کرا دینا اور بعد میں ٹھیک ٹھیک آپ سے پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے ، آپ مطمئن رہیں کہ کلام کا ایک لفظ بھی آپ نہ بھولیں گے نہ کبھی اسے ادا کرنے میں غلطی کر سکیں گے ۔ یہ ہدایت فرمانے کے بعد پھر اصل سلسلہ کلام ہرگز نہیں ، اصل بات یہ ہے سے شروع ہو جاتا ہے ۔ جو لوگ اس پس منظر سے واقف نہیں ہیں وہ اس مقام پر ان فقروں کو دیکھ کر یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس سلسلہ کلام میں یہ بالکل بے جوڑ ہیں ۔ لیکن اس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد کلام میں کوئی ربطی محسوس نہیں ہوتی ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک استاد درس دیتے دیتے یکایک یہ دیکھے کہ طالبعلم کسی اور طرف متوجہ ہے اور وہ درس کا سلسلہ توڑ کر طالبعلم سے کہے کہ توجہ سے میری بات سنو اور اس کے بعد آگے پھر اپنی تقریر شروع کر دے ۔ یہ درس اگر جوں کا توں نقل کر کے شائع کر دیا جائے تو جو لوگ اس اصل واقعہ سے واقف نہ ہوں گے وہ اس سلسلہ تقریر میں اس فقرے کو بے جوڑ محسوس کریں ۔ لیکن جو شخص اس اصل واقعہ سے واقف ہو گا جس کی بنا پر یہ فقرہ درمیان میں آیا ہے وہ مطمئن ہو جائے گا کہ درس فی الحقیقت جوں کا توں نقل کیا گیا ہے ، اسے نقل کرنے میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی ہے ۔ اوپر ان آیات کے درمیان یہ فقرے بطور جملہ معترضہ آنے کی جو توجیہ ہم نے کی ہے وہ محض قیاس پر مبنی نہیں ہے ، بلکہ معتبر روایات میں اس کی یہی وجہ بیان ہوئی ہے ۔ مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابن جریر ، طبرانی ، بہیقی اور دوسرے محدثین نے متعدد سندوں سے حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت نقل کی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوتا تھا تو آپ اس خوف سے کہیں کوئی چیز بھول نہ جائیں جبریل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ وحی کے الفاظ دہرانے لگتے تھے ۔ اس پر فرمایا گیا کہ لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی بات شعبی ، ابن زید ، ضخاک ، حسن بصری ، قتادہ ، مجاہد اور دوسرے اکابر مفسرین سے منقول ہے ۔
حفظ قرآن ، تلاوت و تفسیر کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ یہاں اللہ عزوجل اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دیتا ہے کہ فرشتے سے وحی کس طرح حاصل کریں ، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اخذ کرنے میں بہت جلدی کرتے تھے اور قرأت میں فرشتے کے بالکل ساتھ ساتھ رہتے تھے ، پس اللہ عزوجل حکم فرماتا ہے کہ جب فرشتہ وحی لے کر آئے آپ سنتے رہیں ، پھر جس ڈر سے آپ ایسا کرتے تھے اسی طرح اس کا واضح کرانا اور تفسیر اور بیان آپ سے کرانے کے ذمہ داری بھی ہم ہی پر ہے ، پس پہلی حالت یاد کرانا ، دوسری تلاوت کرانا ، تیسری تفسیر ، مضمون اور توضیح مطلب کرانا تینوں کی کفالت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰٓى اِلَيْكَ وَحْيُهٗ ۡ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا ١١٤؁ ) 20-طه:114 ) یعنی جب تک تیرے پاس وحی پوری نہ آئے تو پڑھنے میں جلدی نہ کیا کر ہم سے دعا مانگ کہ میرے رب میرے علم کو زیادہ کرتا رہے ، پھر فرماتا ہے اسے تیرے سینے میں جم کرنا اور اسے تجھ سے پڑھوانا ہمارا ذمہ ہے جب ہم اسے پڑھیں یعنی ہمارا نازل کردہ فرشتہ جب اسے تلاوت کرے تو تو سن لے جب وہ پڑھ چکے تب تو پڑھ ہماری مہربانی سے تجھے پورا یاد ہو گا اتنا ہی نہیں بلکہ حفظ کرانے تلاوت کرانے کے بعد ہم تجھے اس کی معنی مطالب تعین و توضیح کے ساتھ سمجھا دیں گے تاکہ ہماری اصلی مراد اور صاف شریعت سے تو پوری طرح آگاہ ہو جائے ، مسند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پہلے وحی کو دل میں اتارنے کی سخت تکلیف ہوتی تھی اس ڈر کے مارے کہ کہیں میں بھول نہ جاؤں فرشتے کے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے اور آپ کے ہونٹ ہلتے جاتے تھے چنانچہ حضرت ابن عباس راوی حدیث نے اپنے ہونٹ ہلا کر دکھایا کہ اس طرح اور ان کے شاگرد سعید نے بھی اپنے استاد کی طرح ہلا کر اپنے شاگرد کو دکھائے اس پر یہ آیت اتری کہ اتنی جلدی نہ کرو اور ہونٹ نہ ہلاؤ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے اس کی تلاوت کرانا ہمارے سپرد ہے جب ہم اسے پڑھیں تو آپ سنئے اور چپ رہئے جبرائیل کے چلے جانے کے بعد انہی کی طرح ان کا پڑھایا ہوا پڑھنا بھی ہمارے سپرد ہے ، بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے ، بخاری شریف میں یہ بھی ہے کہ پھر جب وحی اترتی آپ نظریں نیچی کر لیتے اور جب وحی چلی جاتی آپ پڑھتے ، ابن ابی حاتم میں بھی بہ روایت ابن عباس یہ حدیث مروی ہے اور بہت سے مفسرین سلف صالحین نے یہی فرمایا ہے یہ بھی مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت تلاوت فرمایا کرتے تھے کہ ایسا نہ ہو میں بھول جاؤں اس پر یہ آیتیں اتریں ، حضرت ابن عباس اور عطیہ عوفی فرماتے ہیں اس کا بیان ہم پر ہے یعنی حلال حرام کا واضح کرنا حضرت قتادہ کا قول بھی یہی ہے ۔ پھر فرمان ہوتا ہے کہ ان کافروں کو قیامت کے انکار ، اللہ کی پاک کتاب کو نہ ماننے اور اللہ کے عظیم الشان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کرنے پر آمادہ کرنے والی چیز حب دنیا اور غفلت آخرت ہے ، حالانکہ آخرت کا دن بڑی اہمیت والا دن ہے ، اس دن بہت سے لوگ تو وہ ہوں گے جن کے چہرے ہشاش بشاش ترو تازہ خوش و خرم ہوں گے اور اپنے رب کے دیدار سے مشرف ہو رہے ہوں گے ، جیسے کہ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ عنقریب تم اپنے رب کو صاف صاف کھلم کھلا اپنے سامنے دیکھو گے ، بہت سی صحیح احادیث سے متواتر سندوں سے جو ائمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں وارد کی ہیں ثابت ہو چکا ہے کہ ایمان والے اپنے رب کے دیدار سے قیامت کے دن مشرف ہوں گے ان احادیث کو نہ تو کوئی ہٹا سکے نہ ان کا کوئی انکار کر سکے ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اپنے رب کو قیامت کے دن دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا سورج اور چاند کو جبکہ آسمان صاف بے ابر ہو دیکھنے میں تمہیں کوئی مزاحمت یا رکاوٹ ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں آپ نے فرمایا اسی طرح تم اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے ، بخاری و مسلم میں ہے حضرت جریر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چودہویں رات کے چاند کو دیکھ رہے ہو پس اگر تم سے ہو سکے تو سورج نکلنے سے پہلے کی نماز ( یعنی صبح کی نماز ) اور سورج ڈوبنے سے پہلے کی نماز ( یعنی عصر کی نماز ) میں کسی طرح کی سستی نہ کرو ، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انہی دونوں متبرک کتابوں میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو جنتیں سونے کی ہیں وہاں کے برتن اور ہر چیز سونے کی ہے اور دو جنتیں چاندی کی ہیں اور ان کے برتن اور ہر چیز چاندی ہی کی ہے سوائے کبریائی کی چادروں کے اور کوئی آڑ نہیں ۔ یہ جنت عدن کا ذکر ہے ، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرمائے گا کچھ چاہتے ہو کہ بڑھا دوں؟ وہ کہیں گے الٰہی تو نے ہمارے چہرے سفید نورانی کر دیئے ، ہمیں جنت میں پہنچا دیا جہنم سے بچا لیا اب ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے؟ اسی وقت حجاب ہٹا دیئے جائیں گے اور ان اہل جنت کی نگاہیں جمال باری سے منور ہوں گی اس میں انہیں جو سرور و لذت حاصل ہو گی وہ کسی چیز میں نہ حاصل ہو گی سب سے زیادہ محبوب انہیں دیدار باری ہو گا اسی کو اس آیت میں لفظ ( زیادہ ) سے تعبیر کیا گیا ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ( لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ ۭ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوْهَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 26؀ ) 10- یونس:26 ) یعنی احسان کرنے والوں کو جنت بھی ملے گی اور دیدار رب بھی ، صحیح مسلم کی حضرت جابر والی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں پر قیامت کے میدان میں مسکراتا ہوا تجلی فرمائے گا ، پس معلوم ہوا کہ ایماندار قیامت کے عرصات میں اور جنتوں میں دیدار الٰہی سے مشرف کئے جائیں گے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے ہلکے درجہ کا جنتی اپنے ملک اور اپنی ملکیت کو دو ہزار سال دیکھتا رہے گا دور اور نزدیک کی چیزیں یکساں نگاہ میں ہوں گی ہر طرف اور ہر جگہ اسی کی بیویاں اور خادم نظر آئیں گے اور اعلیٰ درجہ کے جنتی ایک ایک دن میں دو دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کے بزرگ چہرے کو دیکھیں گے ، ترمذی شریف میں بھی یہ حدیث ہے ، یہ حدیث بروایت حضرت ابن عمر مرفوعًا بھی مروی ہے ، ہمیں ڈر ہے کہ اگر اس قسم کی تمام حدیثیں اور روایتیں اور ان کی سندیں اور ان کے مختلف الفاظ یہاں جمع کریں گے تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا بہت ہی صحیح اور حسن حدیثیں بہت سی مسند اور سنن کی کتابوں میں مروی ہیں جن میں اکثر ہماری اس تفسیر میں متفرق مقامات پر آبھی گئی ہیں ، ہاں توفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اللہ کا شکر ہے کہ اس مسئلہ میں یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار مومنوں کو قیامت کے دن ہونے میں صحابہ تابعین اور سلف امت کا اتفاق اور اجماع ہے ائمہ اسلام اور ہداۃ انام سب اس پر متفق ہیں ، جو لوگ اس کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مراد اس سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو دیکھنا پاس اس آیت کا کیا جواب ہے جہاں بدکاروں کی نسبت فرمایا گیا ہے آیت ( كَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ 15؀ۭ ) 83- المطففين:15 ) یعنی فاجر قیامت کے دن اپنے پروردگار سے پردے میں کر دیئے جائیں گے ، حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ فاجروں کے دیدار الٰہی سے محروم رہنے کا صاف مطلب یہی ہے کہ ابرار یعنی نیک کار لوگ دیدار الٰہی سے مشرف کئے جائیں گے اور متواتر احادیث سے ثابت ہو چکا ہے اور اسی پر اس آیت کی روانگی الفاظ صاف دلالت کرتی ہے کہ ایمان دار دیدار باری سے محظوظ ہوں گے ، حضرت حسن فرماتے ہیں یہ چہرے حسن و خوبی والے ہوں گے کیونکہ دیار رب پر ان کی نگاہیں پڑتی ہوں گی پھر بھلا یہ منور و حسین کیوں نہ ہوں اور بہت سے منہ اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے بدشکل ہو رہے ہوں گے بےرونق اور اداس ہوں گے ، انہیں یقین ہو گا کہ ہم کوئی ہلاکت اور اللہ کی پکڑ آئی ، ابھی ہمیں جہنم میں جانے کا حکم ہوا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ ۣاَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ ١٠٦؁ ) 3-آل عمران:106 ) یعنی اس دن بعض چہرے گورے چٹے خوبصورت اور حسین ہوں گے اور بعض کالے منہ والے ہوں گے اور جگہ سے آیت ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَةٌ Ą۝ۙ ) 88- الغاشية:2 ) ، یعنی قیامت کے دن بہت سے چہرے خوف زدہ دہشت اور ڈر والے بد رونق اور ذلیل ہوں گے جو عمل کرتے رہے تکلیف اٹھاتے رہے لیکن آج بھڑکتی ہوئی آگ میں جا گھسے پھر فرمایا آیت ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاعِمَةٌ Ď۝ۙ ) 88- الغاشية:8 ) ، یعنی بعض چہرے ان دن نعتموں والے خوش و خرم چمکیلے اور شادان و فرحان بھی ہوں گے ، جو اپنے گزشتہ اعمال سے خوش ہوں گے اور بلند و بالا جنتوں میں اقامت رکھتے ہوں گے ، اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔