سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :10
یعنی آدمی کا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھنے کی غرض در حقیقت یہ نہیں ہو گی کہ مجرم کو اس کا جرم بتایا جائے ، بلکہ ایسا کرنا تو اس وجہ سے ضروری ہو گا کہ انصاف کے تقاضے بر سر عدالت جرم ثبوت پیش کیے بغیر پورے نہیں ہوتے ۔ ورنہ ہر انسان خوب جانتا ہے کہ وہ خود کیا ہے ۔ اپنے آپ کو جاننے کے لیے وہ اس کا محتاج نہیں ہوتا کہ کوئی دوسرا اسے بتائے کہ وہ کیا ہے ۔ ایک جھوٹا دنیا بھر کو دھوکہ دے سکتا ہے ، لیکن اسے خود تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ۔ ایک چور لاکھ حیلے اپنی چوری چھپانے کے لیے اختیار کر سکتا ہے ، مگر اس کے اپنے نفس سے تو یہ بات مخفی نہیں ہوتی کہ وہ چور ہے ۔ ایک گمراہ آدمی ہزار دلیلیں پیش کر کے لوگوں کو یہ یقین دلا سکتا ہے کہ وہ جس کفر یا دہریت یا شرک کا قائل ہے وہ درحقیقت اس کی ایماندارانہ رائے ہے ، لیکن اس کا اپنا ضمیر تو اس سے بے خبر نہیں ہوتا کہ ان عقائد پر وہ کیوں جما ہوا ہے اور ان کی غلطی سمجھنے اور تسلیم کرنے سے دراصل کیا چیز اسے روک رہی ہے ۔ ایک ظالم ، ایک بد دیانت ، ایک بد کردار ، ایک حرام خور اپنی بد اعمالیوں کے لیے طرح طرح کی معذرتیں پیش کر کے خود اپنے ضمیر تک کا منہ بند کرنے کی کوشش کر سکتا ہے تاکہ وہ اسے ملامت کرنے سے باز آجائے اور یہ مان لے کہ واقعی کچھ مجبوریاں ، کچھ مصلحتیں ، کچھ ضرورتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ یہ سب کچھ کر رہا ہے ، لیکن اس کے باوجود اس کو یہ علم تو بہرحال ہوتا ہی ہے کہ اس نے کس پر کیا ظلم کیا ہے ، کس کا حق مارا ہے ، کس کی عصمت خراب کی ہے ، کس کو دھوکا دیا ہے اور کن ناجائز طریقوں سے کیا کچھ حاصل کیا ہے ۔ اس لیے آخرت کی عدالت میں پیش ہوتے وقت ہر کافر ، ہر منافق ، ہر فاسق و فاجر اور مجرم خود جانتا ہو گا کہ وہ کیا کر کے آیا ہے اور کس حیثیت میں آج اپنے خدا کے سامنے کھڑا ہے ۔