Surah

Information

Surah # 75 | Verses: 40 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 31 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ‌ ۚ‏ ﴿23﴾
اپنے رب کی طرف دیکھتے ہونگے ۔
الى ربها ناظرة
Looking at their Lord.
Apney rab ki taraf dekhtay hongay
اپنے پروردگار کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ۔ ( ٩ )
اپنے رب کا دیکھتے ( ف۲۰ )
اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے17 ۔
اور ( بلا حجاب ) اپنے رب ( کے حسن و جمال ) کو تک رہے ہوں گے
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :17 مفسرین میں سے بعض نے اسے مجازی معنی میں لیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی کی طرف دیکھنے کے الفاظ محاورے کے طور پر اس سے توقعات وابستہ کرنے ، اس کے فیصلے کا انتظار کرنے ، اس کے کرم کا امیدوار ہونے کے معنی میں بولے جاتے ہیں ، حتی کہ ایک اندھا بھی یہ کہتا ہے کہ میری نگاہیں تو فلاں شخص کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ وہ میرے لیے کیا کرتا ہے ۔ لیکن بکثرت احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی جو تفسیر منقول ہے وہ یہ ہے کہ آخرت میں اللہ کے مکرم بندوں کو اپنے رب کا دیدار نصیب ہو گا ۔ بخاری کی روایت ہے کہ انکم سترون ربکم عیانا ۔ تم اپنے رب کو علانیہ دیکھو گے ۔ مسلم اور ترمذی میں حضرت صہیب کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی لوگ جنت میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالی ان سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں مزید کچھ دوں؟ وہ عرض کریں گے کیا آپ نے ہمارے چہرے روشن نہیں کر دیے؟ کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کر دیا اور جہنم سے بچا نہیں لیا ؟ اس پر اللہ تعالی پردہ ہٹا دے گا اور ان لوگوں کو جو کچھ انعامات ملے تھے ان میں سے کوئی انعام ہے جس کے متعلق قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ للذین احسنو الحسنی و زیادۃ ۔ یعنی جن لوگوں نے نیک عمل کیا ان کے لیے اچھا اجر ہے اور اس پر مزید بھی ۔ ( یونس ۔ 26 ) ۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کیا تمہیں سورج اور چاند کو دیکھنے میں کوئی دقت ہوتی ہے جبکہ بیچ میں بادل بھی نہ ہو؟ لوگوں نے عرض کیا ، نہیں ۔ آپ نے فرمایا اسی طرح تم اپنے رب کو دیکھو گے ۔ اسی مضمون سے ملتی جلتی ایک اور روایت بخاری و مسلم میں حضرت جریر بن عبداللہ سے مروی ہے ۔ مسند احمد ، ترمذی ، دار قطنی ، ابن جریر ، ابن المنذر ، طبرانی ، بہیقی ، ابن ابی شیبہ اور بعض دوسرے محدثین نے تھوڑے لفظی اختلاف کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت نقل کی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ اہل جنت میں سے کم درجے کا جو آدمی ہو گا وہ اپنی سلطنت کی وسعت دو ہزار سال کی مسافت تک دیکھے گا ، اور ان میں سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والے لوگ ہر روز دو مرتبہ اپنے رب کو دیکھں گے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی کہ اس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے ، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ۔ ابن ماجہ میں حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ اللہ ان کی طرف دیکھے گا اور وہ اللہ کی طرف دیکھیں گے ، پھر جب تک اللہ ان سے پردہ نہ فرما لے گا اسوقت تک وہ جنت کی کسی نعمت کی طرف توجہ نہ کریں گے ۔ اور اسی کی طرف دیکھتے رہیں گے ۔ یہ اور دوسری بہت سی روایات ہیں جن کی بنا پر اہل السنت قریب قریب بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب لیتے ہیں کہ آخرت میں اہل جنت اللہ تعالی کے دیدار سے مشرف ہوں گے ۔ اور اس کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے کہ کلا انھم عن ربھم یومیذ لمحجوبون ہر گز نہیں ، وہ ( یعنی فجار ) اس روز اپنے رب کی دید سے محروم ہوں گے ۔ ( المطففین ۔ 15 ) ۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ محرومی فجار کے لیے ہو گی نہ کہ ابرار کے لیے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان خدا کو دیکھ کیسے سکتا ہے؟ دیکھنے کے لیے تو لازم ہے کہ کوئی چیز کسی خاص جہت ، مقام ، شکل اور رنگ میں سامنے موجود ہو ، روشنی کی شعاعیں اس سے منعکس ہو کر انسان کی آنکھ پر پڑیں اور آنکھ سے دماغ کے مرکز بینائی تک اس کی تصویر منتقل ہو ۔ کیا اللہ رب العالمین کی ذات کے متعلق اس طرح قابل دید ہونے کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ انسان اس کو دیکھ سکے؟ لیکن یہ سوال دراصل ایک بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ اس میں دو چیزوں کے درمیان فرق نہیں کیا گیا ہے ۔ ایک چیز ہے دیکھنے کی حقیقت اور دوسری چیز ہے دیکھنے کا فعل صادر ہونے کی وہ خاص صورت جس سے ہم اس دنیا میں آشنا ہیں ۔ دیکھنے کی حقیقت یہ ہے کہ دیکھنے والے میں بینائی کی صفت موجود ہو ، وہ نابینا نہ ہو ، اور دیکھی جانے والی چیز اس پر عیاں ہو ، اس سے مخفی نہ ہو ۔ لیکن دنیا میں ہم کو جس چیز کا تجربہ اور مشاہدہ ہوتا ہے وہ صرف دیکھنے کی وہ خاص صورت ہے جس سے کوئی انسان یا حیوان بالفعل کسی چیز کو دیکھا کرتا ہے ، اور اس کے لیے لا محالہ یہ ضروری ہے کہ دیکھنے والے کے جسم میں آنکھ نامی ایک عضو موجود ہو ، اس عضو میں بینائی کی طاقت پائی جاتی ہو ، اور آنکھ میں اس کی شکل سما سکے ۔ اب اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ دیکھنے کی حقیقت کا عملی ظہور صرف اسی خاص صورت میں ہو سکتا ہے جس سے ہم اس دنیا میں واقف ہیں تو یہ خود اس کے اپنے دماغ کی تنگی ہے ، ورنہ در حقیقت خدا کی خدائی میں دیکھنے کی ایسی بیشمار صورتیں ممکن ہیں جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ اس مسئلے میں جو شخص الجھتا ہے وہ خود بتائے کہ اس کا خدا بینا ہے نابینا ؟ اگر وہ بینا ہے اور اپنی ساری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہا ہے تو کیا وہ اسی طرح آنکھ نامی ایک عضو سے دیکھ رہا ہے جس سے دنیا میں انسان و حیوان دیکھ رہے ہیں اور اس سے بینائی کے فعل کا صدور اسی طریقے سے ہو رہا ہے جس طرح ہم سے ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے اور جب اس کا جواب نفی میں ہے تو آخر کسی صاحب عقل و فہم انسان کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ آخرت میں اہل جنت کو اللہ تعالی کا دیداد اس مخصوص شکل میں نہیں ہو گا جس میں انسان دنیا میں کسی چیز کو دیکھتا ہے ، بلکہ وہاں دیکھنے کی حقیقت کچھ اور ہوگی جس کا ہم یہاں ادراک نہیں کر سکتے؟ واقعہ یہ ہے کہ آخرت کے معاملات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینا ہمارے لیے اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا ایک دو برس کے بچے کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ازدواجی زندگی کیا ہوتی ہے ، حالانکہ جوان ہو کر اسے خود اس سے سابقہ پیش آنا ہے ۔