سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :21
مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو ماننے کے لیے تیار نہ تھا اس نے وہ سب کچھ سنا جو اوپر کی آیات میں بیان کیا گیا ہے ، مگر پھر بھی وہ اپنے انکار ہی پر اڑا رہا اور یہ آیات سننے کے بعد اکڑتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل دیا ۔ مجاہد ، قتادہ اور ابن زید کہتے ہیں کہ یہ شخص ابو جہل تھا ۔ آیت کے الفاظ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایک شخص تھا جس نے سورہ قیامہ کی مذکورہ بالا آیات سننے کے بعد یہ طرز عمل اختیار کیا ۔
اس آیت کے یہ الفاظ کہ اس نے نہ سچ مانا اور نہ نماز پڑھی خاص طور پر توجہ کے مستحق ہیں ۔ ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کی صداقت تسلیم کرنے کا اولین اور لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھے ، شریعت الہی کے دوسرے احکام کی تعمیل کی نوبت تو بعد ہی میں آتی ہے ، لیکن ایمان کے اقرار کے بعد کچھ زیادہ مدت نہیں گزرتی کہ نماز کا وقت آجاتا ہے اور اسی وقت یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی نے زبان سے جس چیز کو ماننے کا اقرار کیا ہے وہ واقعی اس کے دل کی آواز ہے یا محض ایک ہوا ہے جو اس نے چند الفاظ کی شکل میں منہ سے نکال دی ہے ۔