Surah

Information

Surah # 75 | Verses: 40 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 31 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَيَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ اَنۡ يُّتۡرَكَ سُدًىؕ‏ ﴿36﴾
کیا انسان یہ سمجھتا ہے کے اسے بیکار چھوڑ دیا جائے گا ۔
ايحسب الانسان ان يترك سدى
Does man think that he will be left neglected?
Kiya insan yeh samjhta hay kay usy be kaar chor diay jaey ga
کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟ ( ١٣ )
کیا آدمی اس گھمنڈ میں ہے کہ آزاد چھوڑ دیا جائے گا ( ف۳۵ )
کیا23 انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا24؟
کیا اِنسان یہ خیال کرتا ہے کہ اُسے بے کار ( بغیر حساب و کتاب کے ) چھوڑ دیا جائے گا
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :23 اب کلام کو ختم کرتے ہوئے اسی مضمون کا اعادہ کیا جا رہا ہے جس سے کلام کا آغاز کیا گیا تھا ، یعنی زندگی بعد موت ضروری بھی ہے اور ممکن بھی ۔ سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :24 عربی زبان میں ابل سدی اس اونٹ کے لیے بولتے ہیں جو یونہی چھوٹا پھر رہا ہو ، جدھر چاہے چرتا پھرے ، کوئی اس کی نگرانی کرنے والا نہ ہو ۔ اسی معنی میں ہم شتر بے مہار کا لفظ بولتے ہیں ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کیا انسان نے اپنے آپ کو شتر بے مہار سمجھ رکھا ہے کہ اس کے خالق نے اسے زمین میں غیر ذمہ دار بنا کر چھوڑ دیا ہو؟ کوئی فرض اس پر عائد نہ ہو ؟ کوئی چیز اس کے لیے ممنوع نہ ہو؟ اور کوئی وقت ایسا آنے والا نہ ہو جب اس سے اس کے اعمال کی باز پرس کی جائے؟ یہی بات ایک دوسرے مقام پر قرآن مجید میں اسی طرح بیان کی گئی ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالی کفار سے فرمائے گا: افحسبتم انما خلقنکم عبثا و انکم الینا لا ترجعون ۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں کبھی ہماری طرف پلٹ کر نہیں آنا ہے ؟ ( المؤمنون ۔ 115 ) ان دونوں مقامات پر زندگی بعد موت کے واجب ہونے کی دلیل سوال کی شکل میں پیش کی گئی ہے ۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا واقعی تم نے اپنے آپ کو جانور سمجھ رکھا ہے؟ کیا تمہیں اپنے اور جانور میں یہ کھلا فرق نظر نہیں آتا کہ وہ بے اختیار ہے اور تم با اختیار ، اس کے افعال میں اخلاقی حسن و قبح کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور تمہارے افعال میں یہ سوال لازماً پیدا ہوتا ہے؟ پھر تم نے اپنے متعلق یہ کیسے سمجھ لیا کہ جس طرح جانور غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ ہے اس طرح تم بھی ہو؟ جانور کے دوبارہ زندہ کر کے نہ اٹھائے جانے کی معقول وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ اس نے صرف اپنی جبلت کے لگے بندھے تقاضے پورے کیے ہیں ، اپنی عقل سے کام لے کر کوئی فلسفہ تصنیف نہیں کیا ، کوئی مذہب ایجاد نہیں کیا ، کسی کو معبود نہیں بتایا نہ خود کسی کا معبود بنا ، کوئی کام ایسا نہیں کیا جسے نیک یا بد کہا جا سکتا ہو ، کوئی اچھی یا بری سنت جاری نہیں کی جس کے ا ثرات نسل در نسل چلتے رہیں اور وہ ان پر کسی اجر یا سزا کا مستحق ہو ۔ لہذا وہ اگر مر کر فنا ہو جائے تو یہ سمجھ میں آنے کے قابل بات ہے کیونکہ اس پر اپنے کسی عمل کی ذمہ داری عائد ہی نہیں ہوتی جس کی باز پرس کے لیے اسے دوبارہ زندہ کر کے اٹھانے کی کوئی حاجت ہو ۔ لیکن تم حیات بعد موت سے کیسے معاف کیے جا سکتے ہو جبکہ عین اپنی موت کے وقت تک تم ایسے ا خلاقی افعال کرتے رہتے ہو جن کے نیک یا بد ہونے اور جزا یا سزا کے مستوجب ہونے کا تمہاری عقل خود لگاتی ہے؟ جس آدمی نے کسی بے گناہ کو قتل کیا اور فواً ہی اچانک کسی حادثے کا شکار ہو گیا ، کیا تمہارے نزدیک اس کو نلوہ ( Scot free ) چھوٹ جانا چاہیے اور اس ظلم کا بدلہ اسے کبھی نہ ملنا چاہیے؟ جو آدمی دنیا میں کسی ایسے فساد کا بیج بو گیا جس کا خمیازہ اس کے بعد صدیوں تک انسانی نسلیں بھگتی رہیں ، کیا تمہاری عقل واقعی اس بات پر مطمئن ہے کہ اسے بھی کسی بھنگے یا ٹڈے کی طرح مر کر فنا ہو جانا چاہیے اور کبھی اٹھ کر اپنے ان کرتوتوں کی جوابدہی نہیں کرنی چاہیے جن کی بدولت ہزاروں لاکھوں انسانوں کی زندگیاں خراب ہوئیں؟ جس آدمی نے عمر بھر حق و انصاف اور خیر و صلاح کے لیے اپنی جان لڑائی ہو اور جیتے جی مصیبتیں ہی بھگتا رہا ہو کیا تمہارے خیال میں وہ بھی حشرات الارض ہی کی قسم کی کوئی مخلوق ہے جسے اپنے اس عمل کی جزا پانے کا کوئی حق نہیں ہے؟