Surah

Information

Surah # 76 | Verses: 31 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 98 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
مُّتَّكِـِٕـيۡنَ فِيۡهَا عَلَى الۡاَرَآٮِٕكِ‌ۚ لَا يَرَوۡنَ فِيۡهَا شَمۡسًا وَّلَا زَمۡهَرِيۡرًا‌ۚ‏ ﴿13﴾
یہ وہاں تختوں پر تکیے لگائے ہوئے بیٹھیں گے ۔ نہ وہاں آفتاب کی گرمی دیکھیں گے نہ جاڑے کی سختی ۔
متكين فيها على الاراىك لا يرون فيها شمسا و لا زمهريرا
[They will be] reclining therein on adorned couches. They will not see therein any [burning] sun or [freezing] cold.
Yeh wahan takhton per takiey lagaey huye bethen gay na wahan aftab ki garmi dfekhein gay ja jaray ki sakhti
وہ ان باغوں میں آرام دہ اونچی نشستوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے ، جہاں نہ دھوپ کی تپش دیکھیں گے اور نہ کڑا کے کی سردی ۔
جنت میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوں گے ، نہ اس میں دھوپ دیکھیں گے نہ ٹھٹر ( سخت سردی ) ( ف۲۰ )
وہاں وہ اونچی مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے ۔ نہ انہیں دھوپ کی گرمی ستائے گی نہ جاڑے کی ٹھر ۔
یہ لوگ اس میں تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے ، نہ وہاں دھوپ کی تپش پائیں گے اور نہ سردی کی شدّت
دائمی خوشگوار موسم اور مسرتوں سے بھرپور زندگی اہل جنت کی نعمت ، راحت ، ان کے ملک و مال اور جاہ و منال کا ذکر ہو رہا ہے کہ یہ لوگ بہ آرام تمام پورے اطمینان اور خوش دلی کے ساتھ جنت کے مرصع ، مزین ، جڑاؤ تختوں پر بےفکری سے تکئے لگائے سرور اور راحت سے بیٹھے مزے لوٹ رہے ہوں گے ، سورہ والصافات کی تفسیر میں اس کی پوری شرح گذر چکی ہے ، وہیں یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ اتکا سے مراد لیٹنا ہے یا کہنیاں ٹکانا ہے یا چار زانو بیٹھنا ہے یا کمر لگا کر ٹیک لگانا ہے ، اور یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ ارائک چھپر کھٹوں کو کہتے ہیں ، پھر ایک اور نعمت بیان ہو رہی ہے کہ وہاں نہ تو سورج کی تیز شععوں سے انہیں کوئی تکلیف پہنچے نہ جاڑے کی بہت سرد ہوائیں انہیں ناگوار گذریں بلکہ بہار کا سا موسم ہر وقت اور ہمیشہ رہتا ہے گرمی سردی کے جھمیلوں سے الگ ہیں ، جنتی درختوں کی شاخیں جھوم جھوم کر ان پر سایہ کئے ہوئے ہوں گی اور میوے ان سے بالکل قریب ہوں گے چاہے لیٹے لیٹے توڑ کر کھالیں ، چاہے بیٹھے بیٹھے لے لیں چاہے کھڑے ہو کر لے لیں درختوں پر چڑھنے اور تکلیف کی کوئی حاجت نہیں پر میوے دار لچھے اور لدے ہوئے لچھے لٹک رہے ہیں توڑا اور کھا لیا اگر کھڑے ہیں تو میوے اتنے اونچے ہیں بیٹھے تو قدرے جھک گئے لیٹے تو اور قریب آ گئے ، نہ تو کانٹوں کی رکاوٹ نہ دوری کی سردردی ہے ، حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنت کی زمین چاندی کی ہے اور اس کی مٹی مشک خالص ہے اس کے درختوں کے تنے سونے چاندی کے ہیں ڈالیاں لولو زبر جد اور یاقوت کی ہیں ، ان کے درمیان پتے اور پھل ہیں جن کے توڑنے میں کوئی وقت اور مشکل نہیں چاہ بیٹھے بیٹھے توڑ لو چاہو کھڑے کھڑے بلکہ اگر چاہیں لیٹے لیٹے ایک طرف خوش خرام ، خوش دل ، خوبصورت ، با ادب ، سلیقہ شعار ، فرمانبردار خادم قسم قسم کے کھانے چاندی کی کشتیوں میں لگائے لئے کھڑے ۔ دوسری جانب شراب طہور سے چھلکتے ہوئے بلوریں جام لئے ساقیان مہوش اشارے کے منتظر ہیں ، یہ گلاس صفائی میں شیشے جیسے اور سفیدی میں چاندی جیسے ہوں گے ، دراصل ہوں گے چاندی کے لیکن شیشے کی طرح شفا ف ہوں گے کہ اندر کی چیز باہر سے نظر آئے ، جنت کی تمام چیزوں کی یونہی سی برائے نام مشابہت دنیا کی چیزوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن ان چاندی کے بلوریں گلاسوں کی کوئی نظری نہیں ملتی ، ہاں یہ یاد رہے کہ پہلے کے لفظ قواریر پر زبر تو اس لئے ہے کہ وہ کان کی خبر ہے اور دوسرے پر زبریا توبدلیت کی بنا پر ہے یا تمیز کی بنا پر ، پھر یہ جام نپے تلے ہوئے ہیں ساقی کے ہاتھ میں بھی زیب دیں اور ان کی ہتھیلیوں پر بھلے معلوم ہوں اور ینے والوں کے حسب خواہش شراب طہور اس میں سما جائے جو نہ بچے نہ گھٹے ۔ ان نایاب گلاسوں میں جو پاک خوش ذائقہ اور سرور والی بےنشے کی شراب انہیں ملے گی وہ جنت کی نہر سلسبیل کے پانی سے مخلوط کر کے دی جائے گی ، اوپر گذر چکا ہے کہ نہر کا فور کے پانی سے مخلوط کر کے دی جائے گی تو مطلب یہ ہے کبھی اس ٹھنڈک والے سرد مزاج پانی سے کبھی اس نفیس گرم مزاج پانی سے تاکہ اعتدال قائم رہے ، یہ ابرار لوگوں کا ذکر ہے اور خاص مقربین خالص اس نہر کا شربت پئیں گے ، سلسبیل بقول عکرمہ جنت کے ایک چشمے کا نام ہے کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ مسلسل روانگی سے لہرایا چال بہہ رہا ہے ، اس کا پانی بڑا ہلکا ، نہایت شیریں ، خوش ذائقہ اور خوش بو ہے جو آسانی سے پیا جائے اور ہضم اور جزو بدن ہوتا رہے ۔ ان نعمتوں کے ساتھ ہی خوبصورت حسین نوخیز کم عمر لڑکے ان کی خدمت کے لئے کمر بستہ ہوں گے ، یہ غلمان جنتی جس سن و سال میں ہوں گے اسی میں رہیں گے یہ نہیں کہ سن بڑھ کر صورت بگڑ جائے ، نفیس پوشاکیں اور بیش قیمث جڑاؤ زیور پہنے بہ تعداد کثیر ادھر ادھر مختلف کاموں پر بٹے ہوئے ہوں گے جنہیں دوڑ بھاگ کر مستعدی اور چالاکی سے انجام دے رہے ہوں گے ایسا معلوم ہو گا گویا سفید آب دار موتی ادھر ادھر جنت میں بکھرے پڑے ہیں ۔ حقیت میں اس سے زیادہ اچھی تشبیہ ان کے لئے کوئی اور نہ تھی کہ یہ صاحب جمال خوش خصال بوٹے سے قد والے سفید نورانی چہروں والے پاک صاف سجی ہوئی پوشاکیں پہنے زیور میں لدے اپنے مالک کی فرمانبرداری میں دوڑتے بھاگتے ادھر ادھر پھرتے ایسے بھلے معلوم ہوں گے سجے سجائے پر تکلف فرش پر سفید چمکیلے سچے موتی ادھر ادھر لڑھک رہے ہوں ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہر ہر جنتی کے ایک ہزار خادم ہوں گے جو مختلف کام کاج میں لگے ہوئے ہوں گے ۔ پھر فرماتا ہے اے نبی تم جنت کی جس جگہ نظر ڈالو تمہیں نعمتیں اور عظیم الشان سلطنت نظر آئے گی تم دیکھو گے کہ راحت و سرور نعمت و نور سے چپہ چپہ معمور ہے چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ سب سے آخر میں جو جہنم میں سے نکالا جائے گا اور جنت میں بھیجا جائے گا اس سے جناب باری تبارک و تعالیٰ فرمائے گا جا میں نے تجھے جنت میں وہ دیا جو مثل دنیا کے ہے ، بلکہ اس سے بھی دس حصے زیادہ دیا ، اور حضرت ابن عمر کی روایت سے وہ حدیث بھی پہلے گذر چکی ہے جس میں ہے کہ ادنیٰ جنتی کی ملکیت و ملک دو ہزار سال تک ہو گا ہر قریب و بعید کی چیز پر اس کی بہ یک نظر یکاسں نگاہیں ہوں گی ، یہ حال تو ہے ادنیٰ جنتی کا پھر سمجھ لو کہ اعلیٰ جنتی کا درجہ کیا ہو گا ؟ اور اس کی نعمتیں کیسی ہوں گی ( اے اللہ اے بغیر ہماری دعا اور عمل کے ہمیں شیر مادر کے چشمے عنایت کرنے والے ہم بہ عاجزی و الحاج تیری پاک جناب میں عرض گذار ہیں کہ تو ہمارے مشتاق دل کے ارمان پورے کر اور ہمیں بھی جنت الفردوس نصیب فرما ۔ گو ایسے اعمال نہ ہوں لیکن ایمان ہے کہ تیری رحمت اعمال پر ہی موقف نہیں ، آمین ۔ مترجم ) طبرانی کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں وارد ہے کہ ایک حبشی دربار رسالت میں حاضر ہوا ، آپ نے اسے فرمایا تمہیں جو کچھ پوچھنا ہو جس بات کو سمجھنا ہو پوچھ لو اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صورت ، شکل ، رنگ ، روپ ، نبوۃ و رسالت میں آپ کو ہم پر فضیلت دی گئی ہے اب یہ تو فرمایئے کہ اگر میں بھی ان چیزوں پر ایمان لاؤں جن پر آپ ایمان لائے ہیں اور جن پر آپ عمل کرتے ہیں اگر میں بھی اسی پر عمل کروں تو کیا جنت میں آپ کے ساتھ ہو سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا ہاں قسم ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ سیاہ رنگ لوگوں کو جنت میں وہ سفید رنگ دیا جائے گا کہ ایک ہزار سال کے فاصلے سے دکھائی دے گا پھر حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا جو شخص لا الہ الا اللہ کہے اس کے لئے اللہ کے پاس عہد مقرر ہو جاتا ہے اور جو شخص سبحان اللہ و بحمدہ کہے اس کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، تو ایک شخص نے کہا پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیسے ہال ہوں گے؟ آپ نے فرمایا سنو ایک شخص اتنی نیکیاں لائے گا کہ اگر کسی بڑے پہاڑ پر رکھی جائیں تو اس پر بوجھل پڑیں لیکن پھر جو اللہ کی نعمتیں اس کے مقابل آئیں گی تو قریب ہو گا کہ سب فنا ہو جائیں مگر یہ اور بات ہے کہ رحمت رب توجہ فرمائے اس وقت یہ سورت ملکا کبیراً تک اتری اسی حبشی نے کہا کہ اے حضور جو کچھ آپ کی آنکھیں جنت میں دیکھیں گی کیا میری آنکھیں بھی دیکھیں گی؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں ، بس وہ رونے لگا یہاں تک کہ اس کی روح پرواز کر گئی حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اسے فن کیا رضی اللہ عنہ ۔ پھر اہل جنت کے لباس کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ سبز ہرے رنگ کا مہین اور چمکدار ریشم ہو گا ، سندس اعلیٰ درجہ کا خالص نرم ریشم جو بدن سے لگا ہوا ہو گا ، اور استبرق عمدہ بیش بہا گراں قدر ریشم جس میں چمک دمک ہو گی جو اوپر پہنچایا جائے گا ، ساتھ ہی چاندی کے کنگن ہاتھوں میں ہوں گے ، یہ لباس ابرار کا ہے ، اور مقربین خاص کے بارے میں اور جگہ ارشاد ہے ( يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّلُؤْلُؤًا ۭ وَلِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ 23؀ ) 22- الحج:23 ) انہیں سونے کے کنگن ہیرے جڑے ہوئے پہنائے جائیں گے اور خاص نرم صاف ریشمی لباس ہو گا ، ان ظاہری جسمانی استعمالی نعمتوں کے ساتھ ہی انہیں پرکیف ، بالذت ، سرور والی ، پاک اور پاک کرنے والی شراب پلائے جائے گی جو تمام ظاہری باطنی برائی دور کر دے حسد کینہ بدخلقی غصہ وغیرہ سب دور کر دے ، جیسے امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب اہل جنت جنت کے دروازے پر پہنچیں گے تو انہیں دو نہریں نظر آئیں گی اور انہیں از خود خیال پیدا ہو گا ایک کا وہ پانی پئیں گے تو ان کے دلوں میں جب کچھ تھا سب دور ہو جائے گا دوسری میں غسل کریں گے جس سے چہرے ترو تازہ ہشاش بشاش ہو جائیں گے ، ظاہری اور باطنی خوبی دونوں انہیں بدرجہ کمال حاصل ہوں گی جس کا بیان یہاں ہو رہا ہے ۔ پھر ان سے ان کے دل خوش کرنے اور ان کی خوشی دوبالا کرنے کو بار بار کہا جائے گا تمہارے نیک اعمال کا بدلہ اور تمہاری بھلی کوشش کی قدر وانی ہے ، جیسے اور جگہ ہے ( كُلُوْا وَاشْرَبُوْا هَنِيْۗئًۢا بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِي الْاَيَّامِ الْخَالِيَةِ 24؀ ) 69- الحاقة:24 ) دنیا میں جو اعمال تم نے کئے ان کی نیک جزا میں آج تم خوب لطیف و لذیذ بہ آرام و اطمینان کھاتے پیتے رہو ، اور فرمان ہے ونودوا ان یلکم الجنتہ اور ئتموھا بما کنتم یعملون یعنی منادی کئے جائیں گے کہ ان جنتوں کا وارث تمہیں تمہارے نیک کردار کی بنا پر بنایا گیا ہے ، یہاں بھی فرمایا ہے تمہاری سعی مشکور ہے تھوڑے عمل پر بہت اجر ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان میں سے کرے آمین ۔