Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا خُذُوۡا حِذۡرَكُمۡ فَانْفِرُوۡا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوۡا جَمِيۡعًا‏ ﴿71﴾
اے مسلمانو! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو پھر گروہ گروہ بن کر کوچ کرو یا سب کے سب اکھٹے ہو کر نکل کھڑے ہو!
يايها الذين امنوا خذوا حذركم فانفروا ثبات او انفروا جميعا
O you who have believed, take your precaution and [either] go forth in companies or go forth all together.
Aey musalmano! Apney bachao ka saman ley lo phir giroh giroh bann ker kooch kero ya sab kay sab ikhttay ho ker nikal kharay ho!.
اے ایمان والو ! ( دشمن سے مقابلے کے وقت ) اپنے بچاؤ کا سامان ساتھ رکھو ، پھر الگ الگ دستوں کی شکل میں ( جہاد کے لیے ) نکلو ، یا سب لوگ اکٹھے ہو کر نکل جاؤ
اے ایمان والو! ہوشیاری سے کام لو ( ف۱۸۵ ) پھر دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہو کر نکلو یا اکٹھے چلو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہو ، 101 پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر ۔
اے ایمان والو! اپنی حفاظت کا سامان لے لیا کرو پھر ( جہاد کے لئے ) متفرق جماعتیں ہو کر نکلو یا سب اکٹھے ہو کر کوچ کرو
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :101 واضح رہے کہ یہ خطبہ اس زمانہ میں نازل ہوا تھا جب احد کی شکست کی وجہ سے اطراف و نواح کے قبائل کی ہمتیں بڑھ گئیں تھیں اور مسلمان ہر طرف سے خطرات میں گھر گئے تھے ۔ آئے دن خبریں آتی رہتی تھیں کہ فلاں قبیلے کے تیور بگڑ رہے ہیں ، فلاں قبیلہ دشمنی پر آمادہ ہے ، فلاں مقام پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ مسلمانوں کے ساتھ پے در پے غداریاں کی جا رہی تھیں ۔ ان کے مبلغین کو فریب سے دعوت دی جاتی تھی اور قتل کر دیا جاتا تھا ۔ مدینہ کے حدود سے باہر ان کے لیے جان و مال کی سلامتی باقی نہ رہی تھی ۔ ان حالات میں مسلمانوں کی طرف سے ایک زبردست سعی و جہد اور سخت جاں فشانی کی ضرورت تھی تاکہ ان خطرات کے ہجوم سے اسلام کی یہ تحریک مٹ نہ جائے ۔
طاقتور اور متحد ہو کر زندہ رہو اللہ رب العزت مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے بچاؤ کے اسباب تیار رکھیں ہر وقت ہتھیار بند رہیں تاکہ دشمن ان پر با آسانی کامیاب نہ ہو جائے ۔ ضرورت کے ہتھیار تیار رکھیں اپنی تعداد بڑھاتے رہیں قوت مضبوط کرتے رہیں منظم مردانہ وار جہاد کے لئے بیک آواز اٹھ کھڑے ہوں چھوٹے چھوٹے لشکروں میں بٹ کر یا متحدہ فوج کی صورت میں جیسا موقعہ ہو آواز سنتے ہی ہوشیار رہیں کہ منافقین کی خصلت ہے کہ خود بھی اللہ تعالیٰ کی راہ سے جی چرائیں اور دوسروں کو بھی بزدل بنائیں ، جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول سردار منافقین کا فعل تھا اللہ تعالیٰ اسے رسوا کرے اس کا کردار یہ تھا کہ اگر حکمت الہیہ سے مسلمانوں کو دشمنوں کے مقابلہ میں کامیابی نہ ہوتی دشمن ان پر چھا جاتا انہیں نقصان پہنچاتا ان کے آدمی شہید ہوتے تو یہ گھر بیٹھا خوشیاں مناتا اور اپنی دانائی پر اکڑتا اور اپنا اس جہاد میں شریک نہ ہونا اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کا انعام قرار دیتا لیکن بےخبر یہ نہیں سمجھتا کہ جو اجر و ثواب ان مجاہدین کو ملا اس سب سے یہ بد نصیب یک لخت محروم رہا اگر یہ بھی ان میں شامل ہو یا تو غازی کا درجہ پاتا اپنے صبر کے ثواب سمیٹتا یا شہادت کے بلند مرتبے تک پہنچ جاتا ، اور اگر مسلمان مجاہدین کا اللہ کا فضل معاون ہوتا یعنی یہ دشمنوں پر غالب آ جاتے ان کی فتح ہوتی دشمنوں کو انہوں نے پامال کیا اور مال غنیمت لونڈی غلام لے کر خیر عافیت ظفر اور نصرت کے ساتھ لوٹتے تو یہ انگاروں پر لوٹتا اور ایسے لمبے لمبے سانس لے کر ہائے وائے کرتا ہے اور اس طرح پچھتاتا ہے اور ایسے کلمات زبان سے نکالتا ہے گویا یہ دین تمہارا نہیں بلکہ اس کا دین ہے اور کہتا افسوس میں ان کے ساتھ نہ ہوا ورنہ مجھے بھی حصہ ملتا اور میں بھی لونڈی ، غلام ، مال ، متاع والا بن جاتا الغرض دنیا پر ریجھا ہوا اور اسی پر مٹا ہوا ہے ۔ پس اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہونے والے مومنوں کو چاہیے کہ ان سے جہاد کریں جو اپنے دین کو دنیا کے بدلے فروخت کر رہے ہیں اپنے کفر اور عدم ایمان کے باعث اپنی آخرت کو برباد کر کے دنیا بناتے ہیں ۔ سنو! اللہ کی راہ کا مجاہد کبھی نقصان نہیں اٹھاتا اس کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں قتل کیا گیا تو اجر موجود غالب رہا تو ثواب حاضر ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ اللہ کی راہ کے مجاہد کا ضامن خود اللہ عزوجل ہے یا تو اس فوت کر کے جنت میں پہنچائے گا جس جگہ سے وہ چلا ہے وہیں اجر و غنیمت کے ساتھ صیح سالم واپس لائے گا فالحمد اللہ ۔