Surah

Information

Surah # 77 | Verses: 50 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 33 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 48, from Madina
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة الْمُرْسَلٰت نام : پہلی ہی آیت کے لفظ المرسلٰت کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ زمانۂ نزول : اس کا پورا مضمون یہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے ۔ اس سے پہلے کی دو سورتیں سورہ قیامہ ، اور سورہ دہر ، اور اس کے بعد کی دو سورتیں ، سورہ نبا اور سورہ نازعات اگر ملا کر پڑھی جائیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ایک ہی دور کی نازل شدہ سورتیں ہیں اور ایک ہی مضمون ہے جس کو ان میں مختلف پیرایوں سے اہل مکہ کے ذہن نشین کرایا گیا ہے ۔ موضوع اور مضمون : اس کا موضوع قیامت اور آخرت کا اثبات ، اور ان نتائج سے لوگوں کو خبردار کرنا ہے جو ان حقائق کے انکار اور اقرار سے آخرکار برآمد ہوں گے ۔ پہلی سات آیتوں میں ہواؤں کے انتظام کو اس حقیقت پر گواہ قرار دیا گیا ہے کہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس قیامت کے آنے کی خبر دے رہے ہیں وہ ضرور واقع ہو کر رہے گی ۔ ان میں استدلال یہ ہے کہ جس قادر مطلق نے زمین پر یہ حیرت انگیز انتظام قائم کیا ہے اس کی قدرت قیامت برپا کرنے سے عاجز نہیں ہو سکتی ، اور جو صریح حکمت اس انتظام میں کارفرما نظر آرہی ہے وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ آخرت ضرور ہونی چاہیے ، کیونکہ حکیم کا کوئی فعل عبث اور بے مقصد نہیں ہو سکتا ، اور آخرت نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہے کہ یہ سارا کارخانۂ ہستی سراسر فضول ہے ۔ اہل مکہ بار بار کہتے تھے کہ جس قیامت سے تم ہم کو ڈرا رہے ہو اسے لا کر دکھاؤ تب ہم اسے مانیں گے ۔ آیت 8 سے 15 تک ان کے اس مطالبے کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے کہ وہ کوئی کھیل یا تماشا نہیں ہے کہ جب کوئی مسخرا اسے دکھانے کا مطالبہ کرے اسی وقت وہ فوراً دکھا دیا جائے ۔ وہ تو تمام نوع انسانی ، اور اس کے تمام افراد کے مقدمے کے فیصلے کا دن ہے ۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص وقت مقرر کر رکھا ہے ۔ اسی وقت پر وہ آئے گا اور جب آئے گا تو ایسی ہولناک شکل میں آئے گا کہ آج جو لوگ مذاق کے طور پر اس کا مطالبہ کر رہے ہیں اس وقت ان کے حواس باختہ ہو جائیں گے ۔ اس وقت انہی رسولوں کی شہادتوں پر ان کے مقدمے کا فیصلہ ہوگا جن کی دی ہوئی خبر کو یہ منکرین آج بڑی بے باکی کے ساتھ جھٹلا رہے ہیں ، پھر انہیں خود پتہ چل جائے گا کہ انہوں نے کس طرح خود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کیا ہے ۔ آیت 16 سے 28 تک مسلسل قیامت اور آخرت کے وقوع اور وجوب کے دلائل دیے گئے ہیں ۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ انسان کی اپنی تاریخ ، اس کی اپنی پیدائش ، اور جس زمین پر وہ زندگی بسر کر رہا ہے اس کی اپنی ساخت اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ قیامت کا آنا اور عالم آخرت کا برپا ہونا ممکن بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا بھی ۔ انسانی تاریخ بتا رہی ہے کہ جن قوموں نے بھی آخرت کا انکار کیا وہ آخرکار بگڑیں اور تباہی سے دوچار ہوئیں ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آخرت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی قوم کا رویہ اگر متصادم ہو تو اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو اس اندھے کا انجام ہوتا ہے جو سامنے آتی ہوئی گاڑی کے مقابلے میں بگ ٹٹ چلا جا رہا ہو اور اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ کائنات کی سلطنت میں صرف قوانین طبیعی ( Physical laws ) ہی کارفرما نہیں ہیں بلکہ ایک قانون اخلاقی ( Moral law ) بھی کام کر رہا ہے جس کے تحت خود اس دنیا میں بھی مکافات عمل کا سلسلہ جاری ہے لیکن دنیا کی موجودہ زندگی میں یہ مکافات چونکہ اپنی کامل و مکمل صورت میں واقع نہیں ہو رہی ہے اس لیے کائنات کا اخلاقی قانون لازماً یہ تقاضا کرتا ہے کہ کوئی وقت ایسا آئے جب یہ بھرپور طریقے سے واقع ہو اور ان تمام بھلائیوں اور برائیوں کی پوری جزا و سزا دی جائے جو یہاں جزا سے محروم رہ گئی ہیں یا سزا سے بچ نکلی ہیں ۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی ہو ، اور انسان کی پیدائش دنیا میں جس طرح ہوتی ہے اس پر اگر انسان غور کرے تو اس کی عقل –بشرطیکہ وہ سلیم ہو—اس بات کو ماننے سے انکار نہیں کر سکتی کہ جس خدا نے ایک حقیر نطفہ سے ابتداء کر کے اسے پورا آدمی بنایا ہے اس کے لیے اسی آدمی کو پھر پیدا کر دینا یقیناً ممکن ہے ۔ زندگی بھر انسان جس زمین پر رہتا ہے ، مرنے کے بعد اس کے اجزائے جسم کہیں غائب نہیں ہو جاتے ، اسی زمین پر ان کا ایک ایک ذرہ موجود رہتا ہے ۔ اسی زمین کے خزانوں سے وہ بنتا اور پھلتا پھولتا اور پرورش پاتا ہے ، اور پھر اسی زمین کے خزانوں میں واپس جمع ہو جاتا ہے ۔ جس خدا نے اسے پہلے زمین کے ان خزانوں سے نکالا تھا وہی ان میں جمع ہوجانے کے بعد اسے پھر ان سے نکال لا سکتا ہے ۔ اس کی قدرت پر غور کرو تو تم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہ ایسا کر سکتا ہے اور اس کی حکمت پر غور کرو تو تم اس سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ زمین پر جو اختیارات اس نے تمہیں دیے ہیں ان کے صحیح اور غلط استعمال کا حساب لینا یقیناً اس کی حکمت کا تقاضا ہے اور بلا حساب چھوڑ دینا سراسر حکمت کے خلاف ہے ۔ اس کے بعد آیات 28 سے 40 تک آحرت کے منکرین کا ، اور 41 سے 45 تک ان لوگوں کا انجام بیان کیا گیا ہے جنہوں نے اس پر ایمان لا کر دنیا میں اپنی عاقبت سنوارنے کی کوشش کی ہے ، اور عقائد و افکار ، اخلاق و اعمال ، اور سیرت و کردار کی ان برائیوں سے اجتناب کیا ہے جو چاہے آدمی کی دنیا بناتی ہوں مگر اس کی عاقبت خراب کر دینے والی ہوں ۔ آخرت میں منکرین آخرت اور خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں جو کچھ مزے اڑانے ہیں اڑا لو آخر کار تمہارا انجام سخت تباہ کن ہوگا اور بات اس پر ختم کی گئی ہے کہ اس قرآن سے بھی جو شخص ہدایت نہ پائے اسے پھر دنیا میں کوئی چیز ہدایت نہیں دے سکتی ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم منیٰ کے ایک غار میں تھے جب یہ سورت اتری حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاوت کر رہے تھے اور میں آپ سے سن کر یاد کر رہا تھا کہ ناگہاں ایک سانپ ہم پر کودا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے مارو ہم گو جھپٹے لیکن وہ نکل گیا تو آپ نے فرمایا تمہاری سزا سے وہ بچ گیا جیسے تم اس کی برائی سے محفوظ رہے ( بخاری مسلم ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی والدہ صاحبہ حضرت ام الفضل رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مغرب کی نماز میں اس سورت کی قرات کرتے ہوئے سنا ہے ، دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس سورت کو پڑھتے ہوئے سن کر ام المومنین نے فرمایا پیارے بچے آج تو تم نے یاد دلا دیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اس سورت کو مغرب کی نماز میں پڑھتے ہوئے آخری مرتبہ سنا ہے ( بخاری و مسلم و مسند احمد )