Surah

Information

Surah # 78 | Verses: 40 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 80 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
الَّذِىۡ هُمۡ فِيۡهِ مُخۡتَلِفُوۡنَؕ‏ ﴿3﴾
جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں ۔
الذي هم فيه مختلفون
That over which they are in disagreement.
Jiss kay bary mein yeh ikhtylaf ker rahay hein
جس میں خود ان کی باتیں مختلف ہیں ۔ ( ١ )
جس میں وہ کئی راہ ہیں ( ف۵ )
جس کے متعلق یہ مختلف چہ میگوئیاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں1؟
جس کے بارے میں وہ اختلاف کرتے ہیں
سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :1 بڑی خبر سے مراد قیامت اور آخرت کی خبر ہے جس کو اہل مکہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سنتے تھے ، پھر ہر محفل میں اس پر طرح طرح کی چہ مگوئیاں ہوتی تھیں ۔ پوچھ گچھ سے مراد یہی چہ میگوئیاں ہیں ۔ لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو کہتے تھے کہ بھائی ، کبھی پہلے بھی تم نے سنا ہے کہ مر کے کوئی دوباہ زندہ ہو گا ؟ کیا یہ ماننے کے قابل بات ہے کہ گل سڑ کر جو ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو چکی ہیں ان میں نئے سرے سے جان پڑے گی؟ کیا عقل میں یہ بات سماتی ہے کہ اگلی پچھلی ساری نسلیں اٹھ کر ایک جگہ جمع ہوں گی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ بڑے بڑے جمے ہوئے پہاڑ ہوا میں روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں گے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ چاند سورج اور تارے سب بجھ کر رہ جائیں اور دنیا کا یہ سارا جما جمایا نظام الٹ پلٹ ہو جائے گا ؟ یہ صاحب جو کل تک اچھے خاصے دانا آدمی تھے آج انہیں یہ کیا ہو گیا ہے کہ ہمیں ایسی عجیب انہونی خبریں سنا رہے ہیں ۔ یہ جنت اور یہ دوزخ آخر پہلے کہاں تھیں جن کا ذکر ہم نے کبھی ان کی زبان سے نہ سنا تھا ؟ اب یہ ایک دم کہاں سے نکل آئی ہیں کہ انہوں نے ان کے عجیب و غریب نقشے ہمارے سامنے کھینچنے شروع کر دیے ہیں؟ ھم فیہ مختلفون کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ اس کے بارے میں مختلف چہ میگوئیاں کر رہے ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا کے انجام کے بارے میں یہ لوگ خود بھی کوئی ایک متفق علیہ عقیدہ نہیں رکھتے بلکہ ان کے درمیان اس کے متعلق مختلف خیالات پائے جاتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی عیسائیوں کے خیالات سے متاثر تھا اور زندگی بعد موت کو مانتا تھا مگر یہ سمجھتا تھا کہ وہ دوسری زندگی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہو گی ۔ کوئی آخرت کا قطعی منکر نہ تھا مگر اسے شک تھا کہ وہ ہو سکتی ہے یا نہیں ، چنانچہ قرآن مجید ہی میں اس خیال کے لوگوں کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ان نظن الا ظنا و ما نحن بمستیقنین ، ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں ، یقین ہم کو نہیں ہے ۔ ( الجاثیہ آیت 31 ) ۔ اور کوئی بالکل صاف صاف کہتا تھا کہ ان ھی الا حیاتنا الدنیا و ما نحن بمبعوثین ، جو کچھ بھی ہے بس ہماری یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم ہرگز مرنے کے بعد دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ۔ ( الانعام ۔ آیت 29 ) ۔ پھر کچھ لوگ ان میں سے دہریے تھے اور کہتے تھے کہ ماھی الا حیاتنا الدنیا نموت و نحیا و ما یھلکنا الا الدھر ، زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے ، یہیں ہم مرتے اور جیتے ہیں اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو ۔ ( الجاثیہ ۔ 24 ) ۔ اور کچھ دوسرے لوگ دہریے تو نہ تھے مگر دوسری زندگی کو ناممکن قرار دیتے تھے ، یعنی ان کے نزدیک یہ خدا کی قدرت سے خارج تھا کہ وہ مرے ہوئے انسانوں کو پھر سے زندہ کر سکے ۔ ان کا قول تھا من یحیی العظام و ھی رمیم ، کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں گی؟ ۔ ( یٰسین ۔ 78 ) ۔ یہ ان کے مختلف اقوال خود ہی اس بات کا ثبوت تھے کہ ان کے پاس اس مسئلے میں کوئی علم نہ تھا ، بلکہ وہ محض گمان و قیاس کے تیر تکے چلا رہے تھے ، ورنہ علم ہوتا تو سب کسی ایک بات کے قائل ہوتے ( مزید تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد پنجم ، الذاریات ، حاشیہ 6 ) ۔