Surah

Information

Surah # 79 | Verses: 46 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 81 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
مَتَاعًا لَّـكُمۡ وَلِاَنۡعَامِكُمۡؕ‏ ﴿33﴾
یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لئے ( ہیں )
متاعا لكم و لانعامكم
As provision for you and your grazing livestock.
Yeh sab tumhary aur tumhary janwaron kay fiady kat liey ( hein )
تاکہ تمہیں اور تمہارے مویشیوں کو فائدہ پہنچائے ۔
۔ ( ۳۳ ) تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدہ کو ،
سامان زیست کے طور پر تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کے لیے18 ۔
۔ ( یہ سب کچھ ) تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدہ کے لئے ( کیا )
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :18 ان آیات میں قیامت اور حیات بعد الموت کے لیے دو حیثیتوں سے استدلال کیا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ اس خدا کی قدرت سے ان کا برپا کرنا ہرگز بعید نہیں ہے جس نے یہ وسیع و عظیم کائنات اس حیرت انگیز توازن کے ساتھ اور یہ زمین اس سرد سامان کے ساتھ بنائی ہے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ کے مال حکمت کے جو آثار اس کائنات اور اس زمین میں صریحا نظر آرہے ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہاں کوئی کام بے مقصد نہیں ہو رہا ہے ۔ عالم بالا میں بے شمار ستاروں اور سیاروں اور کہکشانوں کے درمیان جو توازن قائم ہے وہ شہادت دے رہا ہے کہ یہ سب کچھ الل ٹپ نہیں ہو گیا ہے بلکہ کوئی بہت سوچا سمجھا منصوبہ اس کے پیچھے کار فرما ہے ۔ یہ رات اور دن کا باقاعدگی سے آنا اس بات پر گواہ ہے کہ زمین کو آباد کرنے کے لیے یہ نظم کمال درجہ دانائی کے ساتھ قائم کیا گیا ہے ۔ خود اسی زمین پر وہ خطے بھی موجود ہیں جہاں 24 گھنٹے کے اندر دن اور رات کا الٹ پھیر ہو جاتا ہے اور وہ خطے بھی موجود ہیں جہاں بہت لمبے دن اور بہت لمبی راتیں ہوتی ہیں ۔ زمین کی آبادی کا بہت بڑا حصہ پہلی قسم کے خطوں میں ہے ۔ اور جہاں رات اور دن جتنے زیادہ لمبے ہوتے جاتے ہیں وہاں زندگی زیادہ سے زیادہ دشوار اور آبادی کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے ، یہاں تک کہ 6 مہینے کے دن اور 6 مہینے کی راتیں رکھنے والے علاقے آبادی کے بالکل قابل نہیں ہیں ۔ یہ دونوں نمونے اسی زمین پر دکھا کر اللہ تعالی نے اس حقیقت کی شہادت پیش کر دی ہے کہ رات اور دن کی آمدو رفت کا یہ باقاعدہ انتظام کچھ اتفاقاً نہیں ہو گیا ہے بلکہ یہ زمین کو آبادی کے قابل بنانے کے لیے بڑی حکمت کے ساتھ ٹھیک ٹھیک ایک اندازے کے مطابق کیا گیا ہے ، اسی طرح زمین کو اس طرح بچھانا کہ وہ قابل سکونت بن سکے ، اس میں پانی پیدا کرنا جو انسان اور حیوان کے لیے پینے کے قابل اور نباتات کے لیے روئیدگی کے قابل ہو ، اس میں پہاڑوں کا جمانا اور وہ تمام چیزیں پیدا کرنا جو انسان اور ہر قسم کے حیوانات کے لیے زندگی بسر کرنے کا ذریعہ بن سکیں ۔ یہ سارے کام اس بات کی صریح علامت ہیں کہ یہ آفاقی حوادث یا کسی کھلنڈرے کے لیے بے مقصد کام نہیں ہیں ، بلکہ ان میں سے ہر کام ایک بہت بڑی حکیم و دانا ہستی نے بامقصد کیا ہے ۔ اب یہ ہر صاحب عقل آدمی کےخود سوچنے کی بات ہے کہ آیا آخرت کا ہونا حکمت کا تقاضا ہے یا نہ ہونا ؟ جو شخص ان ساری چیزوں کو دیکھنے کے باوجود یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں ہو گی وہ گویا یہ کہتا ہے کہ یہاں اور سب کچھ تو حکمت اور مقصدیت کے ساتھ ہو رہا ہے ، مگر زمین پر انسان کو ذی ہوش اور بااختیار بنا کر پیدا کرنا بے مقصد اور بے حکمت ہے ۔ کیونکہ اس سے بڑی کوئی بےمقصد اور بے حکمت بات نہیں ہو سکتی کہ اس زمین میں تصرف کے وسیع اختیارات دے کر انسان کو یہاں ہر طرح کے اچھے اور برے کام کرنے کا موقع تو دے دیا جائے مگر کبھی اس کا محاسبہ نہ کیا جائے ۔