Surah

Information

Surah # 79 | Verses: 46 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 81 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الۡكُبۡرٰى ۖ‏ ﴿34﴾
پس جب وہ بڑی آفت ( قیامت ) آ جائے گی ۔
فاذا جاءت الطامة الكبرى
But when there comes the greatest Overwhelming Calamity -
Aur jab wo bari afat ( qiyamat ) ayegi
پھر جب وہ سب سے بڑا ہنگامہ برپا ہوگا ۔
۔ ( ۳٤ ) پھر جب آئے گی وہ عام مصیبت سب سے بڑی ( ف٤۰ )
پھر جب وہ ہنگامہ عظیم برپا ہوگا19 ،
پھر اس وقت ( کائنات کے ) بڑھتے بڑھتے ( اس کی انتہا پر ) ہر چیز پر غالب آجانے والی بہت سخت آفتِ ( قیامت ) آئے گی
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :19 اس سے مراد ہے قیامت اور اس کے لئے الطَّامَّۃُ الْکُبْریٰ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ طامّہ بجائےخود کسی ایسی بڑی آفت کو کہتے ہیں جو سب پر چھا جائے ۔ اس کے بعد اس کے لئے کُبریٰ کا لفظ مزید استعمال کیا گیا ہے جس سے خود بخود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی شدّت کا تصوّر لانے کے لئے محض لفظ طامّہ بھی کافی نہیں ہے ۔
انتہائی ہولناک لرزہ خیز لمحات طامتہ الکبریٰ سے مراد قیامت کا دن ہے اس لئے کہ وہ ہولناک اور بڑے ہنگامے والا دن ہو گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَالسَّاعَةُ اَدْهٰى وَاَمَرُّ 46؀ ) 54- القمر:46 ) یعنی قیامت بڑی سخت اور ناگوار چیز ہے ، اس دن ابن آدم اپنے بھلے برے اعمال کو یاد کرے گا اور کافی نصیحت حاصل کر لے گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى 23۝ۭ ) 89- الفجر:23 ) یعنی اس دن آدمی نصیحت حاصل کر لے گا لیکن آج کی نصیحت اسے کچھ فائدہ نہ دے گی ، لوگوں کے سامنے جہنم لائی جائے گی اور وہ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیں گے اس دن سرکشی کرنے والوں اور دنیا کو دین پر ترجیح دینے والوں کو ٹھکانا جہنم ہو گا ، ان کی خوراک زقوم ہو گا اور ان کا پانی حمیم ہو گا ، ہاں ہمارے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہنے والوں ، اپنے آپ کو نفسانی خواہشوں سے بچاتے رہنے والوں خوف اللہ دل میں رکھنے والوں اور برائیوں سے باز رہنے والوں کا ٹھکانا جنت ہے اور وہاں کی تمام نعمتوں کے حصہ دار صرف یہی ہیں ، پھر فرمایا کہ قیامت کے بارے میں تم سے سوال ہو رہے ہیں تم کہہ دو کہ نہ مجھے اس کا علم ہے نہ مخلوق میں سے کسی اور کو صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی ۔ اس کا صحیح وقت کسی کو معلوم نہیں وہ زمین و آسمان پر بھاری پڑ رہی ہے ، حالانکہ دراصل اس کا علم سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں ، حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی جس وقت انسانی صورت میں آپ کے پاس آئے اور کچھ سوالات کئے جن کے جوابات آپ نے دیئے پھر یہی قیامت کے دن کے تعیین کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا جس سے پوچھتے ہو ، نہ وہ اسے جانتا ہے نہ خود پوچھنے والے کو اس کا علم ہے ، پھر فرمایا کہ اے نبی تم تو صرف لوگوں کے ڈرانے والے ہو اور اس سے نفع انہیں کو پہنچے گا جو اس خوفناک دن کا ڈر رکھتے ہیں اور تیاری کرلیں گے اور اس دن کے خطرے سے بچ جائیں گے ، باقی جو لوگ ہیں وہ آپ کے فرمان سے عبرت حاصل نہیں کریں گے بلکہ مخلافت کریں گے اور اس دن بدترین نقصان اور مہلک عذابوں میں گرفتار ہوں گے ، لوگ جب اپنی اپنی قبروں سے اٹھ کر محشر کے میدان میں جمع ہوں گے ، اس وقت اپنی دنیا کی زندگی انہیں بہت ہی تھوڑی نظر آئے گی اور ایسا معلوم ہو گا کہ صرف صبح کا یا صرف شام کا کچھ حصہ دنیا میں گزارا ہے ، ظہر سے لے کر آفتاب کے غروب ہونے کے وقت کو عشیہ کہتے ہیں اور سورج نکلنے سے لے کر آدھے دن تک کے وقت کو ضحیٰ کہتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ آخرت کو دیکھ کر دنیا کی لمبی عمر بھی اتنی کم محسوس ہونے لگی ۔ سورہ نازعات کی تفسیر ختم ہوئی ، فالحمد اللہ رب العالمین ۔