Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِذَا حُيِّيۡتُمۡ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡهَاۤ اَوۡ رُدُّوۡهَا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ حَسِيۡبًا‏ ﴿86﴾
اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا ، دو بے شُبہ اللہ تعالٰی ہرچیز کا حساب لینے والا ہے ۔
و اذا حييتم بتحية فحيوا باحسن منها او ردوها ان الله كان على كل شيء حسيبا
And when you are greeted with a greeting, greet [in return] with one better than it or [at least] return it [in a like manner]. Indeed, Allah is ever, over all things, an Accountant.
Aur jab tumhen salam kiya jaye to tum uss say acha jawab do ya unhi alfaaz ko lota do be-shak Allah Taalaa her cheez ka hisab lenay wala hai.
اور جب تمہیں کوئی شخص سلام کرے تو تم اسے اس سے بھی بہتر طریقے پر سلام کرو ، یا ( کم از کم ) انہی الفاظ میں اس کا جواب دے دو ۔ ( ٥٢ ) بیشک اللہ ہر چیز کا حساب رکھنے والا ہے ۔
اور جب تمہیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو اس سے بہتر لفظ جواب میں کہو یا یا وہی کہہ دو ، بیشک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے ( ف۲۳۱ )
اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اسی طرح ، 114 اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے ۔
اور جب ( کسی لفظ ) سلام کے ذریعے تمہاری تکریم کی جائے تو تم ( جواب میں ) اس سے بہتر ( لفظ کے ساتھ ) سلام پیش کیا کرو یا ( کم از کم ) وہی ( الفاظ جواب میں ) لوٹا دیا کرو ، بیشک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :114 اس وقت مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات نہایت کشیدہ ہو رہے تھے ، اور جیسا کہ تعلقات کی کشیدگی میں ہو اکرتا ہے ، اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں مسلمان دوسرے لوگوں کے ساتھ کج خلقی سے نہ پیش آنے لگیں ۔ اس لیے انہیں ہدایت کی گئی کہ جو تمہارے ساتھ احترام کا برتاؤ کرے اس کے ساتھ تم بھی ویسے ہی بلکہ اس سے زیادہ احترام سے پیش آؤ ۔ شائستگی کا جواب شائستگی ہی ہے ، بلکہ تمہارا منصب یہ ہے کہ دوسروں سے بڑھ کر شائستہ بنو ۔ ایک داعی و مبلغ گروہ کے لیے ، جو دنیا کو راہ راست پر لانے اور مسلک حق کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھا ہو ، درشت مزاجی ، ترش روئی اور تلخ کلامی مناسب نہیں ہے ۔ اس سے نفس کی تسکین تو ہو جاتی ہے مگر اس مقصد کو الٹا نقصان پہنچتا ہے جس کے لیے وہ اٹھا ہے ۔