Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
فَمَا لَـكُمۡ فِىۡ الۡمُنٰفِقِيۡنَ فِئَـتَيۡنِ وَاللّٰهُ اَرۡكَسَهُمۡ بِمَا كَسَبُوۡا‌ؕ اَ تُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ تَهۡدُوۡا مَنۡ اَضَلَّ اللّٰهُ‌ ؕ وَمَنۡ يُّضۡلِلِ اللّٰهُ فَلَنۡ تَجِدَ لَهٗ سَبِيۡلًا‏ ﴿88﴾
تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو؟ انہیں تو ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے اوندھا کر دیا ہے ۔ اب کیا تم یہ منصوبے بنا رہے ہو کہ اللہ تعالٰی کے گمراہ کئے ہوؤں کو تم راہ راست پر لا کھڑا کرو جسے اللہ تعالٰی راہ بھُلا دے تُو ہرگز اس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا ۔
فما لكم في المنفقين فتين و الله اركسهم بما كسبوا اتريدون ان تهدوا من اضل الله و من يضلل الله فلن تجد له سبيلا
What is [the matter] with you [that you are] two groups concerning the hypocrites, while Allah has made them fall back [into error and disbelief] for what they earned. Do you wish to guide those whom Allah has sent astray? And he whom Allah sends astray - never will you find for him a way [of guidance].
Tumhen kiya hogaya hai? Kay munafiqon kay baray mein do giroh ho rahey ho? Unhen to unn kay aemaal ki waja say Allah Taalaa ney ondha ker diya hai. Abb kiya tum yeh mansoobay bandh rahey ho kay Allah Taalaa kay gumrah kiye huwon ko tum raah-e-raast per laa khara kero jissay Allah Taalaa raah bhula dey tu hergiz uss kay liye koi raah na paye ga.
پھر تمہیں کیا ہوگیا کہ منافقین کے بارے میں تم دو گروہ بن گئے؟ ( ٥٣ ) حالانکہ انہوں نے جیسے کام کیے ہیں ان کی بنا پر اللہ نے ان کو اوندھا کردیا ہے ۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ایسے شخص کو ہدایت پر لاؤ جسے اللہ ( اس کی خواہش کے مطابق ) گمراہی میں مبتلا کرچکا؟ اور جسے اللہ گمراہی میں مبتلا کردے ، اس کے لیے تم ہرگز کبھی کوئی بھلائی کا راستہ نہیں پاسکتے ۔
تو تمہیں کیا ہوا کہ منافقوں کے بارے میں دو فریق ہوگئے ( ف۲۳۳ ) اور اللہ نے انہیں اوندھا کردیا ( ف۲۳٤ ) ان کے کوتکوں ( کرتوتوں ) کے سبب ( ف۲۳۵ ) کیا یہ چاہتے ہیں کہ اسے راہ دکھاؤ جسے اللہ نے گمراہ کیا اور جسے اللہ گمراہ کرے تو ہرگز اس کے لئے راہ نہ پائے گا ،
پھر یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ منافقین کے بارے میں تمہارے درمیان دو رائیں پائی جاتی ہیں ، 116 حالانکہ جو برائیاں انہوں نے کمائی ہیں ان کی بدولت اللہ انہیں الٹا پھیر چکا ہے ۔ 117 کیا تم چاہتے ہو کہ جسے اللہ نے ہدایت نہیں بخشی اسے تم ہدایت بخش دو ؟ حالانکہ جس کو اللہ نے راستہ سے ہٹا دیا اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پا سکتے ۔
پس تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقوں کے بارے میں تم دو گروہ ہو گئے ہو حالانکہ اللہ نے ان کے اپنے کرتوتوں کے باعث ان ( کی عقل اور سوچ ) کو اوندھا کر دیا ہے ۔ کیا تم اس شخص کو راہِ راست پر لانا چاہتے ہو جسے اللہ نے گمراہ ٹھہرا دیا ہے ، اور ( اے مخاطب! ) جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو اس کے لئے ہرگز کوئی راہِ ( ہدایت ) نہیں پاسکتا
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :116 یہاں ان منافق مسلمانوں کے مسئلہ سے بحث کی گئی ہے جو مکہ میں اور عرب کے دوسرے حصوں میں اسلام تو قبول کر چکے تھے ، مگر ہجرت کر کے دارالاسلام کی طرف منتقل ہونے کے بجائے بدستور اپنی کافر قوم ہی کے ساتھ رہتے بستے تھے ، اور کم و بیش ان تمام کارروائیوں میں عملاً حصہ لیتے تھے جو ان کی قوم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کرتی تھی ۔ مسلمانوں کے لیے یہ مسئلہ سخت پیچیدہ تھا کہ ان کے ساتھ آخر کیا معاملہ کیا جائے ۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ کچھ بھی ہو ، آخر یہ ہیں تو مسلمان ہی ۔ کلمہ پڑھتے ہیں ، نماز ادا کرتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ کفار کا سا معاملہ کیسے کیا جا سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس رکوع میں اسی اختلاف کا فیصلہ فرمایا ہے ۔ اس موقع پر ایک بات کو واضح طور پر سمجھ لینا ضروری ہے ، ورنہ اندیشہ ہے کہ نہ صرف اس مقام کو ، بلکہ قرآن مجید کے ان تمام مقامات کو سمجھنے میں آدمی ٹھوکر کھائے گا جہاں ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں کو منافقین میں شمار کیا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی اور ایک چھوٹا سا خطہ عرب کی سرزمین میں ایسا بہم پہنچ گیا جہاں ایک مومن کے لیے اپنے دین و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا ممکن تھا ، تو عام حکم دے دیا گیا کہ جہاں جہاں ، جس جس علاقے اور جس جس قبیلےمیں اہل ایمان کفار سے دبے ہوئے ہیں اور اسلامی زندگی بسر کرنے کی آزادی نہیں رکھتے ، وہاں سے وہ ہجرت کریں اور مدینہ کے دارالاسلام میں آجائیں ۔ اس وقت جو لوگ ہجرت کی قدرت رکھتے تھے اور پھر صرف اس لیے اٹھ کر نہ آئے کہ انہیں اپنے گھر بار ، اعزہ و اقربا اور اپنے مفادات اسلام کی بہ نسبت عزیز تر تھے ، وہ سب منافقین قرار دیے گئے ۔ اور جو لوگ حقیقت میں بالکل مجبور تھے ، ان کو ” مُسْتَضْعَفِین“ میں شمار کیا گیا ، جیسا کہ آگے رکوع ۱٤ میں آرہا ہے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ دارالکفر کے رہنے والے کسی مسلمان کو محض ہجرت نہ کرنے پر منافق صرف اس صورت میں کہا جاسکتا ہے جبکہ دارالاسلام کی طرف سے ایسے تمام مسلمانوں کو یا تو دعوت عام ہو ، یا کم از کم اس نے ان کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوں ۔ اس صورت میں بلاشبہ وہ سب مسلمان منافق قرار پائیں گے جو دارالکفر کو دارالاسلام بنانے کی کوئی سعی بھی نہ کر رہے ہوں ، اور استطاعت کے باوجود ہجرت بھی نہ کریں ۔ لیکن اگر دارالاسلام کی طرف سے نہ تو دعوت ہی ہو اور نہ اس نے اپنے دروازے ہی مہاجرین کے لیے کھلے رکھے ہوں ، تو اس صورت میں صرف ہجرت نہ کرنا کسی شخص کو منافق نہ بنا دے گا بلکہ وہ منافق صرف اس وقت کہلائے گا جبکہ فی الواقع کوئی منافقانہ کام کرے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :117 یعنی جس دو رنگی اور مصلحت پرستی اور ترجیح دنیا بر آخرت کا اکتساب انہوں نے کیا ہے اس کی بدولت اللہ نے انہیں اسی طرف پھیر دیا ہے جس طرف سے یہ آئے تھے ۔ انہوں نے کفر سے نکل کر اسلام کی طرف پیش قدمی کی تو ضرور تھی ، مگر اس سرحد میں آنے اور ٹھیرنے کے لیے یکسو ہو جانے کی ضرورت تھی ، ہر اس مفاد کو قربان کردینے کی ضرورت تھی جو اسلام و ایمان کے مفاد سے ٹکراتا ہو ، اور آخرت پر ایسے یقین کی ضرورت تھی جس کی بنا پر آدمی اطمینان کے ساتھ اپنی دنیا کو قربان کرسکتا ہو ۔ یہ ان کو گوارا نہ ہوا اس لیے جدھر سے آئے تھے الٹے پاؤں ادھر ہی واپس چلے گئے ۔ اب ان کے معاملہ میں اختلاف کا کونسا موقع باقی ہے؟
منافقوں سے ہوشیار رہو اس میں اختلاف ہے کہ منافقوں کے کس معاملہ میں مسلمانوں کے درمیان دو قسم کے خیالات داخل ہوئے تھے ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب میدان احد میں تشریف لے گئے تب آپ کے ساتھ منافق بھی تھے جو جنگ سے پہلے ہی لوٹ آئے تھے ان کے بارے میں بعض مسلمان تو کہتے تھے کہ انہیں قتل کر دینا چاہیے اور بعض کہتے تھے نہیں یہ بھی ایماندار ہیں ، اس پر یہ آیت اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ شہر طیبہ ہے جو خود بخود میل کچیل کو اس طرح دور کر دے گا جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو چھانٹ دیتی ہے ۔ ( بخاری و مسلم ) ابن اسحاق میں ہے کہ کل لشکر جنگ احد میں ایک ہزار کا تھا ، عبداللہ بن ابی سلول تین سو آدمیوں کو اپنے ہمراہ لے کر واپس لوٹ آیا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پھر سات سو ہی رہ گئے تھے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مکہ سے نکلے ، انہیں یقین تھا کہ اصحاب رسول سے ان کی کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی کیونکہ بظاہر کلمہ کے قائل تھے ادھر جب مدنی مسلمانوں کو اس کا علم ہوا تو ان میں سے بعض کہنے لگے ان نامرادوں سے پہلے جہاد کرو یہ ہمارے دشمنوں کے طرف دار ہیں اور بعض نے کہا سبحان اللہ جو لوگ تم جیسا کلمہ پڑھتے ہیں تم ان سے لڑو گے؟ صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے ہجرت نہیں کی اور اپنے گھر نہیں چھوڑے ، ہم کس طرح ان کے خون اور ان کے مال اپنے اوپر حلال کر سکتے ہیں؟ ان کا یہ اختلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہوا آپ خاموش تھے جو یہ آیت نازل ہوئی ( ابن ابی حاتم ) حضرت سعید بن معاذ کے لڑکے فرماتے ہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جب تہمت لگائی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کوئی ہے جو مجھے عبداللہ بن ابی کی ایذاء سے بچائے اس پر اوس و خزرج کے درمیان جو اختلاف ہوا اس کی بابت یہ آیت نازل ہوئی ہے ، ان کی ہدایت کی کوئی راہ نہیں ۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ سچے مسلمان بھی ان جیسے گمراہ ہو جائیں ان کے دلوں میں اس قدر عداوت ہے ، تو تمہیں ممانعت کی جاتی ہے کہ جب تک یہ ہجرت نہ کریں انہیں اپنا نہ سمجھو ، یہ خیال نہ کرو کہ یہ تمہارے دوست اور مددگار ہیں ، بلکہ یہ خود اس لائق ہیں کہ ان سے باقاعدہ جہاد کیا جائے ۔ پھر ان میں سے ان حضرات کا استثنا کیا جاتا ہے جو کسی ایسی قوم کی پناہ میں چلے جائیں جس سے مسلمانوں کا عہد و پیمان صلح و سلوک ہو تو ان کا حکم بھی وہی ہو گا جو معاہدہ والی قوم کا ہے ، سراقہ بن مالک مدلجی فرماتے ہیں جب جنگ بدر اور جنگ احد میں مسلمان غالب آئے اور آس پاس کے لوگوں میں اسلام کی بخوبی اشاعت ہو گئی تو مجھے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارادہ ہے کہ خالد بن ولید کو ایک لشکر دے کر میری قوم بنو مدلج کی گوشمالی کے لئے روانہ فرمائیں تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میں آپ کو احسان یاد دلاتا ہوں لوگوں نے مجھ سے کہا خاموش رہ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے کہنے دو ، کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ میری قوم کی طرف لشکر بھیجنے والے ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ ان سے صلح کرلیں اس بات پر کہ اگر قریش اسلام لائیں تو یہ بھی مسلمان ہو جائیں گے اور اگر وہ اسلام نہ لائیں تو ان پر بھی آپ چڑھائی نہ کریں ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا ان کے ساتھ جاؤ اور ان کے کہنے کے مطابق ان کی قوم سے صلح کر آؤ پس اس بات پر صلح ہو گئی کہ وہ دشمنان دین کی کسی قسم کی مدد نہ کریں اور اگر قریش اسلام لائیں تو یہ بھی مسلمان ہو جائیں پس اللہ نے یہ آیت اتاری کہ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی کفر کرو جیسے وہ کفر کرتے ہیں پھر تم اور وہ برابر ہو جائیں پس ان میں سے کسی کو دوست نہ جانو ، یہی روایت ابن مردویہ میں ہے کہ تم بھی کفر کرو جیسے وہ کفر کرتے ہیں پھر تم وہ برابر ہو جاؤ پس ان میں سے کسی کو دوست نہ جانو ، یہی روایت ابن مردویہ میں ہے اور ان میں ہی آیت ( اِلَّا الَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ اَوْ جَاۗءُوْكُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُھُمْ اَنْ يُّقَاتِلُوْكُمْ اَوْ يُقَاتِلُوْا قَوْمَھُمْ ) 4 ۔ النسآء:90 ) نازل ہوئی پس جو بھی ان سے مل جاتا وہ انہی کی طرح پر امن رہتا کلام کے الفاظ سے زیادہ مناسبت اسی کو ہے ، صحیح بخاری شریف میں صلح حدیبیہ کے قصے میں ہے کہ پھر جو چاہتا ہے کہ کفار کی جماعت میں داخل ہو جاتا ہے اور امن پالیتا ہے جو چاہتا ہے مدنی مسلمانوں سے ملتا اور عہد نامہ کی وجہ سے مامون ہو جاتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ اس حکم کو پھر اس آیت نے منسوخ کر دیا کہ ( فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 9 ۔ التوبہ:5 ) یعنی جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین سے جہاد کرو جہاں کہیں انہیں پاؤ ۔ ایک دوسری جماعت کا ذکر ہو رہا ہے جسے مستثنیٰ کیا ہے جو میدان میں لائے جاتے ہیں لیکن یہ بیچارے بےبس ہوتے ہیں وہ نہ تو تم سے لڑنا چاہتے ہیں نہ تمہارے ساتھ مل کر اپنی قوم سے لڑنا پسند کرتے ہیں بلکہ وہ ایسے بیچ کے لوگ ہیں جو نہ تمہارے دشمن کہے جاسکتے ہیں نہ دوست ۔ یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ اس نے ان لوگوں کو تم پر مسلط نہیں کیا اگر وہ جاہتا تو انہیں زور و طاقت دیتا اور ان کے دل میں ڈال دیتا کہ وہ تم سے لڑیں پس اگر یہ تمہاری لڑائی سے باز رہیں اور صلح و صفائی سے یکسو ہو جائیں تو تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت نہیں ، اسی قسم کے لوگ تھے جو بدر والے دن بنو ہاشم کے قبیلے میں سے مشرکین کے ساتھ آئے تھے جو دل سے اسے ناپسند رکھتے تھے جیسے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کو منع فرما دیا تھا اور حکم دیا تھا کہ انہیں زندہ گرفتار کر لیا جائے ۔ پھر ایک اور گروہ کا ذکر کیا جاتا ہے جو بظاہر تو اوپر والوں جیسا ہے لیکن دراصل نیت میں بہت کھوٹ ہے یہ لوگ منافق ہیں حضور کے پاس آکر اسلام ظاہر کر کے اپنے جان و مال مسلمانوں سے محفوظ کرا لیتے ہیں ادھر کفار میں مل کر ان کے معبودان باطل کی پرستش کر کے ان میں سے ہونا ظاہر کر کے ان سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں تاکہ ان کے ہاتھوں سے بھی امن میں رہیں ، دراصل یہ لوگ کافر ہیں ، جیسے اور جگہ ہے اپنے شیاطین کے پاس تنہائی میں جا کر کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں یہاں بھی فرماتا ہے کہ جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تو جی کھول کر پوری سرگرمی سے اس میں حصہ لیتے ہیں جیسے کوئی اوندھے منہ گرا ہوا ہو ۔ فتنہ سے مراد یہاں شرک ہے حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ یہ لوگ بھی مکہ والے تھے یہاں آ کر بطور ریا کاری کے اسلام قبول کرتے تھے وہاں جا کر ان کے بت پوجتے تھے تو مسلمانوں کو فرمایا جاتا ہے کہ اگر یہ اپنی دوغلی روش سے باز نہ آئیں ایذاء رسانی سے ہاتھ نہ روکیں صلح نہ کریں تو انہیں امن امان نہ دو ان سے بھی جہاد کرو ، انہیں بھی قیدی بناؤ اور جہاں پاؤ قتل کردو ، بیشک ان پر ہم نے تمہیں ظاہر غلبہ اور کھلی حجت عطا فرمائی ہے ۔