سورة عَبَس حاشیہ نمبر :8
یہاں سے عتاب کا رخ براہ راست ان کفار کی طرف پھرتا ہے جو حق سے بے نیازی برت رہے تھے ۔ اس سے پہلے آغاز سورہ سے آیت 16 تک خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا اور عتاب در پردہ کفار پر فرمایا جا رہا تھا ۔ اس کا انداز بیان یہ تھا کہ اے نبی ، ایک طالب حق کو چھوڑ کر آپ یہ کن لوگوں پر اپنی توجہ صرف کر رہے ہیں جو دعوت حق کے نقطہ نظر سے بالکل بے قدر و قیمت ہیں اور جن کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ آپ جیسا عظیم القدر پیغمبر قرآن جیسی بلند مرتبہ چیز کو ان کے آگے پیش کرے ۔
سورة عَبَس حاشیہ نمبر :9
قرآن مجید میں ایسے تمام مقامات پر انسان سے مراد نوع انسانی کا ہر فرد نہیں ہوتا بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی ناپسندیدہ صفات کی مذمت کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ انسان کا لفظ کہیں تو اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ نوع انسانی کے اکثر افراد میں وہ مذموم صفات پائی جاتی ہیں ، اور کہیں اس کے استعمال کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مخصوص لوگوں کو تعین کے ساتھ اگر ملامت کی جائے تو ان میں ضد پیدا ہو جاتی ہے ، اس لیے نصیحت کا یہ طریقہ زیادہ موثر ہوتا ہے کہ عمومی انداز میں بات کہی جائے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، حمٰ السجدہ ، حاشیہ 65 ۔ الشوریٰ ، حاشیہ 75 ) ۔
سورة عَبَس حاشیہ نمبر :10
دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کس چیز نے اسے کفر پر آمادہ کیا ؟ یعنی بالفاظ دیگر کس بل بوتے پر یہ کفر کرتا ہے؟ کفر سے مراد اس جگہ حق کا انکار بھی ہے ، اپنے محسن کے احسانات کی ناشکری بھی ، اور اپنے خالق و رازق اور مالک کے مقابلہ میں باغیانہ روش بھی ۔