Surah

Information

Surah # 81 | Verses: 29 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 7 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
اِذَا الشَّمۡسُ كُوِّرَتۡۙ‏ ﴿1﴾
جب سورج لپیٹ لیا جائے گا ۔
اذا الشمس كورت
When the sun is wrapped up [in darkness]
Jab sooraj lappet liya jaey ga
جب سورج لپیٹ دیا جائے گا ۔ ( ١ )
( ۱ ) جب دھوپ لپیٹی جائے ( ف۲ )
جب سورج لپیٹ دیا جائے گا1 ،
جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گا
سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :1 سورج کے بے نور کر دیے جانے کے لیے یہ ایک بے نظیر استعارہ ہے ۔ عربی زبان میں تکویر کے معنی لپیٹنے کے ہیں ۔ سر پر عمامہ باندھنے کے لیے تکویر العمامہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں کیونکہ عمامہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پھر سر کے گرد اسے لپیٹا جاتا ہے ۔ اسی مناسبت سے اس روشنی کو جو سورج سے نکل کر سارے نظام شمسی میں پھیلتی عمامہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز یہ پھیلا ہوا عمامہ سورج پر لپیٹ دیا جائے گا ، یعنی اس کی روشنی کا پھیلنا بند ہو جائے گا ۔
یعنی سوج بےنور ہو جائیگا ، جاتا رہے گا اوندھا کر کے لپیٹ کر زمین پر پھینک دیا جائیگا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سورج چاند اور ستاروں کو لپیٹ کر بےنور کر کے سمندروں میں ڈال دیا جائیگا اور پھر مغربی ہوائیں چلیں گی اور آگ لگ جائیگی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ اس کو تہہ کر کے جہنم میں ڈال دیا جائیگا ( ابن ابی حاتم ) اور ایک حدیث میں سورج کے ساتھ چاند کا ذکر بھی ہے لیکن وہ ضعیف ہے صحیح بخاری میں یہ حدیث الفاظ کی تبدیلی سے مروی ہے ، اس میں ہے کہ سورج اور چاند قیامت کے دن لپیٹ لیے جائیں گے امام بخاری اسے کتاب بدء الخلق میں لائے ہیں لیکن یہاں لانا زیادہ مناسب تھا یا مطابق عادت وہاں اور یہاں دونوں جگہ لاتے جیسے کہ امام صاحب کی عادت ہے حضرت ابو ہریرہ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ قیامت کے دن یہ ہو گا ، تو حضرت حسن کہنے لگے ان کا کیا گناہ ہے؟ فرمایا میں نے حدیث کہی اور تم اس پر باتیں بناتے ہو سورج کی قیامت والے دن یہ حالت ہو گی ستارے سارے متغیر ہو کر جھڑ جائیں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْ Ą۝ۙ ) 82- الإنفطار:2 ) یہ بھی گدلے اور بےنور ہو کر بجھ جائیں گے ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں قیامت سے پہلے چھ نشانیاں ہوں گی لوگ اپنے بازاروں میں ہوں گے کہ اچانک سورج کی روشنی جاتی رہیگی اور پھر ناگہاں ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگیں گے پھر اچانک پہاڑ زمین پر گر پڑیں گے اور زمین زور زور سے جھٹکے لینے لگے گی اور بےطرح ہلنے لگے گی بس پھر کیا انسان کیا جنات کیا جانور اور کیا جنگلی جانور سب آپس میں خلط ملط ہو جائیں گے ، جانور بھی جو انسانوں سے بھاگے پھرتے ہیں انسانوں کے پاس آ جائیں گے لوگوں کو اس قدر بد حواسی اور گھبراہٹ ہو گی کہ بہتر سے بہتر مال اونٹیاں جو بیاہنے والیاں ہوں گی ان کی بھی خیر خبر نہ لیں گے ۔ جنات کہیں گے کہ ہم جاتے ہیں کہ تحقیق کریں کیا ہو رہا ہے لیکن وہ آئیں گے تو دیکھیں گے کہ سمندروں میں بھی آگ لگ رہی ہے ، اسی حال میں ایک دم زمین پھٹنے لگے گی اور آسمان بھی ٹوٹنے لگیں گے ، ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمانوں کا یہی حال ہو گا ادھر سے ایک تند ہوا چلے گی جس سے تمام جاندار مر جائیں گے ۔ ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) ایک اور روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ سارے ستارے اور جن جن کی اللہ کے سوا عبادت کی گئی ہے سب جہنم میں گرا دیئے جائیں صرف حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم بچ رہیں گے اگر یہ بھی اپنی عبادت سے خوش ہوتے تو یہ بھی جہنم میں داخل کر دئیے جاتے ( ابن ابی حاتم ) پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے اور بےنام و نشان ہو جائیں گے ، زمین چٹیل اور ہموار میدان رہ جائے گی ، اونٹنیاں بیکار چھوڑ دی جائیں گی ، نہ ان کی کوئی نگرانی کریگا نہ چرائے چگائے گا نہ دودھ نکالے گا نہ سواری لے گا عشار جمع ہے عشرا کی جو حاملہ اونٹی دسویں مہینہ میں لگ جائے اسے عشراء کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ گھبراہٹ اور بد حواسی بےچینی اور پریشانی اس قدر ہو گی کہ بہتر سے بہتر مال کی بھی پرواہ نہ رہیگی قیامت کی ان بلاؤں نے دل اڑا دیا ہو گا کلیجے منہ کو آئیں گے بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ قیامت کے دن ہو گا اور لوگوں کو اس سے کچھ سروکار نہ ہو گا ہاں ان کے دیکھنے میں یہ ہو گا اس قول کے قائل عشار کے کئی معنی بیان کرتے ہیں ایک تو یہ کہتے ہیں اس سے مراد بادل ہیں جو دنیا کی بربادی کی وجہ سے آسمان و زمین کے درمیان پھرتے پھریں گے بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ زمین ہے جس کا عشر دیا جاتا ہے بعض کہتے ہیں اس سے مراد گھر ہیں جو پہلے آباد تھے اب ویران ہیں امام قرطبی ان اقوال کو بیان کر کے ترجیح اسی کو دیتے ہیں کہ مراد اس سے اونٹنیاں ہیں اور اکثر مفسرین کا یہی قول ہے اور میں تو یہی کہتا ہوں کہ سلف سے اور ائمہ سے اس کے سوا کچھ وارد ہی نہیں ہوا واللہ اعلم اور وحشی جانور جمع کیے جائیں گے جیسے فرمان ہے آیت ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ 38؀ ) 6- الانعام:38 ) یعنی زمین پر چلنے والے کل جانور اور ہوا میں اڑنے والے کل پرند بھی تمہاری طرح گروہ ہیں ہم نے اپنی کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی پھر یہ سب اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے سب جانداروں کا حشر اسی کے پاس ہو گا یہاں تک کہ مکھیاں بھی ان سب میں اللہ تعالیٰ انصاف کے ساتھ فیصلے کریگا ان جانوروں کا حشر ان کی موت ہی ہے البتہ جن و انس اللہ کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اور ان سے حساب کتاب ہو گا ربیع بن خثیم نے کہا مراد وحشیوں کے حشر سے ان پر اللہ کا امر آنا ہے لیکن ابن عباس نے یہ سن کر فرمایا کہ اس سے مراد موت ہے یہ تمام جانور بھی ایک دوسرے کے ساتھ اور انسانوں کے ساتھ ہو جائیں گے خود قرآن میں اور جگہ ہے آیت ( وَالطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً ۭ كُلٌّ لَّهٗٓ اَوَّابٌ 1٩؀ ) 38-ص:19 ) پرند جمع کیے ہوئے پس ٹھیک مطلب اس آیت کا بھی یہی ہے کہ وحشی جانور جمع کیے جائیں گے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک یہودی سے پوچھا جہنم کہاں ہے؟ اس نے کہا سمندر میں آپ نے فرمایا میرے خیال میں یہ سچا ہے قرآن کہتا ہے آیت ( وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ Č۝ۙ ) 52- الطور:6 ) اور فرماتا ہے آیت ( وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ Č۝۽ ) 81- التكوير:6 ) ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مغربی ہوائیں بھیجے گا وہ اسے بھڑکا دیں گی اور شعلے مارتی ہوئی آگ بن جائیگا آیت ( وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ Č۝۽ ) 81- التكوير:6 ) کی تفسیر میں اس کا مفصل بیان گزر چکا ہے حضرت معاویہ بن سعید فرماتے ہیں بحر روم میں برکت ہے یہ زمین کے درمیان میں ہے سب نہریں اس میں گرتی ہیں اور بحر کبیر بھی اس میں پڑتا ہے اس کے نیچے کنویں ہیں جن کے منہ تانبہ سے بند کیے ہوئے ہیں قیام کے دن وہ سلگ اٹھیں گے ، یہ اثر عجیب ہے اور ساتھ ہی غریب بھی ہے ہاں ابو داؤد میں ایک حدیث ہے کہ سمندر کا سفر صرف حاجی کریں اور عمرہ کرنے والے یا جہاد کرنے والے غازی اس لیے کہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے پانی ہے اس کا بیان بھی سورہ فاطر کی تفسیر میں گزر چکا ہے سجرت کے معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ خشک کر دیا جائیگا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہیگا ، یہ معنی بھی کیے گئے ہیں کہ بہا دیا جائے گا اور ادھر ادھر بہ نکلے گا پھر فرماتا ہے کہ ہر قسم کے لوگ یکجا جمع کر دئیے جائیں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ 22؀ۙ ) 37- الصافات:22 ) ظالموں کو اور ان کے جوڑوں یعنی ان جیسوں کو جمع کرو حدیث میں ہے ہر شخص کا اس قوم کے ساتھ حشر کیا جائے گا جو اس جیسے اعمال کرتی ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَّكُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً Ċ۝ۭ ) 56- الواقعة:7 ) تم تین طرح کے گروہ ہو جاؤ گے کچھ وہ جن کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال ہوں گے کچھ بائیں ہاتھ والے کچھ سبقت کرنے والے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ پڑھتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا ہر جماعت اپنے جیسوں سے مل جائیگی ، دوسری روایت میں ہے کہ وہ دو شخص جن کے عمل ایک جیسے ہوں وہ یا تو جنت میں ساتھ رہیں گے یا جہنم میں ساتھ جلیں گے ، حضرت عمر سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو فرمایا نیک نیکوں کے ساتھ مل جائیں گے اور بدبدوں کے ساتھ آگ میں ، حضرت فاروق اعظم نے ایک مرتبہ لوگوں سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو سب خاموش رہے ، آپ نے فرمایا لو میں بتاؤں ، آدمی کا جوڑا جنت میں اسی جیسا ہو گا اسی طرح جہنم میں بھی ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مطلب اس سے یہی ہے کہ تین قسم کے لوگ ہو جائیں گے یعنی اصحاب الیمین اصحاب الشمال اور سابقین ۔ مجاہد فرماتے ہیں ہر قسم کے لوگ ایک ساتھ ہوں گے یہی قول امام ابن جریر بھی پسند کرتے ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے دوسرا قول یہ ہے کہ عرش کے پاس سے پانی کا ایک دریا جاری ہو گا جو چالیس سال تک بہتا رہیگا اور بڑی نمایاں چوڑان میں ہو گا اس سے تمام مرے سڑے گلے اگنے لگیں گے اس طرح کے ہو جائیں گے کہ جو انہیں پہچانتا ہو وہ اگر انہیں اب دیکھ لے توبہ یک نگاہ پہچان لے پھر روحیں چھوڑی جائیں گی اور ہر روح اپنے جسم میں آ جائے گی یہی معنی ہیں آیت ( وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ Ċ۝۽ ) 81- التكوير:7 ) یعنی روحیں جسموں میں ملا دی جائیں گی اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ مومنوں کا جوڑا حوروں سے لگایا جائیگا اور کافروں کا شیطانوں سے ( تذکرہ قرطبی ) پھر ارشاد ہوتا ہے آیت ( وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ Ď۝۽ ) 81- التكوير:8 ) جمہور کی قراۃ یہی ہے اہل جاہلیت لڑکیوں کو ناپسند کرتے تھے اور انہیں زندہ درگور کر دیا کرتے تھے ان سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ یہ کیوں قتل کی گئیں؟ تاکہ ان کے قاتلوں کو زیادہ ڈانٹ ڈپٹ اور شرمندگی ہو اور یہ بھی سمجھ لیجئے کہ جب مظلوم سے سوال ہوا تو ظالم کا تو کہنا ہی کیا ہے؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ خود پوچھیں گی کہ انہیں کس بنا پر زندہ درگور کیا گیا ؟ اس کے متعلق احادیث سنئے مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے قصد کیا کہ لوگوں کو حالت حمل کی مجامعت سے روک دوں لیکن میں نے دیکھا کہ رومی اور فارسی یہ کام کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا ۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں سوال کیا یعنی بروقت نطفہ کو باہر ڈال دینے کے بارے میں تو آپ نے فرمایا کہ یہ درپردہ زندہ گاڑ دینا ہے اور اسی کا بیان واذا الموؤدۃ الخ میں ہے ۔ سلمہ بن یزید اور ان کے بھائی سرکار نبوت میں حاضر ہو کر سوال کرتے ہیں کہ ہماری ماں امیر زادی تھیں وہ صلہ رحمی کرتی تھیں مہمان نوازی کرتی تھیں اور بھی نیک کام بہت کچھ کرتی تھیں لیکن جاہلیت میں ہی مر گئی ہیں تو کیا اس کے یہ نیک کام اسے کچھ نفع دیں گے؟ آپ نے فرمایا نہیں انہوں نے کہا کہ اس نے ہماری ایک بہن کو زندہ دفن کر دیا ہے کیا وہ بھی اسے کچھ نفع دے گی؟ آپ نے فرمایا زندہ گاڑی ہوئی اور زندہ گاڑنے والی جہنم میں ہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اسلام کو قبول کر لے ( مسند احمد ) ابن ابی حاتم میں ہے زندہ دفن کرنے والی اور جسے دفن کیا ہے دونوں جہنم میں ہیں ایک صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال پر کہ جنت میں کون جائے گا آپ نے فرمایا نبی ، شہید ، بچے اور زندہ درگور کی ہوئی ۔ یہ حدیث مرسل ہے حضرت حسن سے جسے بعض محدثین نے قبولیت کا مرتبہ دیا ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ مشرکوں کے چھوٹی عمر میں مرے ہوئے بچے جنتی ہیں جو انہیں جہنمی کہے وہ جھوٹا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ Ď۝۽ ) 81- التكوير:8 ) ( ابن ابی حاتم ) قیس بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے جاہلیت کے زمانے میں اپنی بچیوں کو زندہ دبا دیا ہے میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا ہر ایک کے بدلے ایک غلام آزاد کرو انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم غلام والا تو میں ہوں نہیں البتہ میرے پاس اونٹ ہیں فرمایا ہر ایک کے بدلے ایک اونٹ اللہ کے نام پر قربان کرو ( عبدالرزاق ) دوسری روایت میں ہے کہ میں نے بارہ تیرہ لڑکیاں زندہ دفن کر دی ہیں آپ نے فرمایا ان کی گنتی کے مطابق غلام آزاد کرو انہوں نے کہا بہت بہتر میں یہی کروں گا دوسرے سال وہاں یک سو اونٹ لے کر آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ میری قوم کا صدقہ ہے جو اس کے بدلے ہے جو میں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا ۔ حضرت علی فرماتے ہیں ہم ان اونٹوں کو لے جاتے تھے اور ان کا قیسیہ رکھ چھوڑا تھا ۔ پھر ارشاد ہے کہ نامہ اعمال بانٹے جائیں گے کسی کے داہنے ہاتھ میں اور کسی کے بائیں ہاتھ میں ، اے ابن آدم تو لکھوا رہا ہے جو لپیٹ کر پھیلا کر تجھے دیا جائے گا دیکھ لے کہ کیا لکھوا کے لایا ہے آسمان گھسیٹ لیا جائے گا اور کھینچ لیا جائے گا اور سمیٹ لیا جائے گا اور برباد ہو جائے گا جہنم بھڑکائی جائے گی اللہ کے غضب اور بنی آدم کے گناہوں سے اس کی آگ تیز ہو جائے گی جنت جنتیوں کے پاس آ جائے گی جب یہ تمام کام ہو چکیں گے اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ اس نے اپنی دنیا کی زندگی میں کیا کچھ اعمال کیے تھے وہ سب عمل اس کے سامنے موجود ہوں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا ) 3-آل عمران:30 ) جس دن ہر شخص اپنے کیے ہوئے اعمال کو پا لے گا نیک ہیں تو سامنے دیکھ لے گا اور بد ہیں تو اس دن وہ آرزو کریگا کہ کاش! اس کے اور اس کے درمیان بہت دوری ہوتی اور جگہ ہے آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13؀ۭ ) 75- القيامة:13 ) اس دن انسان کو اس کے تمام اگلے پچھلے اعمال سے تنبیہہ کی جائے گی حضرت عمر اس سورت کو سنتے رہے اور اس کو سنتے ہی فرمایا اگلی تمام باتیں اسی لیے بیان ہوئی تھیں ۔