Surah

Information

Surah # 81 | Verses: 29 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 7 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
بِاَىِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ‌ۚ‏ ﴿9﴾
کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی ۔
باي ذنب قتلت
For what sin she was killed
Kay kis gunha ki waja say wo qatal ki gae
کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟ ( ٦ )
( ۹ ) کس خطا پر ماری گئی ( ف۱۱ )
کہ وہ کس قصور میں ماری گئی9؟
کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھی
سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :9 اس آیت کے انداز بیان میں ایسی شدید غضبناکی پائی جاتی ہے جس سے زیادہ سخت غضبناکی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ بیٹی کو زندہ گاڑنے والے ماں باپ اللہ تعالی کی نگاہ میں ایسے قابل نفرت ہوں گے کہ ان کو مخاطب کر کے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم نے اس معصوم کو کیوں قتل کیا ، بلکہ ان سے نگاہ پھیر کر معصوم بچی سے پوچھا جائے گا کہ تو بے چاری آخر کس قصور میں ماری گئی ، اور وہ اپنی داستان سنائے گی کہ ظالم ماں باپ نے اس کے ساتھ کیا ظلم کیا اور کس طرح اسے زندہ دفن کردیا ۔ اس کے علاوہ اس مختصر سی آیت میں دو بہت بڑے مضمون سمیٹ دیے گئے ہیں جو الفاظ میں بیان کیے بغیر خود بخود اس کے فحوی سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس میں اہل عرب کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جاہلیت نے ان کو اخلاقی پستی کی کس انتہا پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنی ہی اولاد کو اپنے ہاتھوں زندہ در گور کرتے ہیں ، پھر بھی انہیں اصرار ہے کہ اپنی اسی جاہلیت پر قائم رہیں گے اور اس اصلاح کو قبول نہ کریں گے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بگڑے ہوئے معاشرے میں کرنا چاہتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ اس میں آخرت کے ضروری ہونے کی ایک صریح دلیل پیش کی گئی ہے ۔ جس لڑکی کو زندہ دفن کر دیا گیا ، آخر اس کی کہیں تو داد رسی ہونی چاہیے ۔ اور جن ظالموں نے یہ ظلم کیا ، آخر کبھی تو وہ قت آنا چاہیے جب ان سے اس بے دردانہ ظلم کی باز پرس کی جائے ۔ دفن ہونے والی لڑکی کی فریاد دنیا میں تو کوئی سننے والا نہ تھا ۔ جاہلیت کے معاشرے میں اس فعل کو بالکل جائز کر رکھا گیا تھا ۔ نہ ماں باپ کو اس پر کوئی شرم آتی تھی ۔ نہ خاندان میں کوئی ان کو ملامت کرنے والا تھا ۔ نہ معاشرے میں کوئی اس پر گرفت کرنے والا تھا ۔ پھر کیا خدا کی خدائی میں ظلم عظیم بالکل ہی بے داد رہ جانا چاہیے؟ عرب میں لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا بے رحمانہ طریقہ قدیم زمانے میں مختلف وجوہ سے رائج ہو گیا تھا ۔ ایک ، معاشی خستہ حالی جس کی وجہ سے لوگ چاہتے تھے کہ کھانے و الے کم ہوں اور اولاد کو پالنے پوسنے کا بار ان پر نہ پڑے ۔ بیٹوں کو تو اس امید پر پال لیا جاتا تھا کہ بعد میں وہ حصول معیشت میں ہاتھ بٹائیں گے ، مگر بیٹیوں کو اس لیے ہلاک کر دیا جاتا تھا کہ انہیں جوان ہونے تک پالنا پڑے گا اور پھر انہیں بیاہ دینا ہو گا ۔ دوسرے ، عام بد امنی جس کی وجہ سے بیٹوں کو اس لیے پالا جاتا تھا کہ جس کے جتنے زیادہ بیٹے ہوں گے اس کے اتنے ہی حامی و مدد گار ہوں گے ، مگر بیٹیوں کو اس لیے ہلاک کر دیا جاتا تھا کہ قبائلی لڑائیوں میں الٹی ان کی حفاظت کرنی پڑتی تھی اور دفاع پر وہ کسی کام نہ آ سکتی تھیں ۔ تیسرے عام بد امنی کا ایک شاخسانہ یہ بھی تھا کہ دشمن قبیلے جب ایک دوسرے پر اچانک چھاپے مارتے تھے تو جو لڑکیاں بھی ان کے ہاتھ لگتی تھیں انہیں لے جا کر وہ یا تو لونڈیاں بنا کر رکھتے تھے یا کہیں بیچ ڈالتے تھے ۔ ان وجوہ سے عرب میں یہ طریقہ چل پڑا تھا کہ کبھی تو زچگی کے وقت ہی عورت کے آگے ایک گڑھا کھود رکھا جاتا تھا تاکہ اگر لڑکی پیدا ہو تو اسی وقت اسے گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈال دی جائے ۔ اور کبھی اگر ماں اس پر راضی نہ ہوتی یا اس کے خاندان والے اس میں مانع ہوتے تو باپ بادل ناخواستہ اسے کچھ مدت تک پالتا اور پھر کسی وقت صحرا میں لے جا کر زندہ دفن کر دیتا ۔ اس معاملہ میں جو شقاوت برتی جاتی تھی اس کا قصہ ایک شخص نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ بیان کیا ۔ سنن دارمی کے پہلے ہی باب میں حدیث منقول ہے کہ ایک شخص نے حضور سے اپنے عہد جاہلیت کا یہ واقعہ بیان کیا کہ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی ۔ جب میں اس کو پکارتا تو دوڑی دوڑی میرے پاس آتی تھی ۔ ایک روز میں نے اس کو بلایا اور ا پنے ساتھ لے کر چل پڑا ۔ راستہ میں ایک کنواں آیا ۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں دھکا دے دیا ۔ آخری آواز جو اس کی میرے کانوں میں آئی وہ تھی ہائے ابا ، ہائے ابا ۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو دیے اور آپ کے آنسو بہنے لگے ۔ حاضرین میں سے ایک نے کہا اے شخص تو نے حضور کو غمگین کر دیا ۔ حضور نے فرمایا اسے مت روکو ، جس چیز کا اسے سخت احساس ہے اس کے بارے میں اسے سوال کرنے دو ۔ پھر آپ نے اس سے فرمایا کہ اپنا قصہ بیان کر ۔ اس نے دوبارہ اسے بیان کیا اور آپ سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو کچھ ہو گیا اللہ نے اسے معاف کر دیا ، اب نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کر ۔ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ اہل عرب اس انتہائی غیر انسانی فعل کی قباحت کا سرے سے کوئی احساس ہی نہ رکھتے تھے ۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی معاشرہ خواہ کتنا ہی بگڑ چکا ہو ، وہ ایسے ظالمانہ افعال کی برائی کے احساس سے بالکل خالی نہیں ہو سکتا ۔ اسی وجہ سے قرآن پاک میں اس فعل کی قباحت پر کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی گئی ہے ، بلکہ رونگٹے کھڑے کر دینے والے الفاظ میں صرف اتنی بات کہہ کر چھوڑ دیا گیا ہے کہ ا یک وقت آئے گا جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قصور میں ماری گئی ۔ عرب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو زمانہ جاہلیت میں اس رسم قباحت کا احساس تھا ۔ طبرانی کی روایت ہے کہ فرزدق شاعر کے دادا صعصعہ بن ناجیۃ المجاشعی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ، میں نے جاہلیت کے زمانے میں کچھ اچھے اعمال بھی کیے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے 360 لڑکیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچایا اور ہر ایک کی جان بچانے کا دو دو اونٹ فدیے میں دیے ۔ کیا مجھے اس پر اجر ملے گا ؟ حضور نے فرمایا ہاں تیرے لیے اجر ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے تجھے اسلام کی نعمت عطا فرمائی ۔ در حقیقت یہ اسلام کی برکتوں میں سے ایک بڑی برکت ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ عرب سے اس انتہائی سنگدلانہ رسم کا خاتمہ کیا ، بلکہ اس تخیل کو مٹایا کہ بیٹی کی پیدائش کوئی حادثہ اور مصیبت ہے جسے بادل ناخواستہ برداشت کیا جائے ۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ تعلیم دی کہ بیٹیوں کو پرورش کرنا ، انہیں عمدہ تعلیم و تربیت دینا اور انہیں اس قابل بنانا کہ وہ ایک اچھی گھر والی بن سکیں ، بہت بڑا نیکی کا کام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں لڑکیوں کے متعلق لوگوں کے عام تصور کو جس طرح بدلاہے اس کا اندازہ آپ کے ان بہت سے ارشادات سے ہو سکتا ہے جو احادیث میں منقول ہیں ۔ مثال کے طور پر ذیل میں ہم آپ کے چند ارشادات نقل کرتے ہیں: من ابتلی من ہذہ البنات بشیء فا حسن الیھن کن لہ ستراً من النار ۔ ( بخاری ، مسلم ) جو شخص ان لڑکیوں کی پیدائش سے آزمائش میں ڈالا جائے اور پھر وہ ان سے نیک سلوک کرے تو یہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی ۔ من عال جاریتین حتی تبلغا جاء یوم القیمۃ انا و ھکذا او ضم اصابعہ ( مسلم ) جس نے دو لڑکیوں کو پرورش کیا یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو قیامت کے روز میرے ساتھ وہ اس طرح آئے گا ، یہ فرما کر حضور نے اپنی انگلیوں کو جوڑ کر بتایا ۔ من عال ثلث بنات او مثلھن من الاخوات فاد بھن و رحمھن حتی یغنیھن اللہ اوجب اللہ لہ الجنۃ ، فقال رجل یا رسول اللہ او اثنتین ۔ قال او اثنتین حتی لو قالوا او واحدۃ لقال واحدۃ ۔ ( شرح السنۃ ) جس شخص نے تین بیٹیوں ، یا بہنوں کو پرورش کیا ، ان کو اچھا ادب سکھایا اور ان سے شفقت کا برتاؤ کیا یہاں تک کہ وہ اس کی مدد کی محتاج نہ رہیں تو اللہ اس کے لیے جنت واجب کر دے گا ۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اور دو ، حضور نے فرمایا اور دو بھی ۔ حدیث کے راوی ابن عباس کہتے ہیں کہ اگر لوگ اس وقت ایک کے متعلق پوچھتے تو حضور اس کے بارے میں بھی یہی فرماتے ۔ من کانت لہ انثیٰ فلم یئدھا و لم یھنھا و لم یؤثر ولدہ علیھا ادخلہ اللہ الجنۃ ۔ جس کے ہاں لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے ، نہ ذلیل کر کے رکھے ، نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔ من کان لہ ثلاث بنات و صبر علیھن و کساھن من جدتہ کن لہ حجابا من النار ۔ ( بخاری فی الادب المفرد ۔ ابن ماجہ ) جس کے ہاں تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے اور اپنی وسعت کے مطابق ان کو اچھے کپڑے پہنائے وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی ۔ ما من مسلم تدرکہ ابنتان فیحسن صحبتھما الا ادخلتاہ الجنۃ ۔ ( بخاری ، ادب المفرد ) جس مسلمان کے ہاں دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان کو اچھی طرح رکھے وہ اسے جنت میں پہنچائیں گی ۔ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لسراقۃ بن جعشم الا ادلک علی اعظم الصدقۃ او من اعظم الصدقۃ قال بلی یا رسول اللہ قال ابنتک المردودۃ الیک لیس لھا کا سب غیرک ۔ ( ابن ماجہ ۔ بخاری فی الادب المفرد ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ بن جعشم سے فرمایا میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے بڑا صدقہ ۔ ( فرمایا بڑے صدقوں میں سے ایک ) کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسول اللہ ۔ فرمایا تیری وہ بیٹی جو ( طلاق پا کر یا بیوہ ہو کر ) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کوئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو ۔ یہی وہ تعلیم ہے جس نے لڑکیوں کے متعلق لوگوں کا نقطہ نظر صرف عرب ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی ان تمام قوموں میں بدل دیا جو اسلام کی نعمت سے فیض یاب ہوتی چلی گئیں ۔