Surah

Information

Surah # 82 | Verses: 19 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 82 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
كَلَّا بَلۡ تُكَذِّبُوۡنَ بِالدِّيۡنِۙ‏ ﴿9﴾
ہرگز نہیں بلکہ تم تو جزا و سزا کے دن کو جھٹلاتے ہو ۔
كلا بل تكذبون بالدين
No! But you deny the Recompense.
Hergiz nahi balky tum to jaza o saza kay din ko jhotlaty ho
ہرگز ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ ( ٢ ) لیکن تم جزا و سزا کو جھٹلاتے ہو ۔
( ۹ ) کوئی نہیں ( ف۱۱ ) بلکہ تم انصاف ہونے کو جھٹلانتے ہو ( ف۱۲ )
ہرگز نہیں5 ، بلکہ ﴿اصل بات یہ ہے کہ ﴾ تم لوگ جزا و سزا کو جھٹلاتے6 ہو ،
حقیقت تو یہ ہے ( اور ) تم اِس کے برعکس روزِ جزا کو جھٹلاتے ہو
سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :5 یعنی کوئی معقول وجہ اس دھوکے میں پڑنے کی نہیں ہے ۔ تیرا وجود خود بتا رہا ہے کہ تو خود نہیں بن گیا ہے تیرے ماں باپ نے بھی تجھے نہیں بنایا ہے ، عناصر کے آپ سے آپ جڑ جانے سے بھی اتفاقاً تو انسان بن کر پیدا نہیں ہو گیا ہے ، بلکہ ایک خدائے حکیم و توانا نے تجھے اس مکمل انسانی شکل میں ترکیب دیا ہے ۔ تیرے سامنے ہر قسم کے جانور موجود ہیں جن کے مقابلے میں تیری بہترین ساخت اور تیری افضل و اشرف قوتیں صاف نمایاں ہیں ۔ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ اس کو دیکھ کر تیرا سر بار احسان سے جھک جاتا اور اس رب کریم کے مقابلے میں تو کبھی نافرمانی کی جرات نہ کرتا ۔ تو یہ بھی جانتا ہے کہ تیرا رب صرف رحیم و کریم ہی نہیں ہے ، جبار و قہار بھی ہے ۔ جب اس کی طرف سے کوئی زلزلہ یا طوفان یا سیلاب آ جاتا ہے تو تیری ساری تدبیریں اس کے مقابلہ میں ناکام ہو جاتی ہیں ۔ تجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تیرا رب جاہل و نادان نہیں بلکہ حکیم و دانا ہے ، اور حکمت و دانائی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جسے عقل دی جائے اسے اس کے اعمال کا ذمہ دار بھی ٹھہریا جائے ۔ جسے اختیارات دیے جائیں اس سے حساب بھی لیا جائے کہ اس نے اپنے اختیارات کو کیسے استعمال کیا ، اور جسے اپنی ذمہ داری پر نیکی اور بدی کرنے کی طاقت دی جائے اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا بھی دی جائے ۔ یہ سب حقیقتیں تیرے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں اس لیے تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اپنے رب کریم کی طرف سے جس دھوکے میں تو پڑ گیا ہے اس کی کوئی معقول وجہ موجود ہے ۔ تو خود جب کسی کا افسر ہوتا ہے تو اپنے اس ماتحت کو کمینہ سمجھتا ہے جو تیری شرافت اور نرم دلی کو کمزوری سمجھ کر تیرے سر چڑھ جائے اس لیے تیری اپنی فطرت یہ گواہی دینے کے لیے کافی ہے کہ مالک کا کرم ہرگز اس کا موجب نہ ہونا چاہیے کہ بندہ اس کے مقابلے میں جری ہو جائے اور اس غلط فہمی میں پڑ جائے کہ میں جو کچھ چاہوں کروں ، میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :6 یعنی دراصل جس چیز نے تم لوگوں کو دھوکے میں ڈالا ہے وہ کوئی معقول دلیل نہیں ہے بلکہ محض تمہارا یہ احمقانہ خیال ہے کہ دنیا کے اس دارالعمل کے پیچھے کوئی دارالجز نہیں ہے ۔ اسی غلط اور بے بنیاد گمان نے تمہیں خدا سے غافل ، اس کے انصاف سے بے خوف ، اور اپنے اخلاقی رویے میں غیر ذمہ دار بنا دیا ہے ۔