Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِى الۡاَرۡضِ فَلَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَقۡصُرُوۡا مِنَ الصَّلٰوةِ ‌ۖ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَنۡ يَّفۡتِنَكُمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا‌ ؕ اِنَّ الۡـكٰفِرِيۡنَ كَانُوۡا لَـكُمۡ عَدُوًّا مُّبِيۡنًا‏ ﴿101﴾
جب تم سفر پر جا رہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے ، یقیناً کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔
و اذا ضربتم في الارض فليس عليكم جناح ان تقصروا من الصلوة ان خفتم ان يفتنكم الذين كفروا ان الكفرين كانوا لكم عدوا مبينا
And when you travel throughout the land, there is no blame upon you for shortening the prayer, [especially] if you fear that those who disbelieve may disrupt [or attack] you. Indeed, the disbelievers are ever to you a clear enemy.
Jab tum safar mein jaa rahey ho to tum per namazon kay qasar kerney mein koi gunah nahi agar tumhen darr ho kay kafir tumhen satayen gay yaqeenan kafir tumharay khulay dushman hain.
اور جب تم زمین میں سفر کرو اور تمہیں اس بات کا خوف ہو کہ کافر لوگ تمہیں پریشان کریں گے ، تو تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم نماز میں قصر کرلو ۔ ( ٦٣ ) یقینا کافر لوگ تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں کہ بعض نمازیں قصر سے پڑھو ( ف۲۷۳ ) اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ایذا دیں گے ( ف۲۷٤ ) بیشک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں ،
اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں اختصار کر دو 132 ﴿خصوصاً﴾ جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے 133 کیونکہ وہ کھلم کھلّا تمہاری دشمنی پر تلے ہوئے ہیں ۔
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو ( یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو ) اگر تمہیں اندیشہ ہے کہ کافر تمہیں تکلیف میں مبتلا کر دیں گے ۔ بیشک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :132 زمانہ امن کے سفر میں قصر یہ ہے کہ جن اوقات کی نماز میں چار رکعتیں فرض ہیں ان میں دو رکعتیں پڑھی جائیں ۔ اور حالت جنگ میں قصر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ جنگی حالات جس طرح بھی اجازت دیں ، نماز پڑھی جائے ۔ جماعت کا موقع ہو تو جماعت سے پڑھو ورنہ فرداً فرداً ہی سہی ۔ قبلہ رخ نہ ہو سکتے ہو تو جدھر بھی رخ ہو ۔ سواری پر بیٹھے ہوئے اور چلتے ہوئے بھی پڑھ سکتے ہو ۔ رکوع و سجدہ ممکن نہ ہو تو اشارہ ہی سے سہی ۔ ضرورت پڑے تو نماز ہی کی حالت میں چل بھی سکتے ہو ۔ کپڑوں کو خون لگا ہوا ہو تب بھی مضائقہ نہیں ۔ ان سب آسانیوں کے باوجود اگر ایسی پر خطر حالت ہو کہ کسی طرح نماز نہ پڑھی جا سکے تو مجبوراً موخر کی جائے جیسے جنگ خندق کے موقع پر ہوا ۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ سفر میں صرف فرض پڑھے جائیں یا سنتیں بھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپ سفر میں فجر کی سنتوں اور عشاء کے وتر کا تو التزام فرماتے تھے مگر باقی اوقات میں صرف فرض پڑھتے تھے ، سنتیں پڑھنے کا التزام آپ سے ثابت نہیں ہے ۔ البتہ نفل نمازوں کا جب موقع ملتا تھا پڑھ لیا کرتے تھے ، حتٰی کہ سواری پر بیٹھے ہوئے بھی پڑھتے رہتے تھے ۔ اسی بنا پر حضرت عبداللہ بن عمر نے لوگوں کو سفر میں فجر کے سوا دوسرے اوقات کی سنتیں پڑھنے سے منع کیا ہے ۔ مگر اکثر علماء ترک اور فعل دونوں کو جائز قرار دیتے ہیں اور اسے بندے کے اختیار پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ حنفیہ کا مختار مذہب یہ ہے کہ مسافر جب راستہ طے کر رہا ہو تو سنتیں نہ پڑھنا افضل ہے اور جب کسی مقام پر منزل کرے اور اطمینان حاصل ہو تو پڑھنا افضل ہے ۔ جس سفر میں قصر کیا جا سکتا ہے اس کے لیے بعض ائمہ نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ فی سبیل اللہ ہونا چاہیے ، جیسے جہاد ، حج ، عمرہ ، طلب علم وغیرہ ۔ ابن عمر ، ابن مسعود رضی اللہ عنہما اور عطا کا یہی فتویٰ ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سفر کسی ایسے مقصد کے لیے ہونا چاہیے جو شرعاً جائز ہو ، حرام و ناجائز اغراض کے لیے جو سفر کیا جائے اس میں قصر کی اجازت سے فائدہ اٹھانے کا کسی کو حق نہیں ہے ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ قصر ہر سفر میں کیا جا سکتا ہے ، رہی سفر کی نوعیت ، تو وہ بجائے خود ثواب یا عتاب کی مستحق ہو سکتی ہے ، مگر قصر کی اجازت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ بعض ائمہ نے ”مضائقہ نہیں“ ( فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ ) کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ سفر میں قصر کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ محض اس کی اجازت ہے ۔ آدمی چاہے تو اس سے فائدہ اٹھائے ورنہ پوری نماز پڑھے ۔ یہی رائے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کی ہے ، اگرچہ وہ قصر کرنے کو افضل اور ترک قصر کو ترک اولیٰ قرار دیتے ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک قصر کرنا واجب تو نہیں ہے مگر نہ کرنا مکروہ ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قصر کرنا واجب ہے اور یہی رائے ایک روایت میں امام مالک رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سفر میں قصر کیا ہے اور کسی معتبر روایت میں یہ منقول نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی سفر میں چار رکعتیں پڑھی ہوں ۔ ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ سفروں میں رہا ہوں اور کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے قصر نہ کیا ہو ۔ اسی کی تائید میں ابن عباس رضی اللہ عنہ اور دوسرے متعدد صحابہ سے بھی مستند روایات منقول ہیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب حج کے موقع پر منیٰ میں چار رکعتیں پڑھائیں تو صحابہ نے اس پر اعتراض کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دے کر لوگوں کو مطمئن کیا کہ میں نے مکہ میں شادی کر لی ہے ، اور چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ جو شخص کسی شہر میں متأَ مِّل ہوا ہو وہ گویا اس شہر کا باشندہ ہے ، اس لیے میں نے یہاں قصر نہیں کیا ۔ ان کثیر روایات کے خلاف دو روایتیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قصر اور اتمام دونوں درست ہیں ، لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کےعلاوہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے ثابت شدہ مسلک کے خلاف ہیں ۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ ایک حالت بین السفر والحضر بھی ہوتی ہے جس میں ایک ہی عارضی فرودگاہ پر حسب موقع کبھی قصر اور کبھی اتمام دونوں کیے جا سکتے ہیں ، اور غالباً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی حالت کے متعلق فرمایا ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں قصر بھی کیا ہے اور اتمام بھی ۔ رہے قرآن کے یہ الفاظ کہ”مضائقہ نہیں اگر قصر کرو“ تو ان کی نظیر سورہ بقرہ رکوع ۱۹ میں گزر چکی ہے جہاں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے متعلق بھی یہی الفاظ فرمائے گئے ہیں ، حالانکہ یہ سعی مناسک حج میں سے ہے اور واجب ہے ۔ دراصل دونوں جگہ یہ کہنے کا مقصود لوگوں کے اس اندیشہ کو دور کرنا ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں کوئی گناہ تو لازم نہیں آئے گا یا ثواب میں کمی تو نہ ہوگی ۔ مقدار سفر جس میں قصر کیا جاسکتا ہے ، ظاہریہ کے نزدیک کچھ نہیں ہے ، ہر سفر میں قصر کیا جا سکتا ہے خواہ کم ہو یا زیادہ ۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ٤۸ میل یا ایک دن رات سے کم کے سفر میں قصر نہیں ہے ۔ یہی رائے امام احمد رحمہ اللہ کی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی ایک قول اس کی تائید میں مروی ہے ۔ حضرت اَنَس ۱۵ میل کے سفر میں قصر کرنا جائز سمجھتے ہیں ۔ امام اَوزاعی اور امام زُہری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس رائے کو لیتے ہیں کہ ایک دن کا سفر قصر کے لیے کافی ہے ۔ حَسن بصری دو دن ، اور امام ابو یوسف دو دن سے زیادہ کی مسافت میں قصر جائز سمجھتے ہیں ۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک جس سفر میں پیدل یا اونٹ کی سواری سے تین دن صرف ہوں ( یعنی تقریباً ۱۸ فرسنگ یا ۵٤ میل ) اس میں قصر کیا جا سکتا ہے ۔ یہی رائے ابن عمر ، ابن مسعود اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی ہے ۔ اثنائے سفر میں دوران قیام جس میں قصر کیا جا سکتا ہے مختلف ائمہ کے نزدیک مختلف ہے ۔ امام احمد کے نزدیک جہاں آدمی نے چار دن ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا ہو وہاں پوری نماز پڑھنی ہوگی ۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک جہاں چار دن سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو وہاں قصر جائز نہیں ۔ امام اوزاعی ۱۳ دن اور امام ابو حنیفہ ۱۵ دن یا اس سے زیادہ کی نیت قیام پر پوری نماز ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس باب میں کوئی صریح حکم مروی نہیں ہے ۔ اور اگر کسی جگہ آدمی مجبوراً رکا ہوا ہو اور ہر وقت یہ خیال ہو کہ مجبوری دور ہوتے ہی وطن واپس ہو جائے گا تو تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایسی جگہ بلا تعین مدت قصر کیا جاتا رہے گا ۔ صحابہ کرام سے بکثرت مثالیں ایسی منقول ہیں کہ انہوں نے ایسے حالات میں دو دو سال مسلسل قصر کیا ہے ۔ امام احمد بن حنبل اسی پر قیاس کر کے قیدی کو بھی اس کے پورے زمانہ قید میں قصر کی اجازت دیتے ہیں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :133 ظاہریوں اور خارجیوں نے اس فقرے کا یہ مطلب لیا ہے کہ قصر صرف حالت جنگ کے لیے ہے اور حالت امن کے سفر میں قصر کرنا قرآن کے خلاف ہے ۔ لیکن حدیث میں مستند روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہی شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ ۔ ”یہ قصر کی اجازت ایک انعام ہے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے ، لہٰذا اس کے انعام کو قبول کرو ۔ “ یہ بات قریب قریب تواتر سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امن اور خوف دونوں حالتوں کے سفر میں قصر فرمایا ہے ۔ ابن عباس تصریح کرتے ہیں کہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم خرج من المدینۃ الیٰ مکۃ لا یخاف الا ربّ العٰلمین فصلی رکعتین ۔ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے اور اس وقت ربّ العالمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا ، مگر آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں “ ۔ اسی بنا پر میں نے ترجمہ میں خصوصاً کا لفظ قوسین میں بڑھا دیا ہے ۔
صلوۃ نصر؟ فرمان الٰہی ہے کہ تم کہیں سفر میں جا رہے ہو ۔ یہی الفاظ سفر کے لئے سورہ مزمل میں بھی آئے ہیں ۔ تو تم پر نماز کی تخفیف کرنے میں کوئی گناہ نہیں ، یہ کمی یا تو کمیت میں یعنی بجائے چار رکعت کے دو رکعت ہے جیسے کہ جمہور نے اس آیت سے سمجھا ہے گو پھر ان میں بعض مسائل میں اختلاف ہوا ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط ہے کہ سفر اطاعت کا ہو مثلاً جہاد کے لئے یا حج و عمرے کے لئے یا طلب و زیارت کے لئے وغیرہ ۔ ابن عمر عطاء یحییٰ اور ایک روایت کی رو سے امام مالک کا یہی قول ہے ، کیونکہ اس سے آگے فرمان ہے اگر تمہیں کفار کی ایذار سانی کا خوف ہو ، بعض کہتے ہیں اس قید کی کوئی ضرورت نہیں کہ سفر قربت الہیہ کا ہو بلکہ نماز کی کمی ہر مباح سفر کے لئے ہے جیسے اضطرار اور بےبسی کی صورت میں مردار کھانے کی اجازت ہے ، ہاں یہ شرط ہے کہ سفر معصیت کا نہ ہو ، امام شافعی وغیرہ ائمہ کا یہی قول ہے ، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں تجارت کے سلسلے میں دریائی سفر کرتا ہوں تو آپ نے اسے دو رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا ، یہ حدیث مرسل ہے ، بعض لوگوں کا مذہب ہے کہ ہر سفر میں نماز کو قصر کرنا جائز ہے سفر خواہ مباح ہو خواہ ممنوع ہو یہاں تک کہ اگر کوئی ڈاکہ ڈالنے کے لئے اور مسافروں کو ستانے کے لئے نکلا ہوا ہے اسے بھی نماز قصر کرنے کی اجازت ہے ، ابو حنیفہ ثوری اور داؤد کا یہی قول ہے کہ آیت عام ہے ، لیکن یہ قول جمہور کے قول کے خلاف ہے ۔ کفار سے ڈر کی جو شرط لگائی ہے یہ باعتبار اکثریت کے ہے آیت کے نازل ہونے کے وقت چونکہ عموماً یہی حال تھا اس لئے آیت میں بھی اسے بیان کر دیا گیا ، ہجرت کے بعد سفر مسلمانوں کے سب کے سب خوف والے ہی ہوتے تھے قدم قدم پر دشمن کا خطرہ رہتا تھا بلکہ مسلمان سفر کے لئے نکل ہی نہ سکتے تھے بجز اس کے کہ یا تو جہاد کو جائیں یا کسی خاص لشکر کے ساتھ جائیں اور یہ قاعدہ ہے کہ جب منطوق بہ اعتبار غالب کے آئے تو اس کا مفہوم معتبر نہیں ہوتا ۔ جیسے اور آیت میں ہے اپنی لونڈیوں کو بدکاری کے لئے مجبور نہ کرو اگر وہ پاکدامنی کرنا چاہیں اور جیسے فرمایا ان کی بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں جن عورتوں سے تم نے محبت کی ہے ۔ پس جیسے کہ ان دونوں آیتوں میں قید کا بیان ہے لیکن اس کے ہونے پر ہی حکم کا دارومدار نہیں بلکہ بغیر اس کے بھی حکم وہی ہے یعنی لونڈیوں کو بدکاری کے لئے مجبور کرنا حرام ہے چاہے وہ پاکدامنی میں ہو یا نہ ہو ، حالانکہ دونوں جگہ قرآن میں یہ قید موجود ہے ، پس جس طرح ان دونوں موقعوں میں بغیر ان قیود کے بھی حکم یہی ہے اسی طرح یہاں بھی گوخوف نہ ہو تو بھی محض سفر کی وجہ سے نماز کو قصر کرنا جائز ہے ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ نے حضرت عمر فاروق سے پوچھا کہ نماز کی تخفیف کا حکم تو خوف کی حالت میں ہے اور اب تو امن ہے؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ یہی خیال مجھے ہوا تھا اور یہی سوال میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا تو آپ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا صدقہ ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے تم اس کے صدقے کو قبول کرو ۔ مسلم اور سنن وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے بالکل صحیح روایت ہے ۔ ابو حنظلہ حذاء نے حضرت عمر سے سفر کی نماز کا پوچھا تو آپ نے فرمایا دو رکعت ہیں انہوں نے کہا قرآن میں تو خوف کے وقت دو رکعت ہیں اور اس وقت تو پوری طرح امن و امان ہے تو آپ نے فرمایا یہی سنت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ( ابن ابی شیبہ ) ایک اور شخص کے سوال پر حضرت عمر نے فرمایا تھا آسمان سے تو یہ رخصت اتر چکی ہے اب اگر تم چاہو تو اسے لوٹا دو ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مکہ اور مدینہ کے درمیان ہم نے باوجود امن کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو رکعت پڑھیں ( نسائی وغیرہ ) اور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکے کی طرف چلے تو اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ تھا اور آپ برابر دو رکعت ہی ادا فرماتے رہے ۔ بخاری کی حدیث میں ہے کہ واپسی میں بھی یہی دو رکعت آپ پڑھتے رہے اور مکے میں اس سفر میں آپ نے دس روز قیام کیا تھا ۔ مسند احمد میں حضرت حارثہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منی میں ظہر کی اور عصر کی نماز دو دو رکعت پڑھی ہیں حالانکہ اس وقت ہم بکثرت تھے اور نہایت ہی پر امن تھے ، صحیح بخاری میں ہے حضرت عبداللہ کے ساتھ ( سفر میں ) دو رکعت پڑھی ہیں ، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چار رکعات کا ذکر آیا تو آپ نے اناللہ الخ ، پڑھ کر فرمایا میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی منی میں دو رکعت پڑھی ہیں اور صدیق اکبر کے ساتھ بھی اور عمر فاروق کے ساتھ بھی کاش کہ بجائے ان چار رکعات کے میرے حصے میں دو ہی مقبول رکعات آئیں ، پس یہ حدیثیں کھلم کھلا دلیل ہیں اس بات کی کہ سفر کی دو رکعات کے لئے خوف کا ہونا شرط نہیں بلکہ نہایت امن و اطمینان کے سفر میں بھی دو گانہ ادا کر سکتا ہے ، اسی لئے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ یہاں کیفیت میں یعنی قرآت قومہ رکوع سجود وغیرہ میں قصر اور کمی مراد ہے نہ کہ کمیت میں یعنی تعداد رکعات میں تخفیف کرنا ، ضحاک ، مجاہد اور سدی کا یہی قول ہے جیسے کہ آرہا ہے ، اس کی ایک دلیل امام مالک کی روایت کردہ یہ حدیث بھی ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں نماز دو دو رکعتیں ہی سفر حضر میں فرض کی گئی تھی پھر سفر میں تو وہی دو رکعتیں رہیں اور اقامت کی حالت میں دو اور بڑھا دی گئیں ، پس علماء کی یہ جماعت کہتی ہے کہ اصل نماز دو رکعتیں تھی تو پھر اس آیت میں قصر سے مراد کمیت یعنی رکعتوں کی تعداد میں کمی کیسے ہو سکتی ہے؟ اس قول کی بہت بڑی تائید صراحتاً اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو مسند احمد میں حضرت عمر کی روایت سے ہے کہ بہ زبان نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی دو رکعتیں ہیں اور ضحی کی نماز بھی دو رکعت ہے اور عیدالفطر کی نماز بھی دو رکعت ہے اور جمعہ کی نماز بھی دو رکعت ہے یہ یہی پوری نماز ہے قصر والی نہیں ، یہ حدیث نسانی ، ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں بھی ہے اس کی سند بشرط مسلم ہے ۔ اس کے راوی ابن ابی لیلیٰ کا حضرت عمر سے سننا ثابت ہے جیسے کہ امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں لکھا ہے اور خود اس روایت اور اس کے علاوہ بھی صراحتاً موجود ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے انشاء اللہ ۔ گو بعض محدثین سننے پر فیصلہ دینے کے قائل نہیں ، لیکن اسے مانتے ہوئے بھی اس سند میں کمی واقع نہیں ہوتی کیونکہ بعض طرق میں ابن ابی لیلیٰ کا ایک ثقہ سے اور ان کا حضرت عمر سے سننا مروی ہے ، اور ابن ماجہ میں ان کا کعب بن عجرہ سے روایت کرنا اور ان کا حضرت عمر سے روایت کرنا بھی مروی ہے فاللہ اعلم ۔ مسلم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی نماز کو اقامت کی حالت میں چار رکعت فرض کی ہے اور سفر میں دو رکعت اور خوف میں ایک رکعت ۔ پس جیسے کہ قیام میں اس سے پہلے اور اس کے پیچھے نماز پڑھتے تھے یا پڑھی جاتی تھی اسی طرح سفر میں بھی اور اس روایت میں اور حضرت عائشہ والی روایت میں جو اوپر گذری کہ حضر میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعتیں ہی فرض کی تھیں گویا مسافات سے مشروط ہیں اس لئے کہ اصل دو ہی تھیں بعد میں دو اور بڑھا دی گئیں پھر حضر کی چار رکعت ہوگئیں تو اب کہہ سکتے ہیں کہ اقامت کی حالت میں فرض چار رکعتیں ہیں ۔ جیسے کہ ابن عباس کی اس روایت میں ہے واللہ اعلم ۔ الغرض یہ دونوں روایتیں اسے ثابت کرتی ہیں کہ سفر میں دو رکعت نماز ہی پوری نماز ہے کم نہیں اور یہی حضرت عمر کی روایت سے بھی ثابت ہو چکا ہے ۔ مراد اس میں قصر کمیت ہے جیسے کہ صلوۃ خوف میں ہے اسی لئے فرمایا ہے اگر تم ڈرو اس بات سے کہ کافر تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے اور اس کے بعد فرمایا جب وقت ان میں ہو اور نماز پڑھو تو بھی ۔ پھر قصر کا مقصود صفت اور کیفیت بھی بیان فرما دی امام المحدثین حضرت بخاری نے کتاب صلوۃ خوف کو اسی ( وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ڰ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ اِنَّ الْكٰفِرِيْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًا ) 4 ۔ النسآء:101 ) تک لکھ کر شروع کیا ہے ، ضحاک اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ لڑائی کے وقت ہے انسان اپنی سواری پر نماز دو تکبیریں پڑھ لے اس کا منہ جس طرف بھی ہو اسی طرف صحیح ہے ۔ سدی فرماتے ہیں کہ سفر میں جب تو نے دو رکعت پڑھیں تو وہ قصر کی پوری مقدار ہے ہاں جب کافروں کی فتنہ انگیزی کا خوف ہو تو ایک ہی رکعت قصر ہے البتہ یہ کسی سنین خوف کے بغیر جائز نہیں ۔ مجاہد فرماتے ہیں اس آیت سے مراد وہ دن ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کے ساتھ حسب معمول چار رکعتیں پوری ادا کیں پھر مشرکین نے سامان و اسباب کو لوٹ لینے کر ارادہ کیا ، ابن جریر اسے مجاہد اور سدی اور جابر اور ابن عمر سے روایت کرتے ہیں اور اسی کو اختیار کرتے ہیں اور اسی کو کہتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے ۔ حضرت خالد بن اسید حضرت عبداللہ بن عمر سے کہتے ہیں صلوۃ خوف کے قصر کا حکم تو ہم کتاب اللہ میں پاتے ہیں لیکن صلوۃ مسافر کے قصر کا حکم کتاب اللہ میں نہیں ملتا تو حضرت ابن عمر جواب دیتے ہیں ہم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں نماز کو قصر کرتے ہوئے پایا اور ہم نے بھی اس پر عمل کیا ۔ خیال فرمائیے کہ اس میں قصر کا اطلاق صلوۃ خوف پر کیا اور آیت سے مراد بھی صلوۃ خوف لی اور صلوۃ مسافر کو اس میں شامل نہیں کیا اور حضرت ابن عمر نے بھی اس کا اقرار کیا ۔ اس آیت سے مسافرت کی نماز کا قصر بیان نہیں فرمایا بلکہ اس کے لئے فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سند بتایا ۔ اس سے زیادہ صراحت والی روایت ابن جریر کی ہے کہ حضرت سماک آپ سے صلوۃ پوچھتے ہیں آپ فرماتے ہیں سفر کی نماز دو رکعت ہے اور یہی دو رکعت سفر کی پوری نماز ہے قصر نہیں ، قصر تو صلوۃ خوف میں ہے کہ امام ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھاتا ہے دوسری جماعت دشمن کے سامنے ہے پھر یہ چلے گئے وہ آگئے ایک رکعت امام نے انہیں پڑھائی تو امام کی دو رکعت ہوئیں اور ان دونوں جماعتوں کی ایک ایک رکعت ہوئی ۔