Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِذَا كُنۡتَ فِيۡهِمۡ فَاَقَمۡتَ لَهُمُ الصَّلٰوةَ فَلۡتَقُمۡ طَآٮِٕفَةٌ مِّنۡهُمۡ مَّعَكَ وَلۡيَاۡخُذُوۡۤا اَسۡلِحَتَهُمۡ فَاِذَا سَجَدُوۡا فَلۡيَكُوۡنُوۡا مِنۡ وَّرَآٮِٕكُمۡ وَلۡتَاۡتِ طَآٮِٕفَةٌ اُخۡرٰى لَمۡ يُصَلُّوۡا فَلۡيُصَلُّوۡا مَعَكَ وَلۡيَاۡخُذُوۡا حِذۡرَهُمۡ وَاَسۡلِحَتَهُمۡ‌ ۚ وَدَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَوۡ تَغۡفُلُوۡنَ عَنۡ اَسۡلِحَتِكُمۡ وَاَمۡتِعَتِكُمۡ فَيَمِيۡلُوۡنَ عَلَيۡكُمۡ مَّيۡلَةً وَّاحِدَةً‌ ؕ وَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ اِنۡ كَانَ بِكُمۡ اَ ذًى مِّنۡ مَّطَرٍ اَوۡ كُنۡـتُمۡ مَّرۡضٰۤى اَنۡ تَضَعُوۡۤا اَسۡلِحَتَكُمۡ‌ ۚ وَ خُذُوۡا حِذۡرَكُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَذَابًا مُّهِيۡنًا‏ ﴿102﴾
جب تم ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو تو چائیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آ جائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آ جائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لئے رہے کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے بے خبر ہو جاؤ تو وہ تم پر اچانک دھاوا بول دیں ہاں اپنے ہتھیار اتار رکھنے میں اُس وقت تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ تمہیں تکلیف ہو یا بوجہ بارش کے یا بسبب بیمار ہو جانے کے اور اپنے بچاؤ کی چیزیں ساتھ لئے رہو- یقیناً اللہ تعالٰی نے منکروں کے لئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے ۔
و اذا كنت فيهم فاقمت لهم الصلوة فلتقم طاىفة منهم معك و لياخذوا اسلحتهم فاذا سجدوا فليكونوا من وراىكم و لتات طاىفة اخرى لم يصلوا فليصلوا معك و لياخذوا حذرهم و اسلحتهم ود الذين كفروا لو تغفلون عن اسلحتكم و امتعتكم فيميلون عليكم ميلة واحدة و لا جناح عليكم ان كان بكم اذى من مطر او كنتم مرضى ان تضعوا اسلحتكم و خذوا حذركم ان الله اعد للكفرين عذابا مهينا
And when you are among them and lead them in prayer, let a group of them stand [in prayer] with you and let them carry their arms. And when they have prostrated, let them be [in position] behind you and have the other group come forward which has not [yet] prayed and let them pray with you, taking precaution and carrying their arms. Those who disbelieve wish that you would neglect your weapons and your baggage so they could come down upon you in one [single] attack. But there is no blame upon you, if you are troubled by rain or are ill, for putting down your arms, but take precaution. Indeed, Allah has prepared for the disbelievers a humiliating punishment.
Jab tum inn mein ho aur inn kay liye namaz khari kero to chahaiye kay inn ki aik jamat tumharay sath apney hathyaar liye khari ho phir jab yeh sajda ker chuken to yeh hatt ker tumharay peechay aajayen aur woh doosti jamat jiss ney namaz nahi parhi woh aajaye aur teray sath namaz ada keray aur apna bachao aur apney hathyaar liye rahey kafir chahtay hain kay kissi tarah tum apney hathyaaron aur apney saman say bey khabar ho jao to woh tum per achanak dhaawa bol den haan apney hathyaar utaar rakhney mein uss waqt tum per koi gunah nahi jab kay tumhen takleef ho ya ba waja barish kay ya ba sabab beemar hojaney kay aur apney bachao ki cheezen sath liye raho. Yaqeenan Allah Taalaa ney munkiron kay liye zillat ki maar tayyar ker rakhi hai.
اور ( اے پیغمبر ) جب تم ان کے درمیان موجود ہو اور انہیں نماز پڑھاؤ تو ( دشمن سے مقابلے کے وقت اس کا طریقہ یہ ہے کہ ) مسلمانوں کا ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہوجائے اور اپنے ہتھیار ساتھ لے لے ۔ پھر جب یہ لوگ سجدہ کرچکیں تو تمہارے پیچھے ہوجائیں ، اور دوسرا گروہ جس نے ابھی تک نماز نہ پڑھی ہو آگے آجائے ، اور وہ تمہارے ساتھ نماز پڑھے ، اور وہ اپنے ساتھ اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار لے لے ۔ کافر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے غافل ہوجاؤ تو وہ ایک دم تم پر ٹوٹ پڑیں ۔ اور اگر تمہیں بارش کی وجہ سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو تو اس میں بھی تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم اپنے ہتھیار اتار کر رکھ دو ، ہاں اپنے بچاؤ کا سامان ساتھ لے لو ۔ بیشک اللہ نے کافروں کے لیے ذلت والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
اور اے محبوب! جب تم ان میں تشریف فرما ہو ( ف۲۷۵ ) پھر نماز میں ان کی امامت کرو ( ف۲۷٦ ) تو چاہئے کہ ان میں ایک جماعت تمہارے ساتھ ہو ( ف۲۷۷ ) اور وہ اپنے ہتھیار لیے رہیں ( ف۲۷۸ ) پھر جب وہ سجدہ کرلیں ( ف۲۷۹ ) تو ہٹ کر تم سے پیچھے ہوجائیں ( ف۲۸۰ ) اور اب دوسری جماعت آئے جو اس وقت تک نماز میں شریک نہ تھی ( ف۲۸۱ ) اب وہ تمہارے مقتدی ہوں اور چاہئے کہ اپنی پناہ اور اپنے ہتھیار لیے رہیں ( ف۲۸۲ ) کافروں کی تمنا ہے کہ کہیں تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے اسباب سے غافل ہو جاؤ تو ایک دفعہ تم پر جھک پڑیں ( ف۲۸۳ ) اور تم پر مضائقہ نہیں اگر تمہیں مینھ کے سبب تکلیف ہو یا بیمار ہو کہ اپنے ہتھیار کھول رکھو اور اپنی پناہ لیے رہو ( ف۲۸٤ ) بیشک اللہ نے کافروں کے لئے خواری کا عذاب تیار کر رکھا ہے ،
اور اے نبی ! جب تم مسلمانوں کے درمیان ہو اور ﴿حالتِ جنگ میں﴾ انہیں نماز پڑھانے کھڑے ہو 134 تو چاہیے کہ ان میں 135 سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو اور اسلحہ لیے رہے ، پھر جب وہ سجدہ کر لے تو پیچھے چلا جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے آکر تمہارے ساتھ پڑھے اور وہ بھی چوکنّا رہے اور اپنے اسلحہ لیے رہے ، 136 کیوں کہ کفّار اس تاک میں ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان کی طرف سے ذرا غافل ہو تو وہ تم پر یک بارگی ٹوٹ پڑیں ۔ البتہ اگر تم بارش کی وجہ سے تکلیف محسوس کرو یا بیمار ہو تو اسلحہ رکھ دینے میں مضائقہ نہیں ، مگر پھر بھی چوکنّے رہو ، یقین رکھو کہ اللہ نے کافروں کے لیے رسوا کن عذاب مہیّا کر رکھا ہے ۔ 137
اور ( اے محبوب! ) جب آپ ان ( مجاہدوں ) میں ( تشریف فرما ) ہوں تو ان کے لئے نماز ( کی جماعت ) قائم کریں پس ان میں سے ایک جماعت کو ( پہلے ) آپ کے ساتھ ( اقتداءً ) کھڑا ہونا چاہئے اور انہیں اپنے ہتھیار بھی لئے رہنا چاہئیں ، پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو ( ہٹ کر ) تم لوگوں کے پیچھے ہو جائیں اور ( اب ) دوسری جماعت کو جنہوں نے ( ابھی ) نماز نہیں پڑھی آجانا چاہیے پھر وہ آپ کے ساتھ ( مقتدی بن کر ) نماز پڑھیں اور چاہئے کہ وہ ( بھی بدستور ) اپنے اسبابِ حفاظت اور اپنے ہتھیار لئے رہیں ، کافر چاہتے ہیں کہ کہیں تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے اسباب سے غافل ہو جاؤ تو وہ تم پر دفعۃً حملہ کر دیں ، اور تم پر کچھ مضائقہ نہیں کہ اگر تمہیں بارش کی وجہ سے کوئی تکلیف ہو یا بیمار ہو تو اپنے ہتھیار ( اُتار کر ) رکھ دو ، اوراپنا سامانِ حفاظت لئے رہو ۔ بیشک اللہ نے کافروں کے لئے ذلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :134 امام ابو یوسف اور حسن بن زیاد نے ان الفاظ سے یہ گمان کیا ہے کہ صلوٰۃِ خوف صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لیے مخصوص تھی ۔ لیکن قرآن میں اس کی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے ایک حکم دیا گیا ہے اور وہی حکم آپ کے بعد آپ کے جانشینوں کے لیے بھی ہے ۔ اس لیے صلوٰۃِ خوف کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ پھر بکثرت جلیل القدر صحابہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی صلوٰۃ خوف پڑھی ہے اور اس باب میں کسی صحابی کا اختلاف مروی نہیں ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :135 صلوٰۃ خوف کا یہ حکم اس صورت کے لیے ہے جب کہ دشمن کے حملہ کا خطرہ تو ہو مگر عملاً معرکہ قتال گرم نہ ہو ۔ رہی یہ صورت کہ عملاً جنگ ہو رہی ہو تو اس صورت میں حنفیہ کے نزدیک نماز مؤخر کر دی جائے گی ۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام ثَوری کے نزدیک اگر رکوع و سجود ممکن نہ ہو تو اشاروں سے پڑھ لی جائے ۔ امام شافعی کے نزدیک نماز ہی کی حالت میں تھوڑی سی زد و خورد بھی کی جا سکتی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہے کہ آپ نے غزوہ خندق کے موقع پر چار نمازیں نہیں پڑھیں اور پھر موقع پا کر علی الترتیب انہیں ادا کیا ، حالانکہ غزوہ خندق سے پہلے صلوٰۃ خوف کا حکم آچکا تھا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :136 صلوٰۃِ خوف کی ترکیب کا انحصار بڑی حد تک جنگی حالات پر ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے نماز پڑھائی ہے اور امام وقت مجاز ہے کہ ان طریقوں میں سے جس طریقہ کی اجازت جنگی صورت حال دے اسی کو اختیار کرے ۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ امام کے ساتھ نماز پڑھے اور دوسرا حصہ دشمن کے مقابلہ پر رہے ۔ پھر جب ایک رکعت پوری ہو جائے تو پہلا حصہ سلام پھیر کر چلا جائے اور دوسرا حصہ آکر دوسری رکعت امام کے ساتھ پوری کرے ۔ اس طرح امام کی دو رکعتیں ہوں گی اور فوج کی ایک ایک رکعت ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ کر چلا جائے ، پھر دوسرا حصہ آکر ایک رکعت امام کے پیچھے پڑھے ، پھر دونوں حصے باری باری سے آکر اپنی چھوٹی ہوئی ایک ایک رکعت بطور خود ادا کرلیں ۔ اس طرح دونوں حصوں کی ایک ایک رکعت امام کے پیچھے ادا ہو گی ، اور ایک رکعت انفرادی طور پر ۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے فوج کا ایک حصہ دو رکعتیں ادا کرے اور تشہد کے بعد سلام پھیر کر چلا جائے ۔ پھر دوسرا حصہ تیسری رکعت میں آکر شریک ہو اور امام کے ساتھ سلام پھیرے ۔ اس طرح امام کی چار اور فوج کی دو دو رکعتیں ہوں گی ۔ چوتھا طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور جب امام دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو تو مقتدی بطور خود ایک رکعت مع تشہد پڑھ کر سلام پھیر دیں ۔ پھر دوسرا حصہ آکر اس حال میں امام کے پیچھے کھڑا ہو کہ ابھی امام دوسری ہی رکعت میں ہو اور یہ لوگ بقیہ نماز امام کے ساتھ ادا کرنے کے بعد ایک رکعت خود اٹھ کر پڑھ لیں ۔ اس صورت میں امام کو دوسری رکعت میں طویل قیام کرنا ہو گا ۔ پہلی صورت کو ابن عباس ، جابر بن عبداللہ اور مجاھد نے روایت کیا ہے ۔ دوسرے طریقہ کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے اور حنفیہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ تیسرے طریقہ کو حسن بصری نے ابوبکرہ سے روایت کیا ہے ۔ اور چوتھے طریقہ کو امام شافعی اور مالک نے تھوڑے اختلاف کے ساتھ ترجیح دی ہے اور اس کا ماخذ سہل بن ابی حَثْمَہ کی روایت ہے ۔ ان کے علاوہ صلوٰۃِ خوف کے اور بھی طریقے ہیں جن کی تفصیل مبسوطات میں مل سکتی ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :137 یعنی یہ احتیاط جس کا حکم تمہیں دیا جا رہا ہے ، محض دنیوی تدابیر کے لحاظ سے ہے ، ورنہ دراصل فتح و شکست کا مدار تمہاری تدابیر پر نہیں بلکہ اللہ کے فیصلہ پر ہے ۔ اس لیے ان احتیاطی تدبیروں پر عمل کرتے ہوئے تمہیں اس امر کا یقین رکھنا چاہیے کہ جو لوگ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کررہے ہیں ، اللہ انہیں رسوا کرے گا ۔
صلوۃ خوف کے مسائل نماز خوف کی کئی قسمیں مختلف صورتیں اور حالتیں ہیں ، کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ دشمن قبلہ کی طرف کبھی دشمن دوسری جانب ہوتا ہے ، نماز بھی کبھی چار رکعت ہوتی ہے کبھی تین رکعت جیسے مغرب اور فجر کی دو صلوۃ سفر ، کبھی جماعت سے ادا کرنی ممکن کرتی ہے کبھی لشکر اس طرح باہم گتھے ہوئے ہوتے ہیں کہ نماز با جماعت ممکن ہی نہیں ہوتی بلکہ الگ الگ قبلہ کی طرف اور غیر قبلہ کی طرف پیدل اور سوار جس طرح ممکن ہو پڑھی جاتی ہے بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے جو جائز بھی ہے کہ دشمنوں کے حملوں سے بچتے بھی جائیں ان پر برابر حملے بھی کرتے جائیں اور نماز بھی ادا کرتے جائیں ، ایسی حالت میں صرف ایک رکعت ہی نماز پڑھی جاتی ہے جس کے جواز میں علماء کا فتویٰ ہے اور دلیل حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث ہے جو اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں بیان ہو چکی ہے عطا ، جابر ، حسن ، مجاہد ، حکم ، قتادہ ، حماد ، طاؤس ، ضحاک ، محمد بن نصر ، مروزی ، ابن حزم اجمعین کا یہی فتویٰ ہے ، صبح کی نماز میں ایک ہی رکعت اس حالت میں رہ جاتی ہے ، اسحق راہویہ فرماتے ہیں ایسی دوڑ دھوپ کے وقت ایک ہی رکعت کافی ہے ۔ ارشاد ہے ادا کر لے اگر اس قدر پر بھی قادریہ ہو تو سجدہ کرلے یہ بھی ذکر اللہ ہے ، اور لوگ کہتے ہیں صرف ایک تکبیر ہی کافی ہے لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ ایک سجدہ اور ایک تکبیر سے مراد بھی ایک رکعت ہو ۔ جیسے کہ حضرت امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب کا فتویٰ ہے اور یہی قول ہے جابر بن عبداللہ ، عبداللہ بن عمر کعب وغیرہ صحابہ کا رضی اللہ عنہم اجمعین ، سدی بھی فرماتے ہیں لیکن جن لوگوں کا قول صرف ایک تکبیر کا ہی بیان ہوا ہے اس کا بیان کرنے والے اسے پوری رکعت پر محمول نہیں کرتے بلکہ صرف تکبیر ہی جو ظاہر ہے مراد لیتے ہیں جیسے کہ اسحاق بن راہویہ کا مذہب ہے ، امیر عبدالوہاب بن بخت مکی بھی اسی طرف گئے ہیں وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر اس پر بھی قدرت نہ ہو تو اسے اپنے نفس میں بھی نہ چھوڑے یعنی نیت ہی کر لے واللہ اعلم ۔ ( لیکن صرف نیت کے کر لینے یا صرف اللہ اکبر کہہ لینے پر اکتفا کرنے یا صرف ایک ہی سجدہ کر لینے کی کوئی دلیل قرآن حدیث سے نظر سے نہیں گذری ۔ واللہ اعلم مترجم ) بعض علماء نے ایسے خاص اوقات میں نماز کو تاخیر کرکے پڑھنے کی رخصت بھی دی ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق میں سورج ڈوب جانے کے بعد ظہر عصر کی نماز پڑھی تھی پھر مغرب عشاء ، پھر اس کے بعد بنو قریظہ کی جنگ کے دن ان کی طرف جنہیں بھیجا تھا انہیں تاکید کر دی تھی کہ تم میں سے کوئی بھی بنو قریظہ تک پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز نہ پڑھے یہ جماعت ابھی راستے میں ہی تھی تو عصر کا وقت آگیا بعض نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس فرمان سے صرف یہی تھا کہ ہم جلدی بنو قریظہ پہنچ کر نماز پڑھی جبکہ سورج غروب ہو چکا تھا ۔ جب اس بات کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تو آپ نے دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کو بھی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی ہم نے اس پر تفصیلی بحث اپنی کتاب السیرۃ میں کی ہے اور اسے ثابت کیا ہے کہ صحیح بات کے قریب وہ جماعت تھی جنہوں نے وقت پر نماز ادا کر لی گو دوسری جماعت بھی معذور تھی ، مقصود یہ ہے کہ اس جماعت نے جہاد کے موقعہ پر دشمنوں پر تاخت کرتے ہوئے ان کے قلعے کی طرف یورش جاری رکھتے ہوئے نماز کو موخر کر دیا ، دشمنوں کا یہ گروہ ملعون یہودیوں کا تھا جنہوں نے عہذ توڑ دیا تھا اور صلح کے خلاف کیا تھا ۔ لیکن جمہور کہتے ہیں صلوۃ خوف کے نازل ہونے سے یہ سب منسوخ ہو گیا یہ واقعات اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کے ہیں صلوۃ خوف کے حکم کے بعد اب جہاد کے وقت نماز کو وقت سے ٹالنا جائز نہیں رہا ، ابو سعید کی روایت سے بھی یہی ظاہر ہے جسے شافعی نے مروی کی ہے ، لیکن صحیح بخاری کے ( باب الصلوۃ عند منا ھضتہ الحصون الخ ، ) میں ہے کہ اوزاعی فرماتے ہیں اگر فتح کی تیاری ہو اور نماز با جماعت کا امکان نہ ہو تو ہر شخص الگ الگ اپنی اپنی نماز اشارے سے ادا کر لے اگر یہ بھی نہ ہو سکتا ہو تو نماز میں تاخیر کرلیں یہاں تک کہ جنگ ختم ہو یا امن ہو جائے اس وقت دو رکعتیں پڑھ لیں اور اگر امن نہ ملے تو ایک رکعت ادا کرلیں صرف تکبیر کا کہہ لینا کافی نہیں ۔ ایسا ہو تو نماز کو دیر کرکے پڑھیں جبکہ اطمینان نصیب ہو جائے حضرت مکحول کا فرمان بھی یہی ہے حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ستر کے قلعہ کے محاصرے میں میں موجود تھا صبح صادق کے وقت دست بدست جنگ شروع ہوئی اور سخت گھمسان کا رن پڑا ہم لوگ نماز نہ پڑھ سکے اور برابر جہاد میں مشغول رہے جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں قلعہ پر قابض کر دیا اس وقت ہم نے دن چڑھے نماز پڑھی اس جنگ میں ہمارے امام حضرت ابو موسیٰ تھے حضرت انس فرماتے ہیں اس نماز کے متبادل ساری دنیا کی تمام چیزیں بھی مجھے خوش نہیں کر سکتیں امام بخاری اس کے بعد جنگ خندق میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازوں کو تاخیر کرنے کا ذکر کرتے ہیں پھر بنو قریظہ والا واقعہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ تم بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز نہ پڑھنا وارد کرتے ہیں گویا امام ہمام حضرت امام بخاری اسی سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایسی اشد لڑائی اور پورے خطرے اور قرب فتح کے موقع پر اگر نماز موخر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں حضرت ابو موسیٰ نے اس پر اعتراض کیا ہو اور یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ خندق کے موقع پر بھی صلوۃ خوف کی آیتیں موجود تھیں اس لئے کہ یہ آیتیں غزوہ ذات الرقاع میں نازل ہوئی ہیں اور یہ غزوہ غزوہ خندق سے پہلے کا ہے اور اس پر جمہور علماء سیر و مغازی کا اتفاق ہے ، محمد بن اسحق ، موسیٰ بن عقبہ واقدی ، محمد بن سعد ، کاتب واقدی اور خطیفہ بن خیاط وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں ، ہاں امام بخاری وغیرہ کا قول ہے کہ غزوہ ذات الرقاع خندق کے بعد ہوا تھا بہ سبب بحوالہ حدیث ابو موسیٰ کے اور یہ خود خیبر میں ہی آئے تھے واللہ اعلم ، لیکن سب سے زیادہ تعجب تو اس امر پر ہے کہ قاضی ابو یوسف مزنی ابراہیم بن اسمٰعیل بن علیہ کہتے ہیں کہ صلوۃ خوف منسوخ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوہ خندق میں میں دیر کرکے نماز پڑھنے سے ۔ یہ قول بالکل ہی غریب ہے اس لئے کہ غزوہ خندق کے بعد کے صلوۃ کے بعد کی صلوۃ خوف کی حدیثیں ثابت ہیں ، اس دن کی نماز کی تاخیر کو مکحول اور اوزاعی کے قول پر ہی محمول کرنا زیادہ قوی اور زیادہ درست ہے یعنی ان کا وہ قول جو بحوالہ بخاری بیان ہوا کہ قرب فتح اور عدم امکان صلوۃ خوف کے باوجود تاخیر جائز ہے واللہ اعلم ۔ آیت میں حکم ہوتا ہے کہ جب تو انہیں باجماعت نماز پڑھائے ۔ یہ حالت پہلی کے سوا ہے اس وقت یعنی انتہائی خوف کے وقت تو ایک ہی رکعت جائز ہے اور وہ بھی الگ ، الگ ، پیدل سوار قبلہ کی طرف منہ کرکے یا نہ کرکے ، جس طرح ممکن ہو ، جیسے کہ حدیث گذر چکی ہے ۔ یہ امامت اور جماعت کا حال بیان ہو رہا ہے جماعت کے واجب ہونے پر یہ آیت بہترین اور مضبوط دلیل ہے کہ جماعت کی وجہ سے بہت کمی کر دی گئی ۔ اگر جماعت واجب نہ ہوتی تو صرف ایک رکعت جائز نہ کی جاتی ۔ بعض نے اس سے ایک اور استدلال بھی کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس میں چونکہ یہ لفظ ہیں کہ جب تو ان میں ہو اور یہ خطاب نبی کریم علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم سے ہے تو معلوم ہوا کہ صلوۃ خوف کا حکم آپ کے بعد منسوخ ہے ، یہ استدلال بالکل ضعیف ہے ، یہ استدلال تو ایسا ہی ہے جیسا استدلال ان لوگوں کا تھا جو زکوٰۃ کو خلفائے راشدین سے روک بیٹھے تھے اور کہتے تھے کہ قرآن میں ہے ( آیت خذ من اموالھم صدقتہ الخ ، ) یعنی تو ان کے مالوں سے زکوٰۃ لے جس سے تو انہیں پاک صاف کر اور تو ان کے لئے رحمت کی دعا کر تیری دعا ان کے لئے باعث تسکین ہے ۔ تو ہم آپ کے بعد کسی کو زکوٰۃ نہ دیں گے بلکہ ہم آپ اپنے ہاتھ سے خود جسے چاہیں دیں گے اور صرف اسی کو دیں گے جس کو دعا ہمارے لئے سبب سکون بنے ۔ لیکن یہ استدلال ان کا بےمعنی تھا اسی لئے کہ صحابہ نے اسے رد کر دیا اور انہیں مجبور کیا کہ یہ زکوٰۃ ادا کریں بلکہ ان میں سے جن لوگوں نے اسے روک لیا تھا ان سے جنگ کی ۔ آئیے ہم آیت کی صفت بیان کرنے سے پہلے اس کا شان نزول بیان کر دیں ابن جریر میں ہے کہ بنو نجار کی ایک قوم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ہم برابر اِدھر اُدھر آمد و رفت کیا کرتے ہیں ، ہم نماز کس طرح پڑھیں تو اللہ عزوجل نے اپنا یہ قول نازل فرمایا ( آیت واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ ) اس کے بعد سال بھر تک کوئی حکم نہ آیا پھر جبکہ آپ ایک غزوے میں ظہر کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو مشرکین کہنے لگے افسوس کیا ہی اچھا موقعہ ہاتھ سے جاتا رہا کاش کہ نماز کی حالت میں ہم یکبارگی ان پر حملہ کر دیتے ، اس پر بعض مشرکین نے کہا یہ موقعہ تو تمہیں پھر بھی ملے گا اس کے تھوڑی دیر بعد ہی یہ دوسری نماز ( یعنی نماز عصر ) کے لئے کھڑے ہوں گے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے عصر کی نماز سے پہلے اور ظہر کی نماز کے بعد ( آیت ان خفتم ) والی پوری دو آیتوں تک نازل فرما دیں اور کافر ناکام رہے خود اللہ تعالیٰ و قدوس نے صلوۃ خوف کی تعلیم دی ۔ گویہ سیاق نہایت ہی غریب ہے لیکن اسے مضبوط کرنے والی اور روایتیں بھی ہیں ، حضرت ابو عیاش زرقی فرماتے ہیں عسفان میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے خالد بن ولید اس وقت اسلام نہیں لائے تھے اور مشرکین کے لشکر کے سردار تھے یہ لوگ ہمارے سامنے پڑاؤ ڈالے تھے تب ہم نے قبلہ رخ ، ظہر کی نماز جب ہم نے ادا کی تو مشرکوں کے منہ میں پانی بھر آیا اور وہ کہنے لگے افسوس ہم نے موقعہ ہاتھ سے کھو دیا وقت تھا کہ یہ نماز میں مشغول تھے اِدھر ہم ان پر دفعتہ دھاوا بول دیتے پھر ان میں کے بعض جاننے والوں نے کہا خیر کوئی بات نہیں اس کے بعد ان کی ایک اور نماز کا وقت آرہا ہے اور وہ نماز تو انہیں اپنے بال بچوں سے بلکہ اپنی جانوں سے بھی زیاہ عزیز ہے اس وقت سہی ۔ پس ظہر عصر کے درمیان اللہ عزوجل نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو نازل فرمایا اور ( آیت اذا کنت فیھم ) اتاری چنانچہ عصر کی نماز کے وقت ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہم نے ہتھیار سجا لئے اور اپنی دو صفوں میں سے پہلی صف آپ کے ساتھ سجدے میں گئی اور دوسری صف کھڑی کی کھڑی ان کی نگہبانی کرتی رہی جب سجدوں سے فارغ ہو کر یہ لوگ کھڑے ہوگئے تو اب دوسری صف والے سجدے میں گئے جب یہ دونوں سجدے کر چلے تو اب پہلی صف والے دوسری صف کی جگہ چلے گئے اور دوسری صف والے پہلی صف والوں کی جگہ آگئے ، پھر قیام رکوع اور قومہ سب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ساتھ ادا کیا اور جب آپ سجدے میں گئے تو صف اوّل آپ کے ساتھ سجدے میں گئی اور دوسری صف والے کھڑے ہوئے پہرہ دیتے رہے جب یہ سجدوں سے فارغ ہوگئے اور التحیات میں بیٹھے تب دوسری صف کے لوگوں نے سجدے کئے اور التحیات میں سب کے سب ساتھ مل گئے اور سلام بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب نے ایک ساتھ پھیرا ۔ صلوٰۃ خوف ایک بار تو آپ نے یہاں عسفان میں پڑھی اور دوسری مرتبہ بنو سلیم کی زمین میں ۔ یہ حدیث مسند احمد ابو داؤد اور نسائی میں بھی ہے اس کی اسناد صحیح ہے اور شاہد بھی بکثرت ہیں بخاری میں بھی یہ روایت اختصار کے ساتھ ہے اور اس میں ہے باوجود یکہ سب لوگ نماز میں تھے لیکن ایک دوسرے کی چوکیداری کر رہے تھے ۔ ابن جریر میں ہے کہ سلیمان بن قیس یشکری نے حضرت جابر بن عبداللہ سے پوچھا نماز کے قصر کرنے کا حکم کب نازل ہوا ؟ تو آپ نے فرمایا قریشیوں کا ایک قافلہ شام سے آرہا تھا ہم اس کی طرف چلے ۔ وادی نخل میں پہنچے تو ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہچ گیا اور کہنے لگا کیا آپ مجھ سے ڈرتے نہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں اس نے کہا آپ کو مجھ سے اس وقت کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ مجھے تجھ سے بچا لے گا پھر تلوار کھینچ لی اور ڈرایا دھمکایا ، پھر کوچ کی منادی ہوئی اور آپ ہتھیار سجا کر چلے ۔ پھر اذان ہوئی اور صحابہ دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ایک حصہ آپ کے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا اور دوسرا حصہ پہرہ دے رہا تھا جو آپ کے متصل تھے وہ دو رکعت آپ کے ساتھ پڑھ کر پیچھے والوں کی جگہ چلے گئے اور پیچھے والے اب آگے بڑھ آئے اور ان اگلوں کی جگہ کھڑے ہوگئے انہیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھائیں پھر اسلام پھیر دیا پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعت ہوئیں اور سب کی دو دو ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے نماز کی کمی کا اور ہتھیار لئے رہنے کا حکم نازل فرمایا ۔ مسند احمد میں ہے کہ جو شخص تلوار تانے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوا تھا یہ دشمن کے قبیلے میں سے تھا اس کا نام غورث بن حارث تھا جب آپ نے اللہ کا نام لیا تو اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی آپ نے تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس سے کہا اب تو بتا کہ تجھے کون بچائے گا تو وہ معافی مانگنے لگا کہ مجھ پر آپ رحم کیجئے آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کے ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہے؟ اس نے کہا یہ تو نہیں ہاں میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ سے لڑوں گا نہیں اور ان لوگوں کا ساتھ نہ دوں گا جو آپ سے برسر پیکار ہوں آپ نے اسے معافی دی ۔ جب یہ اپنے قبیلے والوں میں آیا تو کہنے لگا روئے زمین پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی شخص نہیں ۔ اور روایت میں ہے کہ یزید فقیر نے حضرت جابر سے پوچھا کہ سفر میں جو دو رکعت ہیں کیا یہ قصر کہلاتی ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ پوری نماز ہے قصر تو بوقت جہاد ایک رکعت ہے پھر صلوۃ خوف کا اسی طرح ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ کے سلام کے ساتھ آپ کے پیچھے والوں نے اور ان لوگوں نے سلام پھیرا اور اس میں دونوں حصہ فوج کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھنے کا بیان ہے پس سب کی ایک ایک رکعت ہے پھر صلوۃ خوف کا اسی طرح ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ کے سلام کے ساتھ آپ کے پیچھے والوں نے ان لوگوں نے سلام پھیرا اور اس میں دونوں حصہ فوج کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھنے کا بیان ہے پس سب کی ایک ایک رکعت ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں ۔ اور روایت میں ہے کہ ایک جماعت آپ کے پیچھے صف بستہ نماز میں تھی اور ایک جماعت دشمن کے مقابل تھی پھر ایک رکعت کے بعد آپ کے پیچھے والے اگلوں کی جگہ آگئے اور پہ پیچھے آگئے ۔ یہ حدیث بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ حضرت جابر سے مروی ہے ۔ ایک اور حدیث جو بروایت سالم عن ابیہ مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ پھر کھڑے ہو کر صحابہ نے ایک ایک رکعت اپنی اپنی ادا کر لی ۔ اس حدیث کی بھی بہت سی سندیں اور بہت سے الفاظ ہیں حافظ ابو بکر بن مردویہ نے ان سب کو جمع کر دیا ، اور اسی طرح ابن جریر نے بھی ، ہم اسے کتاب احکام کبیر میں لکھنا چاہتے ہیں انشاء اللہ ۔ خوف کی نماز میں ہتھیار لئے رہنے کا حکم بعض کے نزدیک توبطور وجوب کے ہے کیونکہ آیت کے ظاہری الفاظ ہیں امام شافعی کا بھی یہی قول ہے اور اسی کی تائید اس آیت کے پچھلے فقرے سے بھی ہوتی ہے کہ بارش یا بیماری کی وجہ سے ہتھیار اتار رکھنے میں تم پر گناہ نہیں اپنا بچاؤ ساتھ لئے رہو ، یعنی ایسے تیار رہو کہ وقت آتے ہی بےتکلف وبے تکلیف ہتھیار سے آراستہ ہو جاؤ ۔ اللہ نے کافروں کے لئے اہانت والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔