Surah

Information

Surah # 85 | Verses: 22 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 27 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
وَّهُمۡ عَلٰى مَا يَفۡعَلُوۡنَ بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ شُهُوۡدٌ ؕ‏ ﴿7﴾
اور مسلمانوں کے ساتھ جو کر رہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے ۔
و هم على ما يفعلون بالمؤمنين شهود
And they, to what they were doing against the believers, were witnesses.
Aur musalmano kay sath jo ker rahy thy us ko apney samney dekh rahy thy
اور وہ ایمان والوں کے ساتھ جو کچھ کر رہے تھے ، اس کا نظارہ کرتے جاتے تھے ۔
( ف۷ ) اور وه خد گواه ہیں جو کہ مسلمانوں کے ساتھ کر رہے تھے ( ف۸ )
اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے اسے دیکھ رہے4 تھے ۔
اور وہ خود گواہ ہیں جو کچھ وہ اہلِ ایمان کے ساتھ کر رہے تھے ( یعنی انہیں آگ میں پھینک پھینک کر جلا رہے تھے )
سورة الْبُرُوْج حاشیہ نمبر :4 گڑھے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بڑے بڑے گڑھوں میں آگ بھڑکا کر ایمان لانے والے لوگوں کو ان میں پھینکا اور اپنی آنکھوں سے ان کے جلنے کا تماشا دیکھا تھا ۔ مارے گئے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر خدا کی لعنت پڑی اور وہ عذاب الہی کے مستحق ہو گئے ۔ اور اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ۔ ایک برجوں والے آسمان کی ۔ دوسرے روز قیامت کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ تیسرے قیامت کے ہولناک مناظر کی اور اس ساری مخلوق کی جو ان مناظر کو دیکھے گی ۔ پہلی چیز اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو قادر مطلق ہستی کائنات کے عظیم الشان ستاروں اور سیاروں پر حکمرانی کر رہی ہے اس کی گرفت سے یہ حقیر و ذلیل انسان کہاں بچ کر جا سکتے ہیں ۔ دوسری چیز کی قسم اس بنا پر کھائی گئی ہے کہ دنیا میں ان لوگوں نے جو ظلم کرنا چاہا کر لیا ، مگر وہ دن بہر حال آنے والا ہے جس سے انسانوں کو خبردار کیا جا چکا ہے کہ اس میں ہر مظلوم کی داد رسی اور ہر ظالم کی پکڑ ہو گی ۔ تیسری چیز کی قسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ جس طرح ان ظالموں نے ان بے بس اہل ایمان کے جلنے کا تماشا دیکھا اسی طرح قیامت کے روز ساری خلق دیکھے گی کہ ان کی خبر کس طرح لی جاتی ہے ۔ گڑھوں میں آگ جلا کر ایمان والوں کو ان میں پھینکنے کے متعدد واقعات روایات میں بیان ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کئی مرتبہ اس طرح کے مظالم کیے گئے ہیں ۔ ان میں سے ایک واقعہ حضرت صہیب رومی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک ساحر تھا ۔ اس نے اپنے بڑھاپے میں بادشاہ سے کہا کوئی لڑکا ایسا مامور کر دے جو مجھ سے یہ سحر سیکھ لے ۔ بادشاہ نے ایک لڑکے کو مقرر کر دیا ۔ مگر وہ لڑکا ساحر کے پاس آتے جاتے ایک راہب سے بھی ( جو غالباً ) پیروان مسیح علیہ السلام میں سے تھا ) ملنے لگا اور اس کی باتوں سے متاثر ہو کر ایمان لے آیاحتی کہ اس کی تربیت سے صاحب کرامت ہو گیا اور اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے لگا ۔ بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ لڑکا توحید پر ایمان لے آیا ہے تو اس نے پہلے تو راہب کو قتل کیا ، پھر اس لڑکے کو قتل کرنا چاہا ، مگر کوئی ہتھیار اور کوئی حربہ اس پر کارگر نہ ہوا ۔ آخر کار لڑکے نے کہا کہ اگر تو مجھے قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو مجمع عام میں باسم رب الغلام ( اس لڑکے کے رب کے نام پر ) کہہ کر مجھے تیر مار میں مر جا ؤں گا ۔ چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا مر گیا ۔ اس پر لوگ پکار اٹھے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے ۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے اس سے کہا کہ یہ تو وہی کچھ ہو گیا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے ۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑ کر اس لڑکے کے دین کو مان گئے ۔ بادشاہ یہ حالت دیکھ کر غصے میں بھر گیا ۔ اس نے سڑک کے کنارے گڑھے کھدوائے ، ان میں آگ بھروائی اور جس جس نے ایمان سے پھرنا قبول نہ کیا اس کو آگ میں پھکوا دیا ( احمد ، مسلم ، نسائی ، ترمذی ، ابن جریر ، عبدالرزاق ، ابن ابی شیبہ ، طبرانی ، عبد بن حمید ) ۔ دوسرا واقعہ حضرت علیؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایران کے ایک بادشاہ نے شراب پی کر اپنی بہن سے زنا کا ارتکاب کیا اور دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات استوار ہو گئے ۔ بات کھلی تو بادشادہ نے لوگوں میں اعلان کرایا کہ خدا نے بہن سے نکاح حلال کر دیا ہے لوگوں نے اسے قبول نہ کیا تو اس نے طرح طرح کے عذاب دے کر عوام کو یہ بات ماننے پر مجبور کیا یہاں تک وہ آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ہر اس شخص کو پھکواتا چلا گیا جس نے اسے ماننے سے انکار کیا ۔ حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ اسی وقت سے مجوسیوں میں محرمات سے نکاح کا طریقہ رائج ہوا ہے ۔ ( ابن جریر ) ۔ تیسرا واقعہ ابن عباسؓ نے غالباً اسرائیلی روایات سے نقل کیا ہے کہ بابل والوں نے بنی اسرائیل کو دین موسی علیہ السلام سے پھر جانے پر مجبور کیا تھا یہاں تک کہ انہوں نے آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ان لوگوں کو پھینک دیا جو اس سے انکار کرتھے ( ابن جریر ، عبد بن حمید ) ۔ سب سے مشہور واقعہ نجران کا ہے ۔ جسے ابن ہشام ، طبری ، ابن خلدون اور صاحب معجم البلدان وغیرہ اسلامی مورخین نے بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حمیر ( یمن ) کا بادشاہ تبان اسعد ابو کرب ایک مرتبہ یثرب گیا جہاں یہودیوں سے متاثر ہو کر اس نے دین یہود قبول کر لیا اور بنی قریظہ کے دو یہودی عالموں کو اپنے ساتھ یمن لے گیا ۔ وہاں اس نے بڑے پیمانے پر یہودیت کی اشاعت کی ۔ اس کا بیٹا ذونواس اس کا جانشین ہوا اور اس نے نجران پر ، جو جنوبی عرب میں عیساٍئیوں کا گڑھ تھا ، حملہ کیا تاکہ وہاں سے عیسائیت کا خاتمہ کر دے اور اس کے باشندوں کو یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کرے ۔ ( ابن ہشام کہتا ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسی کے اصل دین پر قائم تھے ) ۔ نجران پہنچ کر اس نے لوگوں کو دین یہود قبول کرنے کی دعوت دی مگر انہوں نے انکار کیا ۔ اس پر اس نے بکثرت لوگوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک کر جلوا دیا اور بہت سوں کو قتل کر دیا ، یہاں تک کہ مجموعی طور پر 20 ہزار آدمی مارے گئے ۔ اہل نجران میں سے ایک شخص دوس ذواثعلبان بھاگ نکلا اور ایک روایت کے رو سے اس نے قیصر روم کے پاس جا کر ، اور دوسری روایت کی رو سے حبش کے بادشاہ نجاشی کے ہاں جا کر اس ظلم کی شکایت کی ۔ پہلی روایت کی رو سے قیصر نے حبش کے بادشادہ کو لکھا اور دوسری روایت کی رو سے نجاشی نے قیصر سے بحری بیڑہ فراہم کرنے کی درخواست کی ۔ بہرحال آخر کار حبش کی 70 ہزار فوج اریاط نامی ایک جنرل کی قیادت میں یمن پر حملہ آور ہوئی ، دوانوس مارا گیا ، یہودی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور یمن حبش کی عیسائی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا ۔ اسلامی مورخین کے بیانات کی نہ صرف تصدیق دوسرے تاریخی ذرائع سے ہوتی ہے بلکہ ان سے بہت سی مزید تفصیلات کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ یمن پر سب سے پہلے عیسائی حبشیوں کا قبضہ 340؁ء میں ہوا تھا اور 378؁ء تک جاری رہا تھا ۔ اس زمانے میں عیسائی مشنری یمن میں داخل ہونے شروع ہوئے ۔ اسی کے قریب دور میں ایک زاہد و مجاہد اور صاحب کشفِ و کرامت عیسائی سیاح فیمیون ( Paymiyun ) نامی نجران پہنچا اور اس نے وہاں کے لوگوں کو بت پرستی کی برائی سمجھائی اور اس کی تبلیغ سے اہل نجران عیسائی ہو گئے ۔ ان لوگوں کا نظام تین سردار چلاتے تھے ۔ ایک سید ، جو قبائلی شیوخ کی طرح بڑا سردار اور خارج معاملات ، معاہدات اور فوجوں کی قیادت کا ذمہ دار تھا ۔ دوسرا عاقب ، جو داخلی معاملات کا نگراں تھا ۔ اور تیسرا اسقف ( بشپ ) جو مذہبی پیشوا ہوتا تھا ۔ جنوبی عرب میں نجران کو بڑی اہمیت حاصل تھی ۔ یہ ایک بڑا تجارتی اور صنعتی مرکز تھا ۔ ئسر ، چمڑے اور اسلحہ کی صنعتیں یہاں چل رہی تھیں ۔ مشہور حلئہ یمانی بھی یہیں تیار ہوتا تھا ۔ اسی بنا پر محض مذہبی وجوہ ہی سے نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی وجوہ سے بھی ذونواس نے اس اہم مقام پر حملہ کیا ۔ نجران کے سید حارثہ کو جسے سریانی مورخین Arethas لکھتے ہیں ، قتل کیا ، اس کی بیوی رومہ کے سامنے اس کی دو بیٹیوں کو مار ڈالا اور اسے ان کا خون پینے پر مجبور کیا ، پھر اسے بھی قتل کر دیا ۔ اسقف پال ( Paul ) کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلا دیں ۔ اور آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں عورت ، مرد ، بچے ، بوڑھے ، پادری ، راہب سب کو پھکوا دیا ۔ مجموعی طور پر 20 سے چالیس ہزار تک مقتولین کی تعداد بیان کی جاتی ہے ۔ یہ واقعہ اکتوبر 523 ؁ء میں پیش آیا تھا ۔ آخر 525 ؁ء میں حبشیوں نے یمن پر حملہ کر کے ذونواس اور اس کی حمیری سلطنت کا خاتمہ کر دیا ۔ اس کی تصدیق حصن غراب کے کتبے سے ہوتی ہے جو یمن میں موجودہ زمانہ کے محققین آثارِ قدیمہ کو ملا ہے ۔ چھٹی صدی عیسوی کی متعدد عیسائی تحریرات میں اصحاب الاخدود کے اس واقعہ کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں جن میں سے بعض عین زمانہ حادثہ کی لکھی ہوئی ہیں اور عینی شاہدوں سے سن کر لکھی گئی ہیں ۔ ان میں سے تین کتابوں کے مصنف اس واقعہ کے ہم عصر ہیں ۔ ایک پروکوپیوس ۔ دوسرا کوسماس انڈیکو پلیوسٹس ( Cosmos Indicopleustis ) جو نجاشی ایلیسبو عان ( Elesboan ) کے حکم سے اس زمانے میں بطلیموس کی یونانی کتابوں کا ترجمہ کر رہا تھا اور حبش کے ساحلی شہر ادولیس ( Adolis ) میں مقیم تھا ۔ تیسرا یوحنس ملا لا ( Johannes Malala ) جس بعد کے متعدد مورخین نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے ۔ اس کے بعد یوحنس افسوسی ( Johannes of Ephesus ) متوفی 585ء نے اپنی تاریخ کنیسہ میں نصاری نجران کی تعذیب کا قصہ اس واقعہ کے معاصر واری اسقف مارشمعون ( Simeon ) کے ایک خط سے نقل کیا ہے جو اس نے دیر جبلہ کے ریئس ( Abbot von Gabula ) کے نام لکھا تھا اور مارشمعون نے اپنے خط میں یہ واقعہ ان اہل یمن کے آنکھوں دیکھے بیان سے روایت کیا ہے جو اس موقع پر موجود تھے ۔ یہ خط 1881ء میں روم سے اور 1890ء میں شہدائے مسیحیت کے حالات کے سلسلے میں شائع ہوا ہے ۔ یعقوبی بطریق ڈایو نیسیلوس ( Patriarch Dionysius ) کے اور زکریا مدللی ( Zacharia of Mitylene ) نے اپنی سریانی تاریخوں میں بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے ۔ یعقوب سروجی کی کتاب درباب نصاری نجران میں بھی یہ ذکر موجود ہے ۔ الرھا ( Edessa ) کے اسقف پولس ( Pulus ) نے نجران کے ہلاک شدگان کا مرثیہ لکھا جو اب بھی دستیاب ہے ۔ سریانی زبان کی تصنیف الحمیریین کا انگریزی ترجمہ ( Book of the Himyarites ) 1924ء میں لندن شائع ہوا ہے اور وہ مسلمان مورخین کے بیان کی تصدیقکرتا ہے ۔ برٹش میوزیم میں اس عہد اور اس سے قریبی عہد کے کچھ حبشی مخطوطات بھی موجود ہیں جو اس قصے کی تائید کرتے ہیں ۔ فلبی نے اپنے سفر نامے ( Highlands Arabian ) میں لکھا ہے کہ نجران کے لوگوں میں اب تک وہ جگہ معروف ہے جہاں اصحاب الاخدود کا واقعہ پیش آیا تھا ام خرق کے پاس ایک جگہ چٹانوں میں کھدی ہوئی کچھ تصویریں بھی پائی جاتی ہیں ۔ اور کعبہ نجران جس جگہ واقع تھا اس کو بھی آج کل کے اہل نجران جانتے ہیں ۔ حبشی عیسائیوں نے نجران پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کعبہ کی شکل کی ایک عمارت بنائی تھی جسے وہ مکہ کے کعبہ کی جگہ مرکزی حیثیت دینا چاہتے تھے ۔ اس کے اساقفہ عمامے باندھتے تھے اور اس کو حرم قرار دیا گیا تھا رومی سلطنت بھی اس کعبہ کے لیے مالی اعانت بھیجتی تھی ۔ اسی کعبہ نجران کے پادری اپنے سید اور عاقب اور اسقف کی قیادت میں مناظرے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور مباہلہ کا وہ مشہور واقعہ پیش آیا تھا جس کا ذکر سورہ آل عمران آیت 61 میں کیا گیا ہے ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران حاشیہ 29 و حاشیہ 55 ) ۔