Surah

Information

Surah # 89 | Verses: 30 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 10 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
هَلۡ فِىۡ ذٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِىۡ حِجۡرٍؕ‏ ﴿5﴾
کیا ان میں عقلمند کے واسطے کافی قسم ہے؟
هل في ذلك قسم لذي حجر
Is there [not] in [all] that an oath [sufficient] for one of perception?
Kiya inmein aqalmand kay wasty kafi qisam hay?
ایک عقل والے ( کو یقین دلانے ) کے لیے یہ قسمیں کافی ہیں کہ نہیں؟
( ۵ ) کیوں اس میں عقلمند کے لیے قسم ہوئی ( ف٦ )
کیا اس میں کسی صاحب عقل کے لیے کوئی قسم ہے1؟
بیشک ان میں عقل مند کے لئے بڑی قسم ہے
سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :1 ان آیات کی تفسرین میں مفسرین کے درمیان بہت اختلافات ہوا ہے حتی کہ جفت اور طاق کے بارے میں تو 36 اقوال ملتے ہیں ۔ بعض روایات میں ان کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی منسوب کی گئی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی تفسیر حضور سے ثابت نہیں ہے ، ورنہ ممکن نہ تھا کہ صحابہ اور تابعین اور بعد کے مفسرین میں سے کوئی بھی آپ کی تفسیر کے بعد خود ان آیات کے معنی متعین کرنے کی جرات کرتا ۔ انداز بیان پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ پہلے سے کوئی بحث چل رہی تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بات پیش فرما رہے تھے اور منکرین اس کا انکار کر رہے تھے ۔ اس پر حضور کے قول کا اثبات کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ قسم ہے فلاں اور فلاں چیزوں کی ۔ مطلب یہ تھا کہ ان چیزوں کی قسم ، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں وہ بر حق ہے ۔ پھر بات کو اس سوال پر ختم کر دیا گیا کہ کیا کسی صاحب عقل کے لیے اس میں کوئی قسم ہے؟ یعنی کیا اس حق بات پر شہادت دینے کے لیے اس کے بعد کسی اور قسم کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ کیا یہ قسم اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ ایک ہوشمند انسان اس بات کو مان لے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں؟ اب سوال یہ ہے کہ وہ بحث تھی کیا جس پر ان چار چیزوں کی قسم کھائی گئی ۔ اس کے لیے ہمیں اس پورے مضمون پر غور کرنا ہو گا جو بعد کی آیتوں میں تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے عاد کے ساتھ کیا کیا سے شروع ہو کر سورہ کے آخر تک چلتا ہے ۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ بحث جزا و سزا کے بارے میں تھی جس کو ماننے سے اہل مکہ انکار کر رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس کا قائل کرنے کے لیے مسلسل تبلیغ و تلقین فرما رہے تھے ۔ اس پر فجر ، اور دس راتوں اور جفت اور طاق ، اور رخصت ہوتی ہوئی رات کی قسم کھا کر فرمایا گیا کہ اس بات کو باور کرنے کے لیے کیا یہ چیزیں کافی نہیں ہیں کہ کسی صاحب عقل آدمی کے سامنے اور کوئی چیز پیش کرنے کی ضرورت ہو؟ ان قسموں کا یہ موقع و محل متعین ہو جانے کے بعد لا محالہ ہمیں ان میں سے ہر ایک کے وہ معنی لینے ہوں گے جو بعد کے مضمون پر دلالت کرتے ہوں ۔ سب سے پہلے فرمایا فجر کی قسم فجر پو پھٹنے کو کہتے ہیں ، یعنی وہ وقت جب رات کی تاریکی میں سے دن کی ابتدائی روشنی مشرق کی طرف ایک سفید دھاری کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ۔ پھر فرمایا دس راتوں کی قسم ۔ سلسلہ بیان کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مہینے کی تیس راتوں میں سے ہر دس راتیں ہیں ۔ پہلی دس راتیں وہ جن میں چاند ایک باریک ناخن کی شکل سے شروع ہو کر ہر رات کو بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ آدھے سے زیادہ روشن ہو جاتا ہے ۔ دوسری دس راتیں وہ جن میں رات کا بڑا حصہ چاند سے روشن رہتا ہے ۔ آخری دس راتیں وہ جن میں چاند چھوٹے سے چھوٹا اور رات کا بیشتر حصہ تاریک سے تاریک تر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ مہینے کے خاتمے پر پوری رات تاریک ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد فرمایا جفت اور طاق کی قسم ۔ جفت اس عدد کو کہتے ہیں جو دو برابر کے حصوں میں تقسیم ہو تا ہے ، جیسے 2 ۔ 4 ۔ 6 ۔ 8 اور طاق اس عدد کو کہتے ہیں جو تقسیم نہیں ہو تا ، جیسے 1 ۔ 3 ۔ 5 ۔ 7 ۔ عمومی حیثیت سے دیکھا جائے تو اس سے مراد کائنات کی تمام چیزیں ہو سکتی ہیں ۔ کیونکہ ہر چیز یا تو جوڑا جوڑا ہے یا تنہا ۔ لیکن چونکہ یہاں بات دن اور رات کی ہو رہی ہے ، اس لیے سلسلہ مضمون کی مناسبت سے جفت اور طاقت کا مطلب تغیر ایام ہے کہ مہینے کی تاریخیں ایک سے دو اور دو سے تین ہوتی جاتی ہیں اور ہر تغیر ایک نئی کیفیت لے کر آتا ہے ۔ آخر میں فرمایا رات کی قسم جبکہ وہ رخصت ہو رہی ہو ۔ یعنی وہ تاریکی جو سورج غروب ہونے کے بعد سے دنیا پر چھائی ہوئی تھی ، خاتمے پر آ لگی ہو اور پو پھٹنے والی ہو ۔ اب ان چاروں چیزوں پر ایک مجموعی نگاہ ڈالیے جن کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جزا و سزا کی جو خبر دے رہے ہیں وہ برحق ہے ۔ یہ سب چیزیں اس حقیقت پر دلالت کر رہی ہیں کی ایک رب قدیر اس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے ، اور وہ جو کام بھی کر رہا ہے بے تکا ، بے مقصد ، بے حکمت ، بے مصلحت نہیں کر رہا ہے بلکہ اس کے ہر کام میں صریحاً ایک حکیمانہ منصوبہ کار فرما ہے ۔ اس کی دنیا میں تم یہ کبھی نہ دیکھو گے کہ ابھی رات ہے اور یکایک سورج نصف النہار پر آ کھڑا ہوا ۔ یا ایک روز چاند ہلال کی شکل میں طلوع ہوا اور دوسری روز چودھویں رات کا پورا چاند نمودار ہو جائے ۔ یا رات آئی ہو تو کسی طرح اس کے ختم ہونے کی نوبت ہی نہ آئے اور وہ مستقل طور پر ٹھیر کر رہ جائے ۔ یا تغیر ایام کا سرے سے کوئی باقاعدہ سلسلہ ہی نہ ہو کہ آدمی تاریخوں کا کوئی حساب رکھ سکے اور یہ جان سکے کہ یہ کونسا مہینہ ہے ، اس کی کونسی تاریخ ہے ، کس تاریخ سے اس کا کونسا کام شروع اور کب ختم ہونا ہے ، گرمی کے موسم کی تاریخیں کونسی ہیں اور برسات یا سردی کے موسم کی تاریخیں کونسی ۔ کائنات کی دوسری بے شمار چیزوں کو چھوڑ کر اگر آدمی شب و روز کی اس باقاعدگی ہی کو آنکھیں کھول کر دیکھے اور کچھ دماغ کو سوچنے کی تکلیف بھی دے تو اسے اس امر کی شہادت ملے گی کہ یہ زبردست نظم و ضبط کسی قادر مطلق کا قائم کیا ہوا ہے اور اس کے قیام سے اس مخلوق کی بے شمار مصلحتیں وابستہ ہیں جسے اس نے اس زمین پر پیدا کیا ہے ۔ اب اگر ایسے حکیم و دانا اور قادر و توانا خالق کی دنیا میں رہنے والا کوئی شخص آخرت کی جزا و سزا کا انکار کرتا ہے تو وہ دو حماقتوں میں سے کسی ایک حماقت میں لامحالہ مبتلا ہے ۔ یا تو وہ اس کی قدرت کا منکر ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کائنات کو ایسے بے نظیر نظم کے ساتھ پیدا کر دینے پر تو قادر ہے مگر انسان کو دوبارہ پیدا کر کے اسے جزا و سزا دینے پر قادر نہیں ہے ۔ یا وہ اس کی حکمت و دانائی کا منکر ہے اور اس کے بارے میں یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اس نے دنیا میں انسان کو عقل اور اختیارات دے کر پیدا تو کر دیا مگر وہ نہ تو اس سے کبھی یہ حساب لے گا کہ اس نے اپنی عقل اور اپنے اختیارات سے کام کیا لیا ، اور نہ اچھے کام کی جزا دے گا نہ برے کام کی سزا ۔ ان دونوں باتوں میں جس بات کا بھی کوئی شخص قائل ہے وہ پرلے درجے کا احمق ہے ۔