Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لَا خَيۡرَ فِىۡ كَثِيۡرٍ مِّنۡ نَّجۡوٰٮهُمۡ اِلَّا مَنۡ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوۡ مَعۡرُوۡفٍ اَوۡ اِصۡلَاحٍۢ بَيۡنَ النَّاسِ‌ ؕ وَمَن يَّفۡعَلۡ ذٰ لِكَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰهِ فَسَوۡفَ نُـؤۡتِيۡهِ اَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ﴿114﴾
ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں ہاں بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالٰی کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں گے
لا خير في كثير من نجوىهم الا من امر بصدقة او معروف او اصلاح بين الناس و من يفعل ذلك ابتغاء مرضات الله فسوف نؤتيه اجرا عظيما
No good is there in much of their private conversation, except for those who enjoin charity or that which is right or conciliation between people. And whoever does that seeking means to the approval of Allah - then We are going to give him a great reward.
Inn kay aksay khufia mashwaron mein koi khair nahi haan! Bhalaee uss kay mashwaray mein hai jo kheyraat kay ya nek baat ka ya logon mein sulah keraney ka hukum keray aur jo shaks sirf Allah Taalaa ki raza mandi hasil kerney kay iraday say yeh kaam keray ussay hum yaqeenan boht bara sawab den gay.
لوگوں کی بہت سی خفیہ سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں ہوتی ، الا یہ کہ کوئی شخص صدقے کا یا کسی نیکی کا یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے ۔ اور جو شخص اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایسا کرے گا ، ہم اس کو زبردست ثواب عطا کریں گے ۔
ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں ( ف۳۰۳ ) مگر جو حکم دے خیرات یا اچھی بات یا لوگوں میں صلح کرنے کا اور جو اللہ کی رضا چاہنے کو ایسا کرے اسے عنقریب ہم بڑا ثواب دیں گے ،
لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی ۔ ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے ، اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے ۔
ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں سوائے اس شخص ( کے مشورے ) کے جو کسی خیرات کا یا نیک کام کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم دیتا ہے اور جو کوئی یہ کام اللہ کی رضا جوئی کے لئے کرے تو ہم اس کو عنقریب عظیم اجر عطا کریں گے
اچھے کاموں کی دعوت اور برے کاموں سے روکنے کے علاوہ تمام باتیں قابل مواخذہ ہیں لوگوں کے اکثر کلام بےمعنی ہوتے ہیں سوائے ان کے جن کی باتوں کا مقصد دوسروں کی بھلائی اور لوگوں میں میل ملاپ کرانا ہو ، حضرت سفیان ثوری کی عیادت کے لئے لوگ جاتے ہیں ان میں سعید بن حسان بھی ہیں تو آپ فرماتے ہیں سعید تم نے ام صالح کی روایت سے جو حدیث بیان کی تھی آج اسے پھر سناؤ ، آپ سند بیان کرکے فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کی تمام باتیں قابل مواخذہ ہیں بجز اللہ کے ذکر اور اچھے کاموں کے بتانے اور برے کاموں سے روکنے کے ، حضرت سفیان نے کہا یہی مضمون اس آیت میں ہے ، یہی مضمون آیت ( يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا ٷ لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ) 78 ۔ النبأ:38 ) میں ہے یہی مضمون سورہ والعصر میں ہے مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ لوگوں کی آپس میں محبت بڑھانے اور صلح صفائی کے لئے جو بھی بات کہے اِدھر اُدھر سے کہے یا قسم اٹھائے وہ جھوٹوں میں داخل نہیں ، حضرت ام کلثوم بنت عقبہ فرماتی ہیں میں نے آپ کو اِدھر کی بات اُدھر کہنے کی تین صورتوں میں اجازت دیتے ہوئے سنا ہے جہاد کی ترغیب میں ، لوگوں میں صلح کرانے اور میاں بیوی کو ملانے کی صورت میں یہ ہجرت کرنے والیوں اور بیعت کرنے والیوں میں سے ہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل بتاؤں؟ جو روزہ نماز اور صدقہ سے بھی افضل ہے لوگوں نے خواہش کی تو آپ نے فرمایا وہ آپس میں اصلاح کرانا ہے فرماتے ہیں اور آپس کا فساد نیکیوں کو ختم کر دیتا ہے ( ابوداؤد وغیرہ ) بزار میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ایوب سے فرمایا آ میں تجھے ایک تجارت بتاؤں لوگ جب لڑ جھگڑ رہے ہوں تو ان میں مصالحت کرا دے جب ایک دوسرے سے رنجیدہ ہوں تو انہیں ملا دے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی بھلی باتیں رب کی رضامندی خلوص اور نیک نیتی سے جو کرے وہ اجر عظیم پائے گا ۔ جو شخص غیر شرعی طریق پر چلے یعنی شرع ایک طرف ہو اور اس کی راہ ایک طرف ہو ۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ہو اور اس کا مقصد عمل اور ہو ۔ حالانکہ اس پر حق واضح ہو چکا ہو دلیل دیکھ چکا ہو پھر بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرکے مسلمانوں کی صاف راہ سے ہٹ جائے تو ہم بھی اسے ٹیڑھی اور بری راہ پر ہی لگا دیتے ہیں اسے وہی غلط راہ اچھی اور بھلی معلوم ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ بیچوں بیچ جہنم میں جا پہنچتا ہے ۔ مومنوں کی راہ کے علاوہ راہ اختیار کرنا دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور دشمنی کے مترادف ہے جو کبھی تو شارع علیہ السلام کی صاف بات کے خلاف اور کبھی اس چیز کے خلاف ہوتا ہے جس پر ساری امت محمدیہ متفق ہے جس میں انہیں اللہ نے بوجہ ان کی شرافت وکرامت کے محفوظ کر رکھا ہے ۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں بھی ہیں اور ہم نے بھی احادیث اصول میں ان کا بڑا حصہ بیان کر دیا ہے ، بعض علماء تو اس کے تواتر معنی کے قائل ہیں ، حضرت امام شافعی غورو فکر کے بعد اس آیت سے امت کے اتفاق کی دلیل ہونے پر استدلال کیا ہے حقیقتاً یہی موقف بہترین اور قوی تر ہے ، بعض دیگر ائمہ نے اس دلالت کو مشکل اور دور از آیت بھی بتایا ہے ، غرض ایسا کرنے والے کی رسی اللہ میاں بھی ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے ( آیت سنستدر جھم اور فلمازاغوا اور نذرھم ) یعنی ہم ان کی بےخبری میں آہستہ آہستہ مہلت بڑھاتے رہتے ہیں ، ان کے بہکتے ہی ہم بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیتے ہیں ، ہم انہیں ان کی سرکشی میں گم چھوڑ دیتے ہیں ، بالآخر ان کی جائے بازگشت جہنم بن جاتی ہے جیسے فرمان ہے ظالموں کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ قبروں سے اٹھائیں گے ، اور جیسے فرمایا ظالم آگ کو دیکھ کر جان لے گا کہ اس میں کودنا پڑے گا لیکن کوئی صورت چھٹکارے کی نہ پائے گا ۔