سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :1
اس سے پہلے ہم سورہ قیامہ میں حاشیہ نمبر 1 میں اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ کلام کا آغاز نہیں سے کرنا اور پھر قسم کھا کر آگے بات شروع کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ لوگ کوئی غلط بات کہہ رہے تھے جس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ نہیں ، بات وہ نہیں ہے جو تم سمجھے بیٹھے ہو ، بلکہ میں فلاں فلاں چیزوں کی قسم کھاتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے ۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ بات کیا تھی جس کی تردید میں یہ کلام نازل ہوا ، تو اس پر بعد کا مضمون خود دلالت کر رہا ہے ۔ کفار مکہ یہ کہتے تھے کہ ہم جس طرز زندگی پر چل رہے ہیں اس میں کوئی خرابی نہیں ہے ، دنیا کی زندگی بس یہی کچھ ہے کہ کھاؤ پیو ، مزے اڑاؤ ، اور جب وقت آئے تو مر جاؤ ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خواہ مخواہ ہمارے اس طرز زندگی کو غلط ٹھیرا رہے ہیں اور ہمیں ڈرا رہے ہیں کہ اس پر کبھی ہم سے باز پرس ہو گی اور ہمیں جزا و سزا سے سابقہ پیش آئے گا ۔
سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :2
یعنی شہر مکہ کی ۔ اس مقام پر یہ بات کھولنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس شہر کی قسم کیوں کھائی جا رہی ہے ۔ اہل مکہ اپنے شہر کا پس منظر خود جانتے تھے کہ کس طرح ایک بے آب و گیاہ وادی میں سنسان پہاڑوں کے درمیان حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی اور ایک شیر خوار بچے کو یہاں لا کر بے سہارا چھوڑا ، کس طرح یہاں ایک گھر بنا کر ایسی حالت میں حج کی منادی کی جب کہ دور دور تک کوئی اس منادی کا سننے والا نہ تھا ، اور پھر کس طرح یہ شہر آخر کار تمام عرب کا مرکز بنا اور ایسا حرم قرار پایا کہ صدہا برس تک عرب کی سرزمین بے آئین میں اس کے سوا امن کا کوئی مقام نہ تھا ۔