Surah

Information

Surah # 91 | Verses: 15 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 26 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
كَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ بِطَغۡوٰٮهَآ  ۙ‏ ﴿11﴾
۔ ( قوم ) ثمود نے اپنی سرکشی کی باعث جھٹلایا ۔
كذبت ثمود بطغوىها
Thamud denied [their prophet] by reason of their transgression,
( Qom ) samood nay apni sarkashi kay baees jhutlaya
قوم ثمود نے اپنی سرکشی سے ( پیغمبر کو ) جھٹلایا ۔
( ۱۱ ) ثمود نے اپنی سرکشی سے جھٹلایا ( ف۹ )
ثمود 7 نے اپنی سرکشی کی بنا پر جھٹلایا8 ۔
ثمود نے اپنی سرکشی کے باعث ( اپنے پیغمبر صالح علیہ السلام کو ) جھٹلایا
سورة الشَّمْس حاشیہ نمبر :7 اوپر آیات میں جن باتوں کو اصولاً بیان کیا گیا ہے اب انہی کی وضاحت ایک تاریخی نظیر سے کی جا رہی ہے ۔ یہ کس بات کی نظیر ہے اور اوپر کے بیان سے اس کا کیا تعلق ہے ، اس کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے دوسرے بیانات کی روشنی میں ان دو بنیادی حقیقتوں پر اچھی طرح غور کرنا چاہیے جو آیات 7 تا 10 میں بیان کی گئی ہیں ۔ اولاً ان میں فرمایا گیا ہے کہ نفس انسانی کو ایک ہموار و مستقیم فطرت پر پیدا کر کے اللہ تعالی نے اس کا فجور اور اس کا تقوی اس پر الہام کر دیا ۔ قرآن اس حقیقت کو بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ فجور و تقوی کا یہ الہامی علم اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ ہر شخص خود اس سے تفصیلی ہدایت حاصل کر لے ۔ بلکہ اس غرض کے لیے اللہ تعالی نے وحی کے ذریعہ سے انبیاء علیہم السلام کو مفصل ہدایت دی جس میں وضاحت کے ساتھ یہ بتا دیا گیا کہ فجور کا اطلاق کن کن چیزوں پر ہوتا ہے جن سے بچنا چاہیے اور تقوی کس چیز کا نام ہے اور وہ کیسے حاصل ہوتا ہے ۔ اگر انسان وحی کے ذریعہ سے آنے والی اس واضح ہدایت کو قبول نہ کرے تو وہ نہ فجور سے بچ سکتا ہے نہ تقوی کا راستہ پا سکتا ہے ۔ ثایناً ان آیات میں فرمایا گیا ہے کہ جزا اور سزا وہ لازمی نتائج ہیں جو فجور اور تقوی میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے پر مترتب ہوتے ہیں ۔ نفس کو فجور سے پاک کرنے اور تقوی سے ترقی دینے کا نتیجہ فلاح ہے ، اور اس کے اچھے رجحانات کو دبا کر فجور میں غرق کر دینے کا نتیجہ نامرادی اور ہلاکت و بربادی ۔ اسی بات کو سمجھانے کے لیے ایک تا ریخی نظیر پیش کی جا رہی ہے اور اس کے لیے ثمود کی قوم کو بطور نمونہ لیا گیا ہے ، کیونکہ پچھلی تباہ شدہ قوموں میں سے جس قوم کا علاقہ اہل مکہ سے قریب ترین تھا وہ یہی تھی ۔ شمالی حجاز میں اس کے تاریخی آثار موجود تھے جن سے اہل مکہ شام کی طرف اپنے تجارتی سفروں میں ہمیشہ گزرتے رہتے تھے ، اور جاہلیت کے اشعار میں جس طرح اس قوم کا ذکر کثرت سے آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب میں اس کی تباہی کا چرچا عام تھا ۔ سورة الشَّمْس حاشیہ نمبر :8 یعنی حضرت صالح علیہ السلام کی نبوت کو جھٹلا دیا جو ان کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے اور اس جھٹلانے کی وجہ ان کی یہ سرکشی تھی کہ وہ اس فجور کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے جس میں وہ مبتلا ہو چکے تھے اور اس تقوی کو قبول کرنا انہیں گوارا نہ تھا جس کی طرف حضرت صالح انہیں دعوت دے رہے تھے ۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الااعراف ، آیات 73 تا 76 ۔ ہود ، آیات 61 ۔ 62 ۔ الشعراء ، آیات 141 تا 153 ۔ النمل ، آیات 45 تا 49 ۔ القمر ، آیات 23 تا 25 ۔
آل ثمود کی تباہی کے اسباب: اللہ تعالیٰٰ بیان فرما رہا ہے کہ ثمودیوں نے اپنی سرکشی ، تکبر و تجبر کی بناء پر اپنے رسول کی تصدیق نہ کی ۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں بطغواھاکا مطلب یہ ہے کہ ان سب نے تکذیب کی لیکن پہلی بات ہی زیادہ اولیٰ ہے ، حضرت مجاہد اور حضرت قتادہ نے بھی یہی بیان کیا ہے ، اس سرکشی اور تکذیب کی شامت سے یہ اس قدر بدبخت ہوگئی کہ ان میں سے جو زیادہ بد شخص تھا وہ تیار ہو گیا اس کا نام قدار بن سالف تھا اسی نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں اسی کے بارے میں فرمان ہے فنادوا صاحبھم فتعاطی فعقرثمودیوں کی آوازپر یہ آگیا اور اس نے اونٹنی کو مار ڈالا ، یہ شخص اس قوم میں ذی عزت تھا شریف تھا ذی نسب تھا قوم کا رئیس اور سردار تھا ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے خطبے میں اس اونٹنی کا اور اس کے مار ڈالنے والے کا ذکر کیا اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جیسے ابو زمعہ تھا اسی جیسا یہ شخص بھی اپنی قوم میں شریف عزیز اور بڑا آدمی تھا ، امام بخاری بھیاسے تفسیر میں اور امام مسلم جہنم کی صفت میں لائے ہیں اور سنن ترمذی سنن نسائی میں بھی یہ روایت تفسیر میں ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ میں تجھے دنیا بھر کے بدبخت ترین دو شخص بتاتا ہوں ایک تو احیم ثمود جس نے اونٹنی کو مار ڈالا اور دوسرا وہ شخص جو تیری پیشانی پر زخم لگائے گا یہاں تک کہ داحی خون سے تربتر ہو جائے گی ، اللہ کے رسول حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اے قوم اللہ کی اونٹنی کو برائی پہنچانے سے ڈرو ، اس کے پانی پینے کے مقرر دن میں ظلم کرکے اسے پانی سے نہ روکو تمھاری اور اس کی باری مقرر ہے ۔ لیکن ان بدبختوں نے پیغمبر کی نہ مانی جس گناہ کے باعث ان کے دل سخت ہوگئے اور پھر یہ صاف طور پر مقابلہ کر لیے تیار ہوگئے اور اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ، جسے اللہ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پتھر کی ایک چٹان سے پیدا کیا تھا جو حضرت صالح کا معجزہ اور اللہ کی قدرت کی کامل نشانی تھی اللہ بھی ان پر غضبناک ہو گیا اور ہلاکت ڈال دی ۔ اور سب پر ابر سے عذاب اترا یہاس لیے کہ احیم ثمود کے ہاتھ پر اس کی قوم کے چھوٹے بڑوں نے مرد عورت نے بیعت کر لی تھی اور سب کے مشورے سے اس نے اس اونٹنی کو کاٹا تھا اس لیے عذاب میں بھی سب پکڑے گئے ولا یخاف کو فلا یخافبھی پڑھا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی سزا کرے تو اسے یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا ؟ کہیں یہ بگڑنہ بیٹھیں ، یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس بدکار ، احیم نے اونٹنی کو مار تو ڈالا لیکن انجام سے نہ ڈرا ، مگر پہلا قول ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم الحمد اللہ سورہ الشمس کی تفسیر ختم ہوئی ۔