Surah

Information

Surah # 93 | Verses: 11 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 11 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
نام : پہلے ہی لفظ والضحٰی کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ زمانۂ نزول : اس کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے ۔ روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مدت تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا تھا جس سے حضور سخت پریشان ہو گئے تھے اور بار بار آپ کو یہ اندیشہ لاحق ہو رہا تھا کہ کہیں مجھ سے کوئی ایسا قصور تو نہیں ہو گیا جس کی وجہ سے میرا رب مجھ سے ناراض ہوگیا ہے اور اس نے مجھے چھوڑ دیا ہے ۔ اس پر آپ کو اطمینان دلایا گیا کہ وحی کے نزول کا سلسلہ کسی ناراضی کی بنا پر نہیں روکا گیا تھا ، بلکہ اس میں وہی مصلحت کارفرما تھی جو روزِ روشن کے بعد رات کا سکون طاری کرنے میں کارفرما ہے ۔ یعنی وحی کی تیز روشنی اگر آپ پر برابر پڑتی رہتی تو آپ کے اعصاب اسے برداشت نہ کر سکتے ۔ اس لیے بیچ میں وقفہ دیا گیا تاکہ آپ کو سکون مل جائے ۔ یہ کیفیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت کے ابتدائی دور میں گزرتی تھی جبکہ ابھی آپ کو وحی کے نزول کی شدت برداشت کرنے کی عادت نہیں پڑی تھی ، اس بنا پر بیچ بیچ میں وقفہ دینا ضروری ہوتا تھا ۔ ( نزول وحی کا کس قدر شدید بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعصاب پر پڑتا تھا اس کے لیے دیکھیے مضمون سورۂ مدثر اور مطالعہ کیجیے سورۂ مزمل ) بعد میں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر اس بار کو برداشت کرنے کا تحمل پیدا ہو گیا تو طویل وقفے دینے کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔ موضوع اور مضمون : اس کا موضوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دینا ہے اور مقصد اس پریشانی کو دور کرنا ہے جو نزول وحی کا سلسلہ رک جانے سے آپ کو لاحق ہو گئی تھی ۔ سب سے پہلے روز روشن اور سکون شب کی قسم کھا کر آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپ کے رب نے آپ کو ہرگز نہیں چھوڑا ہے اور نہ وہ آپ سے ناراض ہوا ہے ۔ اس کے بعد آپ کو خوشخبری دی گئی ہے کہ دعوت اسلامی کے ابتدائی دور میں جن شدید مشکلات سے آپ کو سابقہ پیش آ رہا ہے یہ تھوڑے دنوں کی بات ہے ۔ آپ کے لیے ہر بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہوتا چلا جائے گا اور کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ اللہ تعالٰی آپ پر اپنی عطا و بخشش کی ایسی بارش کرے گا جس سے آپ خوش ہو جائیں گے ۔ یہ قرآن کی ان صریح پیشینگوئیوں میں سے ایک ہے جو بعد میں حرف بحرف پوری ہوئیں ، حالانکہ جس وقت یہ پیشینگوئی کی گئی تھی اس وقت کہیں دور دور بھی اس کے آثار نظر نہ آتے تھے کہ مکہ میں جو بے یار و مددگار انسان پوری قوم کی جاہلیت کے مقابلے میں برسر پیکار ہو گیا ہے اسے اتنی حیرت انگیز کامیابی نصیب ہوگی ۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا ہے کہ تمہیں یہ پریشانی کیسے لاحق ہو گئی کہ ہم نے تمہیں چھوڑ دیا ہے اور ہم تم سے ناراض ہو گئے ہیں ۔ ہم تو تمہارے روز پیدائش سے مسلسل تم پر مہربانیاں کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ تم یتیم پیدا ہوئے تھے ، ہم نے تمہاری پرورش اور خبر گیری کا بہترین انتظام کر دیا ۔ تم ناواقف راہ تھے ، ہم نے تمہیں راستہ بتایا ۔ تم نادار تھے ، ہم نے تمہیں مالدار بنایا ۔ یہ ساری باتیں صاف بتا رہی ہیں کہ تم ابتدا سے ہمارے منظور نظر ہو اور ہمارا فضل و کرم مستقل طور پر تمہارے شامل حال ہے ۔ اس مقام پر سورۂ طٰہٰ آیات 37 تا 42 کو بھی نگاہ میں رکھا جائے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے جبار کے مقابلہ میں بھیجتے وقت اللہ تعالٰی نے ان کی پریشانی دور کرنے کے لیے انہیں بتایا ہے کہ کس طرح تمہاری پیدائش کے وقت سے ہماری مہربانیاں تمہارے شامل حال رہی ہیں ، اس لیے تم اطمینان رکھو کہ اس خوفناک مہم میں تم اکیلے نہ ہو گے بلکہ ہمارا فضل تمہارے ساتھ ہوگا ۔ آخر میں اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا ہے کہ جو احسانات ہم نے تم پر کیے ہیں ان کے جواب میں خلق خدا کے ساتھ تمہارا برتاؤ کیا ہونا چاہیے ، اور ہماری نعمتوں کا شکر تمہیں کس طرح ادا کرنا چاہیے ۔
ہر سورت کے خاتمہ پر اللہ اکبر کہو: اسمٰعیل بن قسطنطین اور شبل بن عباد کے سامنے حضرت عکرمہ تلاوت قرآن کر رہے تھے جب اس سورت تک پہنچے تو دونوں نے فرمایا کہ اب سے آخر تک ہر سورت کے خاتمہ پر اللہ اکبر کہا کرو ۔ ہم نے ابن کثیر کے سامنے پڑھا تو انہوں نے ہمیں یہی فرمایا اور انہوں نے فرمایا کہ ہم سے مجاہد نے یہ فرمایا ہے اور مجاہد کو حضرت ابن عباس کی یہی تعلیم تھی اور ابن عباس کو حضرت ابی بن کعب نے یہی فرمایا تھا اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا ، امام القرأت حضرت ابو الحسن بھی اسی سنت کے روای ہیں ، حضرت ابو حاتم رازی اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں اس لیے کہ ابو الحسن ضعیف ہیں ابو حاتم تو ان سے حدیث ہی نہیں لیتے ، اسی طرح ابو جعفر عقیلی بھی انہیں منکر الحدیث کہتے ہیں لیکن شیخ شہاب الدین ابو شامہ شرح شاطبیہ میں حضرت امام شافعی سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک شخص سے سنا کہ وہ نماز میں اس تکبیر کو کہتے تھے تو آپ نے فرمایا تو نے اچھا کیا اور سنت کو پہنچ گیا ۔ یہ واقعہ تو اس بات کا مقتضی ہے کہ یہ حدیث صحیح ہو ، پھر قاریوں میں اس بات کا بھی اختلاف ہے کہ کس جگہ یہ تکبیر پڑھے اور کس طرح پڑھے ، بعض تو یہ کہتے ہیں واللیل اذا یغشیٰ کے خاتمہ سے اور کہتے ہیں والضحیٰ کے آخر میں ، پھر بعض تو کہتے ہیں صرف اللہ اکبر کہے بعض کہتے ہیں اللہ اکبر لا الہ اللّٰہ واللّٰہ اکبر کہے ، بعض قاریوں نے سورہ والضحیٰ سے ان تکبیروں کے کہنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ جب وحی آنے میں دیر لگی اور کچھ مدت حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نہ اتری پھر حضرت جبرائیل آئے اور یہی سورت لائے تو خوشی اور فرحت کے باعث آپ نے تکبیر کہی لیکن یہ کسی ایسی اسناد کے ساتھ مروی نہیں جس سے صحت و ضعف کا پتہ چل سکے ۔ واللہ اعلم ۔