Surah

Information

Surah # 94 | Verses: 8 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 12 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
وَرَفَعۡنَا لَـكَ ذِكۡرَكَؕ‏ ﴿4﴾
اورہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا ۔
و رفعنا لك ذكرك
And raised high for you your repute.
Aur hum nay tera zikar buland kerdiya
اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کردیا ہے ۔ ( ٢ )
( ٤ ) اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا ( ف٤ )
اور تمہاری خاطر تمہارے ذکر کا آوازہ بلند کر دیا3 ۔
اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر ( اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ ) بلند فرما دیا
سورة الْاِنْشِرَاح حاشیہ نمبر :3 یہ بات اس زمانہ میں فرمائی گئی تھی جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ جس فرد فرید کے ساتھ گنتی کے چند آدمی ہیں اور وہ بھی صرف شہر مکہ تک محدود ہیں اس کا آوازہ دنیا بھر میں کیسے بلند ہو گا اور کیسی ناموری اس کو حاصل ہو گی ۔ لیکن اللہ تعالی نے ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوشخبری سنائی اور پھر عجیب طریقہ سے اس کو پورا کیا ۔ سب سے پہلے آپ کے رفع ذکر کا کام اس نے خود آپ کے دشمنوں سے لیا ۔ کفار مکہ نے آپ کو زک دینے کے لیے جو طریقے اختیار کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ حج کے موقع پر جب تمام عرب سے لوگ کھچ کھچ کر ان کے شہر میں آتے تھے ، اس زمانہ میں کفار کے وفود حاجیوں کے ایک ایک ڈیرے پر جاتے اور لوگوں کو خبردار کرتے کہ یہاں ایک خطرناک شخص محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نامی ہے جو لوگوں پر ایسا جادو کرتا ہے کہ باپ بیٹے ، بھائی بھائی اور شوہر اور بیوی میں جدائی پڑ جاتی ہے ، اس لیے ذرا اس سے بچ کر رہنا ۔ یہی باتیں وہ ان سب لوگوں سے بھی کہتے تھے جو حج کے سوا دوسرے دنوں میں زیادرت ، یا کسی کاروبار کے سلسلے میں مکہ آتے تھے ۔ اس طرح اگرچہ وہ حضور کو بدنام کر رہے تھے ، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کے گوشے گوشے میں آپ کا نام پہنچ گیا اور مکہ کے گوشہ گمنامی سے نکال کر خود دشمنوں نے آپ کو تمام ملک کے قبائل سے متعارف کرا دیا ۔ اس کے بعد یہ بالکل فطری امر تھا کہ لوگ یہ معلوم کریں کہ وہ شخص ہے کون؟ کیا کہتا ہے؟ کیسا آدمی ہے؟ اس کے جادو سے متاثر ہونے والے کون لوگ ہیں اور ان پر اس کے جادو کا آخر کیا اثر پڑا ہے؟ کفار مکہ کا پروپیگنڈا جتنا جتنا بڑھتا چلا گیا لوگوں میں یہ جستجو بڑھتی چلی گئی ۔ پھر جب اس جستجو کے نتیجے میں لوگوں کو آپ کے اخلاق اور آپ کی سیرت و کردار کا حال معلوم ہوا ، جب لوگوں نے قرآن سنا اور انہیں پتہ چلا کہ وہ تعلیمات کیا ہیں جو آپ پیش فرما رہے ہیں ، اور جب دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جس چیز کو جادو کہا جا رہا ہے اس سے متاثر ہونے والوں کی زندگیاں عرب کے عام لوگوں کی زندگیوں سے کس قدر مختلف ہو گئی ہیں ، تو وہی بد نامی نیک نامی سے بدلتی شروع ہو گئی ۔ حتی کہ ہجرت کا زمانہ آنے تک نوبت یہ پہنچ گئی کہ دور و نزدیک کے عرب قبائل میں شاید ہی کوئی قبلیہ ایسا رہ گیا ہو جس میں کسی نہ کسی شخص یا کنبے نے اسلام قبول نہ کر لیا ہو ، اور جس میں کچھ نہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کی دعوت سے ہمدردی و دلچسپی رکھنے والے پیدا نہ ہو گئے ہوں ۔ یہ حضور کے رفع ذکر کا پہلا مرحلہ تھا ۔ اس کے بعد ہجرت سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا جس میں ایک طرف منافقین یہود اور تمام عرب کے اکابر مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بد نام کرنے میں سرگرم تھے ، اور دوسری طرف مدینہ طیبہ کی اسلامی ریاست خدا پرستی و خدا ترسی ، زہد و تقوی ، طہارت اخلاق ، حسن معاشرت ، عدل و انصاف ، انسانی مساوات ، مالداروں کی فیاضی ، غریبوں کی خبر گیری ، عہد و پیمان کی پاسداری اور معاملات میں راستبازی کا وہ عملی نمونہ پیش کر رہی تھی جو لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتا چلا جا رہا تھا ۔ دشمنوں نے جنگ کے ذریعہ سے حضور کے اس بڑھتے ہوئے اثر کو مٹانے کی کوشش کی مگر آپ کی قیادت میں اہل ایمان کی جو جماعت تیار ہوئی تھی اس نے ا پنے نظم و ضبط ، اپنی شجاعت ، اپنی موت سے بے خوفی ، اور حالت جنگ تک میں اخلاقی حدود کی پابندی سے اپنی برتری اس طرح ثابت کر دی کہ سا رے عرب نے ان کا لوہا مان لیا ۔ 10 سال کے اندر حضور کا رفع ذکر اس طرح ہوا کہ وہی ملک جس میں آپ کو بدنام کرنے کے لیے مخالفین نے اپنا سارا زور لگایا تھا اس کا گوشہ گوشہ اشھد ان محمداً رسول اللہ کی صدا سے گونج اٹھا ۔ پھر تیسرے مرحلے کا افتتاح خلافت راشدہ کے دور سے ہوا جب آپ کا نام مبارک تمام روئے زمین میں بلند ہونا شروع ہو گیا ۔ یہ سلسلہ آج تک بڑھتاجا رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک بڑھتا چلا جائے گا ۔ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی کوئی بستی موجود اور دن میں پانچ مرتبہ اذان میں بآواز بلند محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو ، نمازوں میں حضور پر درود نہ بھیجا جا رہا ہو ، جمعہ کے خطبوں میں آپ کا ذکر خیر نہ کیا جا رہا ہو ، اور سال کے بارہ مہینوں میں سے کوئی دن اور دن کے 24 گھنٹوں میں سے کوئی وقت ایسا نہیں ہے جب روئے زمین میں کسی نہ کسی جگہ حضور کا ذکر مبارک نہ ہو رہا ہو ۔ قرآن کی صداقت کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ جس وقت نبوت کے ابتدائی دور میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ و رفعنا لک ذکرک اس وقت کوئی شخص بھی یہ اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ یہ رفع ذکر اس شان سے اور اتنے بڑے پیمانے پر ہو گا ۔ حدیث میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جبریل میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ میرا رب اور آپ کا رب پوچھتا ہے کہ میں نے کس طرح تمہارا رفع ذکر کیا ؟ میں نے عرض کیا اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ تمہارا بھی ذکر کیا جا ئے گا ۔ ( ابن جریر ، ابن ابی حاتم ، مسند ابو یعلی ، ابن المنذر ، ابن حبان ، ابن مردویہ ، ابو نعیم ۔ بعد کی پوری تاریخ شہادت دے رہی ہے کہ یہ بات حرف بحرف پوری ہوئی ۔