سورة العلق حاشیہ نمبر : 1
جیسا کہ ہم نے دیباچہ میں بیان کیا ہے ، فرشتے نے جب حضور سے کہا کہ پڑھو ، تو حضور نے جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے نے وحی کے یہ الفاظ لکھی ہوئی صورت میں آپ کے سامنے پیش کیے تھے اور انہیں پڑھنے کے لیے کہا تھا ۔ کیونکہ اگر فرشتے کی بات کا مطلب یہ ہوتا کہ جس طرح میں بولتا جاؤں آپ اسی طرح پڑھتے جائیں ، تو حضور کو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔
سورة العلق حاشیہ نمبر : 2
یعنی اپنے رب کا نام لے کر پڑھو ، یا بالفاظ دیگر بسم اللہ کہو اور پڑھو ۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کے آنے سے پہلے صرف اللہ تعالی کو اپنا رب جانتے اور مانتے تھے ۔ اسی لیے یہ کہنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی کہ آپ کا رب کون ہے ، بلکہ یہ کہا گیا کہ اپنے رب کا نام لے کر پڑھو ۔
سورة العلق حاشیہ نمبر : 3 مطلقا پیدا کیا فرمایا گیا ہے ، یہ نہیں کہا گیا کہ کس کو پیدا کیا ۔ اس سے خودبخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس رب کا نام لے کر پڑھو جو خالق ہے ، جس نے ساری کائنات کو اور کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے ۔