Surah

Information

Surah # 98 | Verses: 8 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 100 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
نام : پہلی آیت کے لفظ البینہ کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے زمانۂ نزول : اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک یہ مکی ہے اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک مدنی ہے ۔ ابن الزبیر اور عطاء بن یسار کا قول ہے کہ یہ مدنی ہے ۔ ابن عباس اور قتادہ کے دو قول منقول ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ مکی ہے اور دوسرا یہ کہ مدنی ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسے مکی قرار دیتی ہیں ۔ ابو حیان صاحب بحر المحیط اور عبد المنعم ابن الفرس صاحب احکام القرآن اس کے مکی ہونے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ جہاں تک اس کے مضمون کا تعلق ہے ، اس میں کوئي علامت ایسی نہیں پائی جاتی جو اس کے مکی یا مدنی ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہو ۔ موضوع اور مضمون : قرآن مجید کی ترتیب میں اس کو سورۂ علق اور سورۂ قدر کے بعد رکھنا بہت معنی خیز ہے ۔ سورۂ علق میں پہلی وحی درج کی گئی ہے ۔ سورۂ قدر میں بتایا گیا ہے کہ وہ کب نازل ہوئی اور اس سورت میں بتایا گیا ہے کہ اس کتاب پاک کے ساتھ ایک رسول بھیجنا کیوں ضروری تھا ۔ سب سے پہلے رسول بھیجنے کی ضرورت بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا کے لوگ ، خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے ، جس کفر کی حالت میں مبتلا تھے اس سے ان کا نکلنا اس کے بغیر ممکن نہ تھا کہ ایک ایسا رسول بھیجا جائے جس کا وجود خود اپنی رسالت پر دلیل روشن ہو اور وہ لوگوں کے سامنے خدا کی کتاب کو اس کی اصلی اور صحیح صورت میں پیش کرے جو باطل کی ان تمام آمیزشوں سے پاک ہو جن سے پچھلی کتب آسمانی کو آلودہ کر دیا گیا ہے اور بالکل راست اور درست تعلقات پر مشتمل ہو ۔ اس کے بعد اہل کتاب کی گمراہیوں کے متعلق وضاحت کی گئی ہے کہ ان کے ان مختلف راستوں میں بھٹکنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ اللہ تعالٰی نے ان کی کوئی رہنمائی نہ کی تھی بلکہ وہ اس کے بعد بھٹکے کہ راہ راست کا بیان واضح ان کے پاس آ چکا تھا ۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اپنی گمراہیوں کے وہ خود ذمہ دار ہیں ، اور اب پھر اللہ کے اس رسول کے ذریعے سے بیان واضح آجانے کے بعد بھی اگر وہ بھٹکتے ہی رہیں گے تو ان کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ جائے گی ۔ اس سلسلے میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے جو انبیاء بھی آئے تھے ، اور جو کتب بھی بھیجی گئی تھیں ، انہوں نے اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا تھا کہ سب طریقوں کو چھوڑ کر خالص اللہ کی بندگی کا طریقہ اختیار کیا جائے ، کسی اور کی عبادت و بندگی اور اطاعت و پرستش کو اس کے ساتھ شامل نہ کیا جائے ، نماز قائم کی جائے اور زکٰوۃ ادا کی جائے یہی ہمیشہ سے ایک صحیح دین رہا ہے ۔ اس سے بھی یہ نتیجہ خود بخود برآمد ہوتا ہے کہ اہل کتاب نے اس اصل دین سے ہٹ کر اپنے مذہبوں میں جن نئی نئی باتوں کا اضافہ کر لیا ہے وہ سب باطل ہیں ، اور اللہ کا یہ رسول جو اب آیا ہے اسی اصل دین کی طرف پلٹنے کی انہیں دعوت دے رہا ہے ۔ آخر میں صاف صاف ارشاد ہوا ہے کہ جو اہل کتاب اور مشرکین اس رسول کو ماننے سے انکار کریں گے وہ بدترین خلائق ہیں ، ان کی سزا ابدی جہنم ہے ، اور جو لوگ ایمان لا کر عمل صالح کا طریقہ اختیار کرلیں گے اور دنیا میں خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کریں گے وہ بہترین خلائق ہیں ، ان کی جزا یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ۔
سات قرأت اور قرآن حکیم: جب یہ سورت اتری تو حضرت جبرائیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا اللہ کا آپ کو حکم ہوا ہے کہ یہ سورت حضرت ابی کو سناؤ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی سے یہ ذکر کیا تو حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا وہاں میرا ذکر کیا گیا آپ نے فرمایا ہاں ہاں ، تو حضرت ابی رو پڑے مسند احمد ۔ مسند ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابی نے پوچھا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ؟ یہ حدیث بخاری مسلم ترمذی اور نسائی میں بھی ہے مسند کی اور روایت میں ہے کہ جس وقت حضرت ابی نے یہ واقعہ بیان کیا اس وقت حضرت عبدالرحمن با البزی نے کہاکہ پھر تو تم اے ابو منذر بہت ہی خوش ہوئے ہو گے کہاں ہاں خوش کیوں نہ ہوتا اللہ خود فرماتا ہے قل بفضل اللّٰہ وبرحمتہ فبذالک فلیفرحوا ھوا خیر مما یجمعونیعنی کہدے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ساتھ لوگ خوش ہوا کریں یہ ان کے جمع کیے ہوئے سے بہت ہی بہتر ہے اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت حضرت ابی کے سامنے پڑھی اس میں یہ آیت بھی تھی ۔ لو ان ابن ادام سال وادیا من مال فاعطیہ لسأال ثانیا ولو سأال ثانیا فاعطیہ لسأال ثالثا ولا یملا جوف ابن آدم الا التواب و یتوب اللّٰہ علی من تاب وان ذات الدین عند اللہ الحنیفۃ غیر المشرکتہ ولا الیھودیتہ ولا النصر اتیتہ ومن یفعل خیرا فلن یکفرہ ، یعنی اگر انسان مجھ سے ایک جگل بھر کر سونا مانگے اور میں اسے دے دوں تو پھر دوسرا مانگے گا اور دوسرے کو بھی دے دوں تو یقینا تیسرے کی طلب کریگا انسان کے پیٹ کو سوا مٹی کے کوئی چیز نہیں بھر سکتی جو توبہ کرے اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اللہ کے نزدیک دیندار وہ ہے جو یکطرفہ ہو کر صرف اس کی عبادت کرے نہ وہ مشرک ہو نہ یہودی ہو نہ نصرانی ہو جو شخص بھی کوئی نیک کام کرے اللہ کے ہاں اس کی نادقری نہ کی جائیگی ( مسند احمد ) ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اور اسے امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے طبرانی میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی سے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں تو حضرت ابی نے فرمایا کہ حضرت میں اللہ پر ایمان لایا آپ کے ہاتھ پر اسلام لایا آپ ہی سے علم دین حاصل کیا آپ نے پھر یہی فرمایا اس پر حضرت ابی نے فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میرا وہاں ذکر کیا گیا آپ نے فرمایا تیرے نام اور نسب کے ساتھ ملاء الاعلی ، میں تیرا ذکر ہوا حضرت ابی نے فرمایا اچھا پھر پڑھئے یہ روایت اس طریقہ سے غریب ہے اور ثابت وہ ہے جو پہلے بیان ہوا یہ یاد رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سورت کو حضرت ابی کے سامنے پڑھنا یہ ان کی ثابت قدمی اور ان کے ایمان کی زیادتی کے لیے تھا مسند احمد ، نسائی ابو داؤد اور مسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت سن کر حضرت ابی بگڑ بیٹھے تھے کیونکہ انہوں نے جس طرح اس سورت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا تھا حضرت عبداللہ نے اسی طرح نہیں پڑھا تھا تو غصے میں آ کر انہیں لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے قرآن سنا اس نے اپنے طریقے سے اس نے اپنے طور پر پڑھا آپ نے فرمایا دونوں نے درست پڑھا حضرت ابی فرماتے ہیں میں تو اس قدر شک و شبہ میں پڑ گیا کہ جاہلیت کے زمانہ کا شک سامنے آ گیا آپ نے یہ حالت دیکھ کر میرے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا جس سے میں پسینہ پسینہ ہو گیا اور اس قدر مجھ پر خوف طاری ہوا کہ گویا میں اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں پھر آپ نے فرمایا سن جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا اللہ کا حکم ہے کہ قرآن ایک ہی قرأت پر اپنی امت کو پڑھاؤ میں نے کہا میں اللہ تعالیٰ سے عفو و درگذر اور بخشش و مغفرت چاہتا ہوں پھر مجھے دو طرح کے قرأتوں کی اجازت ہوئی لیکن میں پھر بھی زیادہ طلب کرتا رہا یہاں تک کہ سات قرأتوں کی اجازت ملی ۔ یہ حدیث بہت سی سندوں اور مختلف الفاظ سے تفسیر کے شروع میں پوری طرح بیان ہو چکی ہے اب جبکہ یہ مبارک سورت نازل ہوئی اور اس میں آیت رسول من اللّٰہ یتلو صحفا مطھرۃ فیھا کتب قیمۃ ، بھی نازل ہوئی تھی اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ بطور پہنچا دینے کے اور ثابت قدمی عطا فرمانے کے اور آگاہی کرنے کے پڑھ کر حضرت ابی کو سنا دیں کسی کو یہ خیال نہ رہے کہ بطور سیکھنے کے اور یاد رہنے کے آپ نے یہ سوتر ان کے پاس تلاوت کی تھی واللہ اعلم پس جس طرح آپ نے حضرت ابی کے اس دن کے شک و شبہ کے دفع کرنے کے لیے جو انہیں مختلف قرأت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جائز رکھنے پر پیدا ہوا تھا ان کے سامنے یہ سورت تلاوت کر کے سنائی ٹھیک اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے بھی تھا کہ کیا آپ نے ہمیں یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ شریف جائیں گے اور طواف کریں گے آپ نے فرمایا ہاں یہ تو ضرور کہا تھا لیکن یہ تو نہیں کہا تھا کہ اسی سال یہ ہو گا یقینا وہ وقت آ رہا ہے کہ تو وہاں پہنچے گا اور طواف کریگا اب حدیبیہ سے لوٹتے ہوئے سورہ فتح نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر کو بلوایا اور یہ سورت پڑھ کر سنائی جس میں یہ آیت بھی ہے لقد صدق اللّٰہ رسولہ الرء یا بالحق لتد خلن المسجد الحرام ان شآاللّٰہ امنین الخیعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب سچا کر دکھایا یقینا تمہارا داخلہ مسجد حرام میں امن و امان کے ساتھ ہو گا جیسے کہ پہلے اس کا بیان بھی گذر چکا حافظ ابو نعیم اپنی کتاب اسماء صحابہ میں حدیث لائے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب سورہ لم یکن کی قرأت سنتا ہے تو فرماتا ہے میرے بندے خوش ہو جا مجھے اپنی عزت کی قسم میں تجھے جنت میں ایسا ٹھکانا دوں گا کہ تو خوش ہو جائیگا یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ میں تجھے دنیا اور آخرت کے احوال میں سے کسی حال میں نہ بھولوں گا ۔