Surah

Information

Surah # 98 | Verses: 8 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 100 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لَمۡ يَكُنِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ وَالۡمُشۡرِكِيۡنَ مُنۡفَكِّيۡنَ حَتّٰى تَاۡتِيَهُمُ الۡبَيِّنَةُ ۙ‏ ﴿1﴾
اہل کتاب کے کافر اور مشرک لوگ جب تک کہ ان کے پاس ظاہر دلیل نہ آ جائے باز رہنے والے نہ تھے ( وہ دلیل یہ ) تھی کہ ۔
لم يكن الذين كفروا من اهل الكتب و المشركين منفكين حتى تاتيهم البينة
Those who disbelieved among the People of the Scripture and the polytheists were not to be parted [from misbelief] until there came to them clear evidence -
Ehl-e-kitab kay kafir aur mushrik log jabb tak kay unkay pass zahir daleel na ajaye baz rehnay waly na thay ( who daleel yeh thi kay )
اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے ، وہ اس وقت تک باز آنے والے نہیں تھے جب تک کہ ان کے پاس روشن دلیل نہ آتی ۔ ( ١ )
( ۱ ) کتابی کافر ( ف۲ ) اور مشرک ( ف۳ ) اپنا دین چھوڑنے کو نہ تھے جب تک ان کے پاس روشن دلیل نہ آئے ( ف٤ )
اہل کتاب اور مشرکین 1 میں سے جو لوگ کافر تھے 2﴿وہ اپنے کفر سے ﴾ باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس دلیل روشن نہ آجائے 3
اہلِ کتاب میں سے جو لوگ کافر ہو گئے اور مشرکین اس قت تک ( کفر سے ) الگ ہونے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس روشن دلیل ( نہ ) آجاتی
سورة البینہ حاشیہ نمبر : 1 کفر میں مشترک ہونے کے باوجود ان دونوں گروہوں کو دو الگ الگ ناموں سے یاد کیا گیا ہے ۔ اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس پہلے انبیاء کی لائی ہوئی کتابوں میں سے کوئی کتاب ، خواہ تحریف شدہ شکل ہی میں سہی ، موجود تھی اور وہ اسے مانتے تھے ۔ اور مشرکین سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی نبی کے پیرو اور کسی کتاب کے ماننے والے نہ تھے ، قرآن مجید میں اگرچہ اہل کتاب کے شرک کا ذکر بہت سے مقامات پر کیا گیا ہے ۔ مثلا عیسائیوں کے متعلق فرمایا گیا کہ وہ کہتے ہیں اللہ تین خداؤں میں ایک ہے ( المائدہ 73 ) وہ مسیح ہی کو خدا کہتے ہیں ( المائدہ 17 ) وہ مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں ( التوبہ 30 ) اور یہود کے متعلق فرمایا گیا کہ وہ عزیر کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں ( التوبہ 30 ) لیکن اس کے باوجود قرآن میں کہیں ان کے لیے مشرک کی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی بلکہ ان کا ذکر اہل کتاب یا الذین اوتوا الکتب ( جن کو کتاب دی گئی تھی ) یا یہود اور نصاری کے الفاظ سے کیا گیا ہے ، کیونکہ وہ اصل دین توحید ہی کو مانتے تھے اور پھر شرک کرتے تھے ۔ بخالف اس کے غیر اہل کتاب کے لیے مشرک کا لفظ بطور اصطلاح استعمال کیا گیا ہے ۔ کیونکہ وہ اصل دین شرک ہی کو قرار دیتے تھے اور توحید کے ماننے سے ان کو قطعی انکار تھا ۔ یہ فرق ان دونوں گروہوں کے درمیان صرف اصطلاح ہی میں نہیں بلکہ شریعت کے احکام میں بھی ہے ۔ اہل کتاب کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال کیا گیا ہے اگر وہ اللہ کا نام لے کر حلال جانور کو صحیح طریقہ سے ذبح کریں اور ان کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے ۔ اس کے برعکس مشرکین کا نہ ذبیحہ حلال ہے اور نہ ان کی عورتوں سے نکاح حلال ۔ سورة البینہ حاشیہ نمبر : 2 یہاں کفر اپنے وسیع معنوں میں استعمال کیا گیا ہے جن میں کافرانہ رویہ کی مختلف صورتیں شامل ہیں ۔ مثلا کو۴ی اس معنی میں کافر تھا کہ سرے سے اللہ ہی کو نہ مانتا تھا ۔ کوئی اللہ کو مانتا تھا مگر اسے واحد معبود نہ مانتا تھا بلکہ خدا کی ذات ، یا خدائی کی صفات و اختیارات میں کسی نہ کسی طور پر دوسروں کو شریک ٹھہرا کر ان کی عبادت بھی کرتا تھا ۔ کوئی اللہ کی وحدانیت بھی مانتا تھا مگر اس کے باوجود کسی نوعیت کا شرک بھی کرتا تھا ۔ کوئی خدا کو مانتا تھا مگر اس کے نبیوں کو نہیں مانتا تھا اور اس ہدایت کو قبول کرنے کا قائل نہ تھا جو انبیاء کے ذریعہ سے آئی ہے ۔ کوئی کسی نبی کو مانتا تھا اور کسی دوسرے نبی کا انکار کرتا تھا ۔ کوئی آخرت کا منکر تھا ۔ غرض مختلف قسم کے کفر تھے جن میں لوگ مبتلا تھے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ کفر میں مبتلا نہ تھے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ کفر میں مبتلا ہونے والے دو گروہ تھے ۔ ایک اہل کتاب ، دوسرے مشرکین ۔ یہاں من تبعیض کے لیے نہیں بلکہ بیان کے لیے ہے ۔ جس طرح سورہ حج آیت 30میں فرمایا گیا فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بتوں کی گندگی سے بچو ، نہ یہ کہ بتوں میں جو گندگی ہے اس سے بچو ۔ اسی طرح الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ کا مطلب بھی یہ ہے کہ کفر کرنے والے جو اہل کتاب اور مشرکین میں سے ہیں ، نہ یہ کہ ان دونوں گروہوں میں سے جو لوگ کفر کرنے والے ہیں ۔ سورة البینہ حاشیہ نمبر : 3 یعنی ان کے اس حالت کفر سے نکلنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ ایک دلیل روشن آکر انہیں کفر کی ہی صورت کا غلط اور خلاف حق ہونا سمجھائے اور راہ راست کو واضح اور مدلل طریقے سے ان کے سامنے پیش کردے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس دلیل روشن کے آجانے کے بعد وہ سب کفر سے باز آجانے والے تھے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دلیل کی غیر موجودگی میں تو اس کا اس حالت سے نکلنا ممکن ہی نہ تھا ۔ البتہ اس کے آنے کے بعد بھی ان میں سے جو لوگ اپنے کفر قائم رہیں اس کی ذمہ داری پھر انہی پر ہے ، اس کے بعد وہ اللہ سے یہ شکایت نہیں کرسکتے کہ آپ نے ہماری ہدایت کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا ۔ یہ وہی بات ہے جو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان کی گئی ہے ۔ مثلا سورہ نحل میں فرمایا وَعَلَي اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيْلِ سیدھا راستہ بتانا اللہ کے ذمہ ہے ( آیت 9 ) سورہ لیل میں فرمایا اِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدٰى راستہ بتانا ہمارے ذمہ ہے ( آیت 12 ) اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۔ ۔ ۔ رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ۔ اے نبی ہم نے تمہارے طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور اس کے بعد کے نبیوں کی طرف بھیجی تھی ۔ ۔ ۔ ان رسولوں کو بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنایا گیا تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ پر کوئی حجت نہ رہے ۔ ( النساء 163 ۔ 165 ) يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰي فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَاۗءَنَا مِنْۢ بَشِيْرٍ وَّلَا نَذِيْرٍ ۡ فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّنَذِيْرٌ ۔ اے اہل کتاب ، تمہارے پاس ہمارا رسول حقیقت واضح کرنے کے لیے رسولوں کا سلسلہ ایک مدت تک بند رہنے کے بعد آگیا ہے تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس نہ کوئی بشارت دینے والا آیا نہ خبردار کرنے والا ۔ سو لو اب تمہارے پاس بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا آگیا ( المائدہ 19 )
پاک و شفاف اوراق کی زینت قرآن حکیم: اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور مشرکین سے مراد بت پوجنے والے عرب اور آتش پرست عجمی ہیں فرماتا ہے کہ یہ لوگ بغیر دلیل حاصل کیے باز رہنے والے نہ تھے پھر بتایا کہ وہ دلیل اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو پاک صحیفے یعنی قرآن کریم پڑھ سناتے ہیں جو اعلیٰ فرشتوں نے پاک اوراق میں لکھا ہوا ہے جیسے اور جگہ ہے فی صحف مکرمتہ ، الخ کہ وہ نامی گرامی بلندو بالا پاک صاف اوراق میں پاک باز نیکو کار بزرگ فرشتوں کے ہاتھوں لکھے ہوئے ہیں پھر فرمایا کہ ان پاک صحیفوں میں اللہ کی لکھی ہوئی باتیں عدل و استقامت والی موجود ہیں جن کے اللہ کی جانب سے ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں نہ ان میں کوئی خطا اور غلطی ہوئی ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عمدگی کے ساتھ قرآنی وعظ کہتے ہیں اور اس کی اچھی تعریفیں بیان کرتے ہیں ابن زید فرماتے ہیں ان صحیفوں میں کتابیں ہیں استقامت اور عدل و انصاف والی پھر فرمایا کہ اگلی کتابوں والے اللہ کی حجتیں قائم ہو چکنے اور دلیلیں پانے کے بعد اللہ کے کلام کے مطالب میں اختالف کرنے لگے اور جدا جدا راہوں میں بٹ گئے جیسے کہ اس حدیث میں ہے جو مختلف طریقوں سے مروی ہے کہ یہودیوں کے اکہتر فرقے ہوگئے اور نصرانیوں کے بہتر اور اس امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے سو ایک کے سب جہنم میں جائیں گے لوگوں نے پوچھا وہ ایک کون ہے فرمایا وہ جو اس پر ہو جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں پھر فرمایا کہ انہیں صرف اتنا ہی حکم تھا کہ خلوص اور اخلاص کے ساتھ صرف اپنے سچے معبود کی عبادت میں لگے رہیں جیسے اور جگہ ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ 25؀ ) 21- الأنبياء:25 ) ، یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے جتنے رسول بھیجے سب کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو اسی لیے ہاں بھی فرمایا کہ یکسو ہو کر یعنی شرک سے دور اور توحید میں مشغول ہو کر جیسے اور جگہ ہے ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ 36؀ ) 16- النحل:36 ) ، یعنی ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت سے بچو حنیف کی پوری تفسیر سورہ انعام میں گذر چکی ہے جسے لوٹانے کی اب ضرورت نہیں ۔ پھر فرمایا نمازوں کو قائم کریں جو کہ بدن کی تمام عبادتوں میں سب سے اعلی عبادت ہے اور زکوہ دیتے رہیں یعنی فقیروں اور محتاجوں کے ساتھ سلوک کرتے رہیں یہی دین مضبوط سیدھا درست عدل والا اور عمدگی والا ہوے بہت سے ائمہ کرام نے جیسے امام زہری ، امام شافعی ، وغیرہ نے اس آیت سے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں کیونکہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی خلوص اور یکسوئی کے ساتھ کی عبادت اور نماز و زکوٰۃ کو دین فرمایا گیا ہے ۔