سورة العدیات حاشیہ نمبر : 1
آیت کے الفاظ میں یہ تصریح نہیں ہے کہ دوڑنے والوں سے مراد گھوڑے ہیں ، بلکہ صرف وَالْعٰدِيٰتِ ( قسم ہے دوڑنے والوں کی ) فرمایا گیا ہے ۔ اسی لیے مفسرین کے درمیان اس باب میں اختلاف ہوا ہے کہ دوڑنے والوں سے مراد کیا ہے ۔ صحابہ و تابعین کا ایک گروہ اس طرح گیا ہے کہ اس سے مراد گھوڑے ہیں ، اور ایک دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ اس سے مراد اونٹ ہیں ۔ لیکن چونکہ دوڑتے ہوئے وہ خاص قسم کی آواز جسے ضبح کہتے ہیں ، گھوڑوں ہی کی شدت تنفس سے نکلتی ہے ، اور بعد کی آیات بھی جن میں چنگاریاں جھاڑنے اور صبح سویرے کسی بستی پر چھاپہ مارنے اور وہاں گرد اڑانے کا ذکر آیا ہے ، گھوڑوں ہی پر راست آتی ہیں ، اس لیے اکثر محققین نے اس سے مراد گھوڑے ہی لیے ہیں ۔ ابن جریر کہتے ہیں دونوں اقال میں سے یہ قول ہی قابل ترجیح ہے کہ دوڑنے والوں سے مراد گھوڑے ہیں ، کیونکہ اونٹ ضبح نہیں کرتا ، گھوڑا ہی ضبح کیا کرتا ہے ، اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ان دوڑنے والوں کی قسم جو دوڑتے ہوئے ضبح کرتے ہیں ۔ امام رازی کہتے ہیں کہ ان آیات کے الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مراد گھوڑے ہیں ، کیونکہ ضبح کی آواز گھوڑے کے سوا کسی سے نہیں نکلتی ، اور آگ جھاڑنے کا فعل بھی پتھروں پر سموں کی ٹاپ پڑنے کے سوا کسی اور طرح کے دوڑنے سے نہیں ہوتا ، اور اسی طرح صبح سویرے چھاپہ مارنا بھی دوسرے جانوروں کی بہ نسبت گھوڑوں ہی کے ذریعہ سے سہل ہوتا ہے ۔