Surah

Information

Surah # 109 | Verses: 6 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 18 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
وَلَاۤ اَنۡـتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ‌ ۚ‏ ﴿3﴾
نہ تم عبادت کرنے والے ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔
و لا انتم عبدون ما اعبد
Nor are you worshippers of what I worship.
Na tum ibadat kerney waly ho usski jisski mein ibadat kerta hon.
اور تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔
( ۳ ) اور نہ تم پوجتے ہو جو میں پوجتا ہوں ،
اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ۔ 3
اور نہ تم اس ( رب ) کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں
سورة الکافرون حاشیہ نمبر : 3 اصل الفاظ ہیں مَآ اَعْبُدُ ۔ عربی زبان میں مَا کا لفظ عموما بے جان یا بے عقل چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اور ذی عقل ہستیوں کے لیے مَن کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اس بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں من اعبد کہنے کے بجائے مَآ اَعْبُدُ کیوں کہا گیا ہے؟ اس کے چار جواب عام طور پر مفسرین نے دیے ہیں ۔ ایک یہ کہ یہاں م٘ا بمعنی من ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہاں مَا بمعنی الذی ( یعنی جو باتیں ) ہے ۔ تیسرے یہ کہ دونوں فقروں میں مَا مصدر کے معنی میں ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں وہ عبادت نہیں کرتا جو تم کرتے ہو ، یعنی مشرکانہ عبادت ، اور تم وہ عبادت نہیں کرتے جو میں کرتا ہوں ، یعنی موحدانہ عبادت ۔ چوتھے یہ کہ پہلے فقرےمیں چونکہ مَا تَعْبُدُوْنَ فرمایا گیا ہے اس لیے دوسرے فقرے میں کلام کی مناسبت برقرار رکھتے ہوئے مَآ اَعْبُدُ فرمایا گیا ہے ، لیکن دونوں جگہ صرف لفظ کی یکسانی ہے ، معنی کی یکسانی نہیں ہے ، اور اس کی مثالیں قرآن مجید میں دوسری جگہ بھی ملتی ہیں ۔ مثلا سورہ بقرہ آیت 194 میں فرمایا گیا ہے: فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۔ جو تم پر زیادتی کرے اس پر تم ویسی ہی زیاتی کرو جیسی اس نے تم پر کی ہے ظاہر ہے کہ زیادتی کا ویسا ہی جواب جیسی زیادتی کی گئی ہو ، زیادتی کی تعریف میں نہیں آتا ، مگر محض کلام کی یکسانی کے لیے جوابا زیادتی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اسی طرح سورہ توبہ آیت 67 میں ارشاد ہوا ہے: ۭنَسُوا اللّٰهَ فَنَسِيَهُمْ ۔ وہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ ان کو بھول گیا ۔ حالانکہ اللہ بھولتا نہیں ہے اور مقصود کلام یہ ہے کہ اللہ نے ان کو نظر انداز فرما دیا ، لیکن ان کے نسیان کے جواب میں اللہ کے لیے نسیان کا لفظ محض کلام کی یکسانی برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ چاروں تاویلات اگرچہ ایک ایک لحاظ سے درست ہیں اور عربی زبان میں یہ سب معنی لینے کی گنجائش ہے ، لیکن ان میں سے کسی سے بھی وہ اصل مدعا واضح نہیں ہوتا جس کے لیے من اعبد کہنے کے بجائے مَآ اَعْبُدُ کہا گیا ہے ۔ دراصل عربی زبان میں کسی شخص کے لیے جب مَن کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مقصود اس کی ذات کے متعلق کچھ کہنا یا پوچھنا ہوتا ہے ، اور جب مَا کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مقصود اس کی صفت کے بارے میں استفسار یا اظہار خیال ہوتا ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اردو زبان میں جب ہم کسی شخص کے متعلق پوچھتے ہیں کہ یہ صاحب کون ہیں تو مقصد اس شخص کی ذات سے تعارف حاصل کرنا ہوتا ہے ، مگر جب ہم کسی شخص کے متعلق پوچھتے ہیں کہ یہ صاحب کیا ہیں؟ تو اس سے یہ معلوم کرنا مقصود ہوتا ہے کہ مثلا وہ فوج آدمی ہے تو فوج میں اس کا منصب کیا ہے؟ اور کسی درسگاہ سے تعلق رکھتا ہے تو اس میں ریڈر ہے؟ لکچرر ہے ؟ پروفیسر ہے؟ کس علم یا فن کا استاد ہے؟ کیا ڈگریاں رکھتا ہے؟ وغیرہ پس اگر اس آیت میں یہ کہا جاتا کہ لَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَن اَعْبُدُ تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ تم اس ہستی کی عبادت کرنے والے نہیں ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں اور اس کے جواب میں مشرکین اور کفار یہ کہہ سکتے تھے کہ اللہ کی ہستی کو تو ہم مانتے ہیں ، اور اس کی عبادت بھی ہم کرتے ہیں؟ لیکن جب یہ کہا گیا کہ لَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن صفات کے معبود کی عبادت میں کرتا ہوں ان صفات کے معبود کی عبادت کرنے والے تم نہیں ہو ۔ اور یہی وہ اصل بات ہے جس کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین منکرین خدا کے سوا تمام اقسام کے کفار کے دین سے قطعی طور پر الگ ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ آپ کا خدا ان سب کے خدا سے بالکل مختلف ہے ۔ ان میں سے کسی کا خدا ایسا ہے جس کو چھ دن میں دنیا پیدا کرنے کے بعد ساتویں دن آرام کرنے کی ضرورت پیش آئی ، جو رب العالمین نہیں بلکہ رب اسرائیل ہے ، جس کا ایک نسل کے لوگوں سے ایسا خاص رشتہ ہے جو دوسرے انسانوں سے نہیں ہے ، جو حضرت یعقوب سے کشتی لڑتا ہے اور ان کو گرا نہیں سکتا ، جو عزیر نامی ایک بیٹا بھی رکھتا ہے ، کسی کا خدا یسوع مسیح نامی ایک اکلوتے پیٹ؁ کا باپ ہے اور وہ دوسروں کے گناہوں کا کفارہ بنانے کے لیے اپنے بیٹے کو صلیب پر چڑھوا دیتا ہے ۔ کسی کا خدا بیوی بچے رکھتا ہے ، مگر بے چارے کے ہاں صرف بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں ، کسی کا خدا انسانی شکل میں روپ دھارتا ہے اور زمین پر انسانی جسم میں رہ کر انسانوں کے سے کام کرتا ہے ۔ کسی کا خدا محض واجب الوجود ، یا علت العلل یا علت اولی ( First Cause ) ہے ، کائنات کے نظام کو ایک مرتبہ حرکت دے کر الگ جا بیٹحا ہے ، اس کے بعد کائنات لگے بندھے قوانین کے مطابق خود چل رہی ہے اور انسان کا اس سے اور اس کا انسان سے اب کوئی تعلق نہیں ہے ۔ غرض خدا کو ماننے والے کفار بھی درحقیقت اس خدا کو نہیں مانتے جو ساری کائنات کا ایک ہی خالق ، مالک ، مدبر ، منتظم اور حاکم ہے ۔ جس نے نظام کائنات کو صرف بنایا ہی نہیں ہے بلکہ ہر آن وہی اس کو چلا رہا ہے اور اس کا حکم ہر وقت یہاں چل رہا ہے ۔ جو ہر عیب ، نقص ، کمزوری اور غلطی سے منزہ ہے ، جو ہر تشیہ اور تجسیم سے پاک ہے ، ہر نظیر و مثیل سے مبرا اور ہر ساتھی اور ساجھی سے بے نیاز ہے ۔ جس کی ذات ، صفات ، اختیارات اور استحقاق معبودیت میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے ۔ جو اس سے بالاتر ہے کہ کوئی اس کی اولاد ہو ، یا کسی کو وہ بیٹا بنائے ، یا کسی قوم اور نسل سے اس کا کوئی خاص رشتہ ہو جس کا اپنی مخلوق کے ایک ایک فرد کے ساتھ رزقی اور روبیت اور رحمت اور نگہبانی کا براہ راست تعلق ہے ۔ جو دعائیں سننے والا اور ان کا جواب دینے والا ہے ۔ جو موت اور زندگی ، نفع اور ضرر اور قسمتوں کے بناؤ اور بگاڑ کے جملہ اختیارات کا تنہا مالک ہے ۔ جو اپنی مخلوق کو صرف پالتا ہی نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اس کی حیثیت اور ضرورت کے مطابق ہدایت بھی دیتا ہے ۔ جس کے ساتھ ہمارا تعلق صرف یہی نہیں ہے کہ وہ ہمارا معبود ہے اور ہم اس کی پرستش کرتے ہیں ، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے ہمیں امر و نہی کے احکام دیتا ہے اور ہمارا کام اس کے احکام کی اطاعت کرنا ہے ۔ جس کے سامنے ہم اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہیں ، جو مرنے کے بعد ہمیں دوبارہ اٹھانے والا ہے اور ہمارے اعمال کا محاسبہ کر کے جزا اور سزا دینے والا ہے ۔ ان صفات کے معبود کی عبادت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی پیروی کرنے والوں کے سوا دنیا میں کوئی بھی نہیں کر رہا ہے ۔ دوسرے اگر خدا کی عبادت کر بھی رہے ہیں تو اصلی اور حقیقی خدا کی نہیں بلکہ اس خدا کی عبادت کر رہے ہیں جو ان کا اپنا اختراع کردہ ایک خیالی خدا ہے ۔