Surah

Information

Surah # 112 | Verses: 4 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 22 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
نام: الاخلاص اس سورہ کا محض نام ہی نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے ، کیونکہ اس میں خالص توحید بیان کی گئی ہے ۔ قرآن مجید کی دوسری سورتوں میں تو بالعموم کسی ایسے لفظ کو ان کا نام قرار دیا گیا ہے جو ان میں وارد ہوا ہو ، لیکن اس سورہ میں لفظ اخلاص کہیں وارد نہیں ہوا ہے ، اس کو یہ نام اس کے معنی کے لحاظ سے دیا گیا ہے ، جو شخص بھی اس کو سمجھ کر اس کی تعلیم پر ایمان لے آئے گا وہ شرک سے خلاصی پا جائے گا ۔ زمانہ نزول: اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے ، اور یہ اختلاف ان روایات کی بنا پر ہے جو اس کے سبب نزول کے بارے میں منقول ہوئی ہیں ۔ ذیل میں ہم ان کو سلسلہ وار درج کرتے ہیں ۔ ( ۱ ) حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے ۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی ۔ ( طبرانی ) ( ۲ ) ابو العالمیہ نے حضرت ابی بن کعب کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے ، اس پر اللہ تعالی نے یہ سورۃ نازل فرمائی ( مسند احمد ، ابن ابی حاتم ، ابن جریر ، ترمذی ، بخاری فی التاریخ ، ابن المنذر ، حاکم ، بیہقی ) ترمذی نے اسی مضمون کی ایک روایت ابو العالیہ سے نقل کی ہے جس میں حضرت ابی بن کعب کا حوالہ نہیں ہے اور اسے صحیح تر کہا ہے ۔ ( ۳ ) حضرت جابر بن عبداللہ کا بیان ہے کہ ایک اعرابی نے ( اور بعض روایات میں ہے کہ لوگوں نے ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے ، اس پر اللہ تعالی نے یہ سورت نازل فرمائی ( ابو یعلی ، ابن جریر ، ابن المنذر ، طبرانی فی الاوسط ، بیہقی ، ابو نعیم فی الحلیہ ) ( ۴ ) عکرمہ نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ یہودیوں کا ایک گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جس میں کعب بن اشرف اور حیی بن اخطب وغیرہ شامل تھے اور انہوں نے کہا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمیں بتائیے کہ آپ کا وہ رب کیسا ہے جس نے آپ کو بھیجا ہے ۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ سورت نازل فرمائی ۔ ( ابن ابی حاتم ، ابن عدی ، بیہقی فی الاسماء والصفات ) ان کے علاوہ مزید چند روایات ابن تیمیہ نے اپنی تفسیر سورہ اخلاص میں نقل کی ہیں جو یہ ہیں: ( ۵ ) حضرت انس کا بیان ہے کہ خیبر کے کچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا اے ابو القاسم ، اللہ نے ملائکہ کو نور حجاب سے ، آدم کو مٹی کے سڑے ہوئے گارے سے ، ابلیس کو آگ کے شعلے سے ، آسمان کو دھوئیں سے ، اور زمین کو پانی کے جھاگ سے بنایا ، اب ہمیں اپنے رب کے متعلق بتائیے ( کہ وہ کس چیز سے بنا ہے ) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔ پھر جبرئیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا اے محمد ، ان سے کہیے هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ۔ ( ۶ ) عامر بن الطفیل نے حضور سے کہا اے محمد ، آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ کی طرف ۔ عامر نے کہا اچھا تو اس کی کیفیت مجھے بتائیے ۔ وہ سونے سے بنا ہوا ہے یا چاندی سے یا لوہے سے ؟ اس پر یہ سورت نازل ہوئی ۔ ( ۷ ) ضحاک اور قتادہ اور مقاتل کا بیان ہے کہ یہودیوں کے کچھ علماء حضور کے پاس آئے اور انہوں نے کہا اے محمد ، اپنے رب کی کیفیت ہمیں بتائیے ، شاید کہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں ۔ اللہ نے اپنی صفت توراۃ میں نازل کی ہے ۔ آپ بتائیے کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟ کس جنس سے ہے؟ سونے سے بنا ہے یا تانبے سے ، یا پیتل سے یا لوہے سے ، یا چاندی سے؟ اور کیا وہ کھاتا اور پیتا ہے؟ اور کس سے اس نے دنیا وراثت میں پائی ہے اور اس کے بعد کون اس کا وارث ہوگا ؟ اس پر اللہ تعالی نے یہ سورت نازل فرمائی ۔ ( ۸ ) ابن عباس کی روایت ہے کہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد سات پادریوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے حضور سے کہا ہمیں بتائیے آپ کا رب کیسا ہے ، کس چیز سے بنا ہے ؟ آپ نے فرمایا میرا رب کس چیز سے نہیں بنا ہے ، وہ تمام اشیاء سے جدا ہے ، اس پر اللہ تعالی نے یہ سورت نازل فرمائی ۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مواقع پر مختلف لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معبود کی ماہیت اور کیفیت دریافت کی تھی جس کی بندگی و عبادت کی طرف آپ لوگوں کو دعوت دے رہے تھے ، اور ہر موقع پر آپ نے اللہ تعالی کے حکم سے ان کو جواب میں یہی سورت سنائی تھی ۔ سب سے پہلے یہ سوال مکہ میں قریش کے مشرکین نے آپ سے کیا اور اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی ۔ اس کے بعد مدینہ طیبہ میں کبھی یہودیوں نے ، کبھی عیسائیوں نے ، اور کبھی عرب کے دوسرے لوگوں نے حضور سے اسی نوعیت کے سوالات کیے اور ہر مرتبہ اللہ تعالی کی طرف سے اشارہ ہوا کہ جواب میں یہی سورت آپ ان کو سنا دیں ۔ ان روایات میں سے ہر ایک میں یہ جو کہا گیا ہے کہ اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی تھی ، اس سے کسی کو یہ خیال نہ ہونا چاہیے کہ یہ سب روایتیں باہم متضاد ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی مسئلے کے بارے میں اگر پہلے سے کوئی آیت یا سورۃ نازل شدہ موجود ہوتی تھی تو بعد میں جب کبھی حضور کے سامنے وہی مسئلہ پیش کیا جاتا ، اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت آجاتی تھی کہ اس کا جواب فلاں آیت یا فلاں سورۃ میں ہے ، یا اس کے جواب میں وہ آیت یا سورۃ لوگوں کو پڑھ کر سنا دی جائے ۔ احادیث کے راوی اس چیز کو یوں بیان کرتے ہیں کہ جب فلاں معاملہ پیش آیا ، یا فلاں سوال کیا گیا تو یہ آیت یا سورۃ نازل ہوئی ۔ اس کو تکرار نزول سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ، یعنی ایک آیت یا سورۃ کا کئی مرتبہ نازل ہونا ۔ پس صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورۃ دراصل مکی ہے بلکہ اس کے مضمون پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مکہ کے بھی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے جب اللہ تعالی کی ذات و صفات کے بیان میں قرآن کی مفصل آیات ابھی نازل نہیں ہوئی تھیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت الی اللہ کو سن کر لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ آخر آپ کا وہ رب ہے کیسا جس کی بندگی و عبادت کی طرف آپ لوگوں کو بلا رہے ہیں ۔ اس کے بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ سورت ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مکہ میں جب حضرت بلال کا آقا امیہ بن خلف ان کو دھوپ میں تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر ایک بڑا سا پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیتا تھا تو وہ اَحَدٌ اَحَدٌ پکارتے تھے ۔ یہ لفظ احد اسی سورہ سے ماخوذ تھا ۔ موضوع اور مضمون: شان نزول کے بارے میں جو روایات اوپر درج کی گئی ہیں ان پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توحید کی دعوت لے کر اٹھے تھے اس وقت دنیا کے مذہبی تصورات کیا تھے ۔ بت پرست مشرکین ان خداؤں کو پوج رہے تھے جو لکڑی ، پتھر ، سونے ، چاندی وغیرہ مختلف چیزوں کے بنے ہوئے تھے ۔ شکل ، صورت اور جسم رکھتے تھے ۔ دیویوں اور دیوتاؤں کی باقاعدہ نسل چلتی تھی ۔ کوئی دیوی بے شوہر نہ تھی اور کوئی دیوتا بے زوجہ نہ تھا ۔ ان کو کھانے پینے کی ضرورت بھی لاحق ہوتی تھی اور ان کے پرستار ان کے لیے اس کا انتظام کرتے تھے ۔ مشرکین کی ایک بڑی تعداد اس بات کی قائل تھی کہ خدا انسانی شکل میں ظہور کرتا ہے اور کچھ لوگ اس کے اوتار ہوتے ہیں ۔ عیسائی اگرچہ ایک خدا کو ماننے کے مدعی تھے ، مگر ان کا خدا بھی کم از کم ایک بیٹا تو رکھتا ہی تھا ، اور باپ بیٹے کے ساتھ خدائی میں روح القدس کو بھی حصہ دار ہونے کا شرف حاصل تھا ۔ حتی کہ خدا کی ماں بھی ہوتی تھی اور اس کی ساس بھی ۔ یہودی بھی ایک خدا کو ماننے کا دعوی کرتے تھے ، مگر ان کا خدا بھی مادیت اور جسمانیت اور دوسری انسانی صفات سے خالی نہ تھا ، وہ ٹہلتا تھا ، انسانی شکل میں نمودار ہوتا تھا ، اپنے کسی بندے کشتی بھی لڑ لیتا تھا ۔ اور ایک عدد بیٹے ( عزیر ) کا باپ بھی تھا ۔ ان مذہبی گروہوں کے علاوہ مجوسی آتش پرست تھے اور صابئی ستارہ پرست ۔ اس حالت میں جب اللہ وحدہ لا شریک کو ماننے کی دعوت لوگوں کو دی گئی تو ان کے ذہن میں یہ سوالات پیدا ہونا ایک لازمی امر تھا کہ وہ سب ہے کس قسم کا جسے تمام ارباب اور معبودوں کو چھوڑ کر تنہا ایک ہی رب اور معبود تسلیم کرنے کی دعوت دی جارہی ہے ۔ قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے ان سوالات کا جواب چند الفاظ میں دے کر اللہ کی ہستی کا ایسا واضح تصور پیش کردیا جو تمام مشرکانہ تصورت کا قلع قمع کردیتا ہے اور اس کی ذات کے ساتھ مخلوقات کی صفات میں سے کسی صفت کی آلودگی کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہنے دیتا ۔ فضیلت اور اہمیت: یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں اس سورت کی بڑی عظمت تھی اور آپ مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو اس کی اہمیت محسوس کراتے تھے ، تاکہ وہ کثرت سے اس کو پڑھیں اور عوام الناس میں اسے پھیلائیں ، کیونکہ یہ اسلام کے اولین بنیادی عقیدے ( توحید ) کو چار ایسے مختصر فقروں میں بیان کردیتی ہے جو فورا انسان کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور آسانی سے زبانوں پر چڑھ جاتے ہیں ۔ احادیث میں کثرت سے یہ روایات بیان ہوئی ہیں کہ حضور نے مختلف مواقع پر مختلف طریقوں سے لوگوں کو بتایا کہ یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے ۔ بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی ، ترمذی ، ابن ماجہ ، مسند احمد ، طبرانی وغیرہ میں اس مضمون کی متعدد احادیث ابو سعید خدری ، ابو ہریرہ ، ابو ایوب انصاری ، ابو الدرداء ، معاذ بن جبل ، جابر بن عبداللہ ، ابی بن کعب ، ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ، ابن عمر ، ابن مسعود ، قتادہ بن النعمان ، انس بن مالک اور ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے منقول ہوئی ہیں ۔ مفسرین نے حضور کے اس ارشاد کی بہت سی توجیہات بیان کی ہیں ۔ مگر ہمارے نزدیک سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ قرآن مجید جس دین کو پیش کرتا ہے اس کی بنیاد تین عقیدے ہیں ۔ ایک توحید ، دوسرے رسالت ، تیسرے آخرت ۔ یہ سورۃ چونکہ خالص توحید کو بیان کرتی ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ۔ حضرت عائشہ کی یہ روایت بخاری و مسلم اور بعض دوسری کتب حدیث میں نقل ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب کو ایک مہم پر سردار بنا پر بھیجا اور اس پورے سفر کے دوران میں ان کا مستقل طریقہ یہ رہا کہ ہر نماز میں وہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ۔ پر قرأت ختم کرتے تھے ۔ واپسی پر ان کے ساتھیوں نے حضور سے اس کا ذکر کیا ۔ آپ نے فرمایا ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے تھے ۔ ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں رحمان کی صفت بیان کی گئی ہے اس لیے اس کا پڑھنا مجھے بہت محبوب ہے ۔ حضور نے یہ بات سنی تو لوگوں سے فرمایا اخبروہ ان اللہ تعالی یحبہ ان کو خبر دے دو کہ اللہ تعالی انہیں محبوب رکھتا ہے ۔ اسی سے ملتا جلتا واقعہ بخاری میں حضرت انس سے مروی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ انصار میں سے ایک صاحب قبا میں نماز پڑھاتے تھے اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ ہر رکعت میں پہلے قُلْ هُوَ اللّٰهُ پڑھتے ، پھر کوئی اور سورت تلاوت کرتے ۔ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور ان سے کہا کہ یہ تم کیا کرتے ہو کہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ پڑھنے کے بعد اسے کافی نہ سمجھ کر کوئی اور سورت بھی اس کے ساتھ ملا لیتے ہو؟ یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ یا تو صرف اسی کو پڑھو اور یا اسے چھوڑ کر کوئی اور سورت پڑھو ۔ انہوں نے کہا میں اسے نہیں چھوڑ سکتا ۔ تم چاہو تو میں تمہیں نماز پڑھاؤں ورنہ امامت چھوڑ دوں ۔ لیکن لوگ ان کی جگہ کسی اور کو امام بنانا بھی پسند نہیں کرتے تھے ۔ آخر کار معاملہ حضور کے سامنے پیش کیا گیا ۔ آپ نے ان سے پوھا کہ تمہارے ساتھی جو کچھ چاہتے ہیں اسے قبول کرنے میں تم کو کیا امر مانع ہے؟ تمہیں ہر رکعت میں یہ سورت پڑھنے پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟ انہوں نے عرض کیا مجھے اس سے بہت محبت ہے ۔ آپ نے فرمایا حبک ایاھا ادخلک الجنۃ اس سورت سے تمہاری محبت نے تمہیں جنت میں داخل کردیا ۔
شان نزول اور فضیلت کا بیان ٭٭ مسند احمد میں ہے کہ مشرکین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اپنے رب کے اوصاف بیان کرو اس پر یہ سورت نازل ہوئی ، صمد کے معنی ہیں جو نہ تو پیدا ہوا ہو نہ اس کی اولاد ہو ، اس لئے کہ جو پیدا ہوا ہے وہ ایک وقت مرے گا بھی اور دوسرے اس کے وارث ہوں گے اللہ عزوجل نہ مرے نہ اس کا کوئی وارث ہو اس جیسا اور اس کی جنس کا کوئی نہیں نہ اس کے مثل کوئی چیز ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے ، ابو یعلی موصلی میں بھی ہے کہ ایک اعرابی نے یہ سوال کیا تھا ، اور روایت میں ہے کہ مشرکین کے اس سوال کے جواب میں یہ سورت اتری ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ہر چیز کی نسبت ہے اور اللہ کی نسبت یہ سورت ہے ، صمد اسے کہتے ہیں جو کھلا کھلا نہ ہو ، بخاری شریف کتاب التوحید میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر کہیں بھیجا جس وقت وہ پلٹے تو انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر جسے سردار بنایا تھا وہ ہر نماز کی قرأت کے خاتمہ پر سورہ قل ھواللہ الخ ، پڑھا کرتے تھے آپ نے فرمایا ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے تھے ، پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ یہ سورت رحمان کی صفت ہے مجھے اس کا پڑھنا بہت ہی پسند ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں خبر دو کہ اللہ بھی اس سے محبت رکھتا ہے ، بخاری شریف کتاب الصلوۃ میں ہے کہ ایک انصاری مسجد قبا کے امام تھے ان کی عادت تھی کہ الحمد ختم کر کے پھر اس سورت کو پڑھتے پھر جونسی سورت پڑھنی ہوتی یا جہاں سے چاہتے قرآن پڑھتے ، ایک دن مقتدیوں نے کہا کہ آپ اس سورت کو پڑھتے پھر دوسری سورت ملاتے ہیں یا تو آپ صرف اسی کو پڑھئے یا چھوڑ دیجئے دوسری سورت ہی پڑھا کیجئے انہوں نے جواب دیا کہ میں تو جس طرح کرتا ہوں کرتا رہوں گا تم چاہو تو مجھے امام رکھو کہو تو میں تمہاری امامت چھوڑ دوں ، اب انہیں یہ بات بھاری پڑی جانتے تھے کہ ان سب میں یہ زیادہ افضل ہیں ان کی موجوگدی میں دوسیر کا نماز پڑھانا بھی انہیں گوارا نہ ہو سکا ، ایک دن جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائیت و ان لوگوں نے آپ سے یہ واقعہ بیان کیا ، آپ نے امام صاحب سے کہا تم کیوں اپنے ساتھیوں کی بات نہیں مانتے اور ہر رکعت میں اس سورت کو کیوں پڑھتے ہو؟ وہ کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس سورت سے بڑی محبت ہے آپ نے فرمایا اس کی محبت نے تجھے جنت میں پہنچا دیا ، ترمذی اور مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپ سے کہا میں اس سورت سے بہت محبت رکھتا ہوں آپ نے فرمایا اس کی محبت نے تجھے جنت میں پہنچا دیا ، ایک شخص نے کسی کو اس سورت کو پڑھتے ہوئے رات کے وقت سنا کہ وہ بار بار اسی کو دوہرا رہا ہے ۔ صبح کے وقت آکر اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گویا کہ وہ اسے ہلکے ثواب کا کام جانتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ سورت مثل تہائی قرآن کے ہے ( بخاری ) صحیح بخاریشریف کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کیا تم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک رات میں ایک تہائی قرآن پڑھ لو تو یہ صحابہ بھاری پڑا اور کہنے لگے بھلا اتنی طاقت تو ہر ایک میں نہیں آپ نے فرمایا سنو سورہ قل ہو اللہ تہائی قرآن ہے ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساری رات اسی سورت کو پڑھتے رہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ذکر کیا گیا تو آپ نے قسم کا کر فرمایا کہ یہ آدھے قرآن یا تہائی قرآن کے برابر ہے ، ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری نے فرمایا کیا تم میں سے کسی کو اس کیطات ہے کہ وہ ہر رات تیسرا حصہ قرآن کا پڑھ لیا کرے ، صحابہ کہنے لگے یہ کس سے ہو سکے گا ؟ آپ نے فرمایا سنو قل ھو اللہ احد الخ ، تہائی قرآ نکے برابر ہے ، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آ گئے آپ نے سن لیا اور فرمایا ابو ایوب سچ کہتے ہیں ( مسند احمد ) ترمذی میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا جمع ہو جاؤ میں تمیں آج تمہائی قرآن سناؤں گا لوگ جمع ہو کر بیٹھ گئے ۔ آپ گھر سے آئے سورہ قل ھو اللہ احد الخ ، پڑھی اور پھر گھر چلے گئے اب صحابہ میں باتیں ہونے لگیں کہ وعدہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تھا کہ تہائی قرآن سنائیں گے شاید آسمان سے کوئی وحی آ گئی ہو ۔ اتنے میں آپ پھر واپس آئے اور فرمایا میں نے تم سے تہائی قرآن سنانے کا وعدہ کیا تھا ، سنو یہ سورت تہائی قرآن کے برابر ہے ۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس سے عاجز ہو کہ ہر دن تہائی قرآن شریف پڑھ لیا کرو لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم اس سے بہت عاجز اور بہت ضعیف ہیں ، آپ نے فرمایا سنو اللہ تعایٰ نے قرآن کے تین حصے کئے ہیں ، قل ھو اللہ احد الخ ، تیسرا حصہ ہے ( مسلم نسائی وغیرہ ) ایسی ہی روایتیں صحابہ کرام کی ایک بہت بڑی جماعت سے مروی ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ کہیں سے آ رہے تھے آپ کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے تو آپ نے ایک شخص کو اس سورت کی تلاوت کرتے ہوئے سن کر فرمایا واجب ہو گئی ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے تو آپ نے ایک شخص کو اس سورت کی تلاوت کرتے ہوئے سن کر فرمایا واجب ہو گئی ، حضرت ابو ہریرہ نے پوچھا کیا واجب ہو گئی؟ فرمایا جنت ( ترمذی و نسائی ) ابو یعلی کی ایک ضعیف حدیث میں ہے کیا تم میں سے کوئی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ سورہ قل ھو اللہ الخ کو رات میں تین مرتبہ لے؟ یہ سورت تہائی قرآن کے برابر ہے ، مسند احمد میں ہے عبداللہ بن حبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم پیاسے تھے رات اندھیری تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار تھا کہ آپ تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں ۔ آپ آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے پڑھ ۔ میں چپکا رہا ، آپ نے پھر فرمایا پڑھ ۔ میں نے کہا کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا ہر صبح شام تین تین مرتبہ سورہ قل ھو اللہ احد اور قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ لیا کہ یہ کافی ہو جائے گا ۔ نسائی کی ایک روایت میں ہے ہر چیز سے تجھے یہ کفایت کرے گی ، مسند کی ایک اور ضعیف حدیث میں ہے جس نے ان کلمات کو دس مرتبہ پڑھ لیا اسے چالیس لاکھ نیکیاں ملتی ہیں وہ کلمات یہ ہیں ان کے راوی خلیل بن مرہ ہیں جنہیں حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ وغیرہ بہت ضعیف بتلاتے ہیں ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شصخ اس پوری سورت کو دس مرتبہ پڑھ لے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک محل تعمیر کرے گا ۔ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو ہم بہت سے محل بنوا لیں گے ۔ آپ نے فرمایا اللہ اس سے بھی زیادہ اور اس سے بھی اچھے دینے والا ہے ۔ دارمی میں ہے کہ دس مرتبہ پر ایک محل ، بیس پر دو ، تیس پر تین ، یہ حدیث مرسل ہے ۔ ابو یعلی موصلی کی ایک ضعیف حدیث ہے کہ جو شخص اس سورت کو پچاس مرتبہ پڑھ لے اس کے پچاس سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، اسی کی ایک اور ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ جو شخص اس سورت کو ایک دن میں دو سو مرتبہ پڑھ لے اس کے لئے ایک ہزار پانچ سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں بشرطیکہ اس پر قرض نہ ہو ، ترمذی کی اس حدیث میں دو سو مرتبہ پڑھ لے اس کے لئے ایک ہزار پانچ سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں بشرطیکہ اس پر قرض نہ ہو ، ترمذی کی اس حدیث میں ہے کہ اس کے پچاس سال کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں مگر یہ کہ اس پر فرض ہو ، ترمذی کی ایک غریب حدیث میں ہے جو شخص سونے کے لئے اپنے بستر پر جائے پھر داہنی کروٹ لیٹ کر سو دفعہ اس سورت کو پڑھ لے تو قیامت کے دن رب عزوجل فرمائے گا ۔ اے میرے بندے اپنی داہنی طرف سے جنت میں چلا جا ۔ بزار کی ایک ضعیف سند والی حدیث میں ہے جو شخص اس سورت کو دو سو مرتبہ پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے دو سو سال کے گناہ معاف فرما دیتا ہے ، نسائی شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے تو دیکھا کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے دعا مانگ رہا ہے اپنی دعا میں کہتا ہے یعنی اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس بات کی گواہی دے کر کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے بےنیاز ہے نہ اس کے ماں باپ نہ اولاد نہ ہمسر اور ساتھی کوئی اور آپ یہ سن کر فرمانے لگے اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس نے اسم اعظم کے ساتھ دعا مانگی ہے اللہ کے اس بڑے نام کے ساتھ کہ جب کبھی اس نام کے ساتھ سوال کیا جائے تو عطا ہو اور جب کبھی اس نام کے ساتھ دعا کی جائے تو قبول ہو ۔ ابو یعلی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین کام ہیں جو انہیں ایمان کے ساتھ کر لے وہ جنت کے تمام دروازوں میں سے جس سے چاہے جنت میں چلا جائے اور جس کسی حور جنت سے چاہے نکاح کرا دیا جائے ۔ جو اپنے قاتل کو معاف کر دے اور پوشیدہ قرض ادا کر دے اور ہر فرض نماز کے بعد دس مرتبہ سورہ قل ھو اللہ احد الخ ، کو پڑھ لے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ان تینوں کاموں میں سے ایک کر لے آپ نے فرمایا کی پر بھی یہی درجہ ہے ۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اس سورت کو گھر میں جاتے وقت پڑھ لے اللہ تعالیٰ اس گھر والوں سے اور اس کے پڑوسیوں سے فقیری دور کر دے گا ، اس کی اسناد ضعیف ہے ۔ مسند ابو یعلی میں ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان تبوک میں تھے سورج ایسی روشنی نور اور شعاعوں کے ساتھ نکلا کہ ہم نے اس سے پہلے ایسا صاف شفاف اور روشن و منور نہیں دیکھا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ آج سورج کی اس تیز روشنی اور زیادہ نور اور چمکیلی شعاعوں کی کیا وجہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا آج مدینہ میں حضرت معاویہ بن معاویہ لیثی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا ہے جن کے جنازے کی نماز کے لئے اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار فرشتے آسمان سے بھیجے ہیں پوچھا ان کے کس عمل کے باعث ؟ فرمایا وہ سورہ قل ھو اللہ احد کو دن رات چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے پڑھا کرتے تھے اگر آپ کا ارادہ ہو تو زمین سمیٹ لوں اور آپ ان کے جنازے کی نماز ادا کرلیں؟ آپ نے فرمایا بہت اچھا پس آپ نے ان کے جنازے کی نماز ادا کی ۔ اس حدیث کو حافظ ابو بکر بیہقی رحمتہ اللہ علیہ بھی اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں یزید بن ہارون کی روایت سے لائے ہیں وہ علاء بن محمد سے روایت کرتے ہیں ۔ ان پر موضوع حدیثیں بیان کرنے کی تہمت ہے ، واللہ اعلم ۔ مسند ابو یعلی میں اس کی دوسری سند بھی ہے جس میں یہ راوی نہیں ۔ اس میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ معاویہ بن معاویہ یشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا ہے کہ کیا آپ ان کے جنازے کی نماز پڑھنا چاہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں حضرت جبرائیل نے اپنا پر زمین پر مارا تمام درخت اور سب ٹیلے وغیرہ پست ہوگئے ان کا جنازہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر آنے لگا آپ نے نماز شروع کی اور آپ کے پیچھے فرشتوں کی دو صفیں تھیں ہر صف میں ستر ہزار فرشتے تھے آپ نے دریفات کیا کہ آخر اس مرتبہ کی کیا وجہ ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ان کی سورت سے محبت اور ہر وقت آتے جاتے بیٹھتے اٹھتے اس کی تلاوت ، اسے بیہقی نے بھی روایت کیا ہے ، اور بیہقی کی سند میں محبوب بن ہلال ہیں ۔ ابو حاتم رازی فرماتے ہیں یہ مشہور نہیں ، ابو یعلی میں یہ راوی نہیں وہاں ان کی جگہ ابو عبداللہ محمود ہیں ، لیکن ٹھیک بات محبوب کا ہونا ہے ، اس روایت کی اور بھی بہت سی سندیں ہیں اور سب ضعیف ہیں ، ہم نے اختصار کے لئے انہیں یہاں نقل نہیں کیا ، مسند احمد میں ہے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی میں نے جلدی سے آپ کا ہاتھ تھام لیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مومن کی نجات کس عمل پر ہے؟ آپ نے فرمایا اے عقبہ زبان تھامے رکھ اپنے گھر میں ہی بیٹھا رہا کہ اور اپنی خطاؤں پر روتا رہ ، پھر دوبارہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی تو آپ نے خود میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا عقبہ! کیا میں تمہیں توراۃ انجیل ، زبور اور قرآن میں اتری ہوئی تمام سورتوں سے بہترین سورتیں بتاؤں؟ میں نے کہا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ارشاد فرمایئے ، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے پس آپ نے مجھے سورہ اعوذ برب الفلق اور اعوذ برب الناس پڑھائیں پھر فرمایا دیکھو عقبہ! انہیں نہ بھولنا اور ہر رات انہیں پڑھ لیا کرنا ۔ فرماتے ہیں پھر نہ میں انہیں بھولا اور نہ کوئی رات ان کے پڑھے بغیر گذاری ، میں نے پھر آپ سے ملاقات کی اور جلدی کر کے آپ کے دست مبارک کو اپنے ہاتھ میں لے کر عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بہترین اعمال کا ارشاد فرمایئے آپ نے فرمایا سن جو تجھ سے توڑے تو اس سے جوڑ ، جو تجھے محروم رکھے تو اسے دے ، جو تجھ پر ظلم کرے تو اس سے درگزر کر اور معاف کر دے ، اس کا بعض حصہ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی زہد کے باب میں وارد کیا ہے اور فرمایا ہے یہ حدیث حسن ہے ۔ مسند احمد میں بھی اس کی ایک اور سند ہے ، صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت جب بستر پر جاتے تو ہر رات تینوں سورتوں کو پڑھ کر اپنی دونوں ہتھیلیاں ملا کر ان پر دم کر کے اپنے جسم مبارک پر پھیر لیا کرتے جہاں تک ہاتھ پہنچتے پہنچاتے ، پہلے سر پر ، پھر منہ پر ، پھر اپنے سامنے کے جسم پر تین مرتبہ اسی طرح کرتے ، یہ حدیث سنن میں بھی ہے ۔