Surah

Information

Surah # 112 | Verses: 4 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 22 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
قُلۡ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ‌ ۚ‏ ﴿1﴾
آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالٰی ایک ( ہی ) ہے ۔
قل هو الله احد
Say, "He is Allah , [who is] One,
Aap kehydijiye kay Woh ALLAH TaALA aik ( hi ) hai.
کہہ دو : ( ١ ) بات یہ ہے کہ اللہ ہر لحاظ سے ایک ہے ۔ ( ٢ )
( ۱ ) تم فرماؤ وہ اللہ ہے وہ ایک ہے ( ف۲ )
کہو ، 1 وہ اللہ ہے2 ، یکتا ۔ 3
۔ ( اے نبئ مکرّم! ) آپ فرما دیجئے: وہ اﷲ ہے جو یکتا ہے
سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 1 اس حکم کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، کیونکہ آپ ہی سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ آپ کا رب کون اور کیسا ہے ، اور آپ ہی کو حکم دیا گیا کہ اس سوال کے جواب میں آپ یہ کہیں ۔ لیکن حضور کے بعد ہر مومن اس کا مخاطب ہے ۔ اسے بھی وہی بات کہنی چاہیے جس کے کہنے کا حکم حضور کو دیا گیا تھا ۔ سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 2 یعنی میرے جس رب سے تم تعارف حاصل کرنا چاہتے ہو وہ کوئی اور نہیں بلکہ اللہ ہے ۔ یہ ان سوال کرنے والوں کی بات کا پہلا جواب ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کوئی نیا رب لے کر نہیں آگیا ہوں جس کی عبادت دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر میں تم سے کروانا چاہتا ہوں ، بلکہ وہ وہی ہستی ہے جس کو تم اللہ کے نام سے جانتے ہو ۔ اللہ عربوں کے لیے کوئی اجنبی لفظ نہ تھا ۔ قدیم ترین زمانے سے وہ خالق کائنات کے لیے یہی استعمال کر رہے تھے اور اپنے دوسرے معبودوں میں سے کسی پر بھی اس کا اطلاق نہیں کرتے تھے ۔ دوسرے معبودوں کے لیے ان کے ہاں الہ کا لفظ رائج تھا ۔ پھر اللہ کے بارے میں ان کے جو عقائد تھے ان کا اظہار اس موقع پر خوب کھل کر ہوگیا تھا جب ابرھہ نے مکہ پر چڑھائی کی تھی ۔ اس وقت خانہ کعبہ میں 360 الہوں کے بت موجود تھے ، مگر مشرکین نے ان سب کو چھوڑ کر صرف اللہ سے دعائیں مانگی تھیں کہ وہ اس بلا سے ان کو بچائے ۔ گویا وہ اپنے دلوں میں اچھی طرح جانتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی اس نازک وقت میں ان کی مدد نہیں کرسکتا ۔ کعبے کو بھی وہ ان الہوں کی نسبت سے بیت الآلہہ نہیں ، بلکہ اللہ کی نسبت سے بیت اللہ کہتے تھے ۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے بارے میں مشرکین عرب کا عقیدہ کیا تھا ، مثال کے طور پر: سورہ زخرف میں ہے : اگر تم ان سے پوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ( آیت 87 ) سورہ عنکبوت میں ہے: اگر تم سے ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کر رکھا ہے ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ۔ اور اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے: ( آیات 61 تا 63 ) سورہ مومنون میں ہے: ان سے کہو بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ کی ۔ ان سے پوچھو ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ ۔ ان سے کہو ، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے؟ اور کون ہے وہ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا ۔ یہ ضرور جواب دیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے ۔ ( آیات 84 تا 89 ) سورہ یونس میں ایک اور جگہ ہے: ان سے پوچھو ، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں جو تمہیں حاصل ہیں کس کے اختیار میں ہیں؟ اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ اور کون اس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ( آیت 31 ) اسی سورہ یونس میں ایک اور جگہ ہے: جب تم لوگ کشتیوں پر سوار ہوکر باد موافق پر فرحان و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک باد مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھر گئے ، اس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے ۔ مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہوکر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں ( آیات 22 ۔ 23 ) یہی بات سورہ بنی اسرائیل میں یوں دہرائی گئی ہے: جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں ، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو ( آیت 67 ) ان آیات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ جب لوگوں نے پوچھا کہ وہ تمہارا کون ہے اور کیسا ہے جس کی بندگی و عبادت کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ، تو انہیں جواب دیا گیا هُوَ اللّٰهُ ، وہ اللہ ہے ۔ اس جواب سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ جسے تم خود اپنا اور ساری کائنات کا خالق ، مالک ، رازق اور مدبر و منتظم مانتے ہو ، اور سخت وقت آنے پر جسے دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر مدد کے لیے پکارتے ہو ، وہی میرا رب ہے اور اسی کی بندگی کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں ، اس جواب میں اللہ تعالی کی تمام صفات کمالیہ آپ سے آپ آ جاتی ہیں ۔ اس لیے کہ یہ بات سرے سے قابل تصور ہی نہیں ہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا ، اس کا انتظام اور اس کے معاملات کی تدبیر کرنے والا ، اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کو رزق دینے والا ، اور مصیبت کے وقت اپنے بندوں کی مدد کرنے والا ، زندہ نہ ہو ، سنتا اور دیکھتا نہ ہو ، قادر مطلق نہ ہو ، علیم اور حکیم نہ ہو ، رحیم اور کریم نہ ہو ، اور سب پر غالب ہو ۔ سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 3 نحوی قواعد کی رو سے علماء نے هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ کی متعدد ترکیبیں بیان کی ہیں ، مگر ہمارے نزدیک ان میں سے جو ترکیب اس مقام کے ساتھ پوری مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ھُوَ مبتداء ہے ، اللہ اس کی خبر ہے اور اَحَدٌ اس کی دوسری خبر ، اس ترکیب کے لحاظ سے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ( جس کے بارے میں تم لوگ سوال کر رہے ہو ) اللہ ہے ، یکتا ہے دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے ، اور زبان کے لحاظ سے غلط نہیں ہے کہ وہ اللہ ایک ہے ۔ یہاں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس جملہ میں اللہ تعالی کے لیے لفظ احد جس طرح استعمال کیا گیا ہے وہ عربی زبان میں اس لفظ کا غیر معمولی استعمال ہے ۔ معمولا یہ لفظ یا تو مضاف یا مضاف الیہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے ، جیسے یوم الاحد ، ہفتے کا پہلا دن ، اور فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ اپنے کسی آدمی کو بھیجو یا نفی عام کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے ما جاء نی احد میرے پاس کوئی نہیں آیا ۔ یا عمومیت کا پہلو لیے ہوئے سوالیہ فقرے میں بولا جاتا ہے ، جیسے ھل عندک احد؟ کیا تمہارے پاس کوئی ہے ؟ یا اسی عمومیت کے پہلو سے شرطیہ جملہ میں بولا جاتا ہے ، جیسے ان جاء ک احد ، اگر تمہارے پاس کوئی آئے ۔ یا گنتی میں بولا جاتا ہے ، جیسے احد ، اثنان ، احد عشر ، ایک ، دو گیارہ ، ان استعمالات کے سوا نزول قرآن سے پہلے کی عربی زبان میں اس امر کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ محض احد وصف کے طور پر کسی شخص یا چیز کے لیے بولا گیا ہو ، اور نزول قرآن کے بعد یہ لفظ صرف اللہ تعالی کی ذات کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، دوسرے کسی کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا ۔ اس غیر معمولی طرز بیان سے خودبخود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یکتا و یگانہ ہونا اللہ کی خاص صفت ہے ، موجودات میں سے کوئی دوسرا اس صفت سے متصف نہیں ہے ، وہ ایک ہے ، کوئی اس کا ثانی نہیں ۔ پھر جو سوالات مشرکین اور اہل کتاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے رب کے بارے میں کیے تھے ان کو نگاہ میں رکھتے ہوئے دیکھیے کہ هُوَ اللّٰهُ کہنے کے بعد اَحَدٌ کہہ کر ان کا جواب کس طرح دیا گیا ہے: اولا ، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہی اکیلا رب ہے ، کسی دوسرے کا ربوبیت میں کوئی حصہ نہیں ہے ، اور چونکہ الہ ( معبود ) وہی ہوسکتا ہے جو رب ( مالک و پروردگار ) ہو ، اس لیے الوہیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ۔ ثانیا ۔ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہی تنہا کائنات کا خالق ہے ، تخلیق کے اس کام میں کوئی اور اس کا شریک نہیں ہے ۔ وہی اکیلا مالک الملک ہے ، نظام عالم کا مدبر و منتظم ہے ، اپنی مخلوق کا رزق رساں ہے ، اور آڑے وقت میں مدد کرنے والا فریاد رس ہے ، خدائی کے ان کاموں میں ، جن کو تم خود مانتے ہو کہ یہ اللہ کے کام ہیں ، کسی دوسرے کا قطعا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ ثالثا ۔ چونکہ انہوں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟ اس کا نسب کیا ہے؟ وہ کس جنس سے ہے؟ کس سے اس نے دنیا کی میراث پائی ہے؟ اور اس کے بعد کون اس کا وارث ہوگا ؟ اس لیے ان کو ان سارے سوالات کا جواب بھی اللہ تعالی کے لیے صرف ایک لفظ اَحَد بول کر دے دیا گیا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ( ۱ ) وہی ایک خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ، نہ اس سے پہلے کوئی خدا تھا ، نہ اس کے بعد کوئی خدا ہوگا ( ۲ ) خداؤں کی کوئی جنس نہیں ہے جس کا وہ فرد ہو ، بلکہ وہ اکیلا خدا ہے اور کوئی اس کا ہم جنس نہیں ( ۳ ) اس کی ذات محض واحد نہیں بلکہ اَحَد ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کثرت کا کوئی شائبہ نہیں ہے ، وہ اجزاء سے مرکب وجود نہیں ہے جو قابل تجزیہ و تقسیم ہو ، جو کوئی شکل و صورت رکھتا ہو ، جو کسی جگہ میں رہتا ہو یا کوئی چیز اس کے اندر جگہ پاتی ہو ، جس کا کوئی رنگ ہو ، جس کے کچھ اعضا ہوں ، جس کی کوئی سمت اور جہت ہو ، اور جس کے اندر کسی قسم کا تغیر و تبدل ہوتا ہو ۔ تمام اقسام کی کثرتوں سے بالکل پاک اور منزہ وہ ایک ہی ذات ہے جو ہر لحاظ سے اَحَد ہے ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ عربی زبان میں واحد کا لفظ بالکل اسی طرح استعمال ہوتا ہے جس طرح ہم اردو میں ایک کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ بڑی سے بڑی کثرتوں پر مشتمل کسی مجموعہ کو بھی اس کی مجموعی حیثیت کے لحاظ سے واحد یا ایک کہا جاتا ہے ، جیسے ایک آدمی ، ایک قوم ، ایک ملک ، ایک دنیا ، حتی کہ ایک کائنات ، اور کسی مجموعہ کے ہر جز کو الگ الگ بھی ایک ہی کہا جاتا ہے ۔ لیکن اَحَد کا لفظ اللہ تعالی کے سوا کسی کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا ۔ اسی لیے قرآن مجید میں جہاں بھی اللہ تعالی کے لیے واحد کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں الہ واحد ، ایک ہی معبود ، یا اللہ الواحد القھار ، اکیلا اللہ جو سب کو مغلوب کر کے رکھنے والا ہے ، کہا گیا ہے ۔ محض واحد نہیں کہا گیا ، کیونکہ یہ لفظ ان چیزوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو اپنی ذات میں طرح طرح کی کثرتیں رکھتی ہیں ، بخلاف اس کے اللہ کے لیے اور صرف اللہ ہی کے لیے احد کا لفظ مطلقا استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ وجود میں صرف وہی ایک ہستی ایسی ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کوئی کثرت نہیں ہے ، جس کی وحدانیت ہر لحاظ سے کامل ہے ) ۔
اپنی حکمت و تدبر میں وحدہ لا شریک ٭٭ اس کے نازل ہونے کی وجہ پہلے بیان ہو چکی ہے ، حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے تھے ہم حضرت عزیز کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور نصرانی کہتے تھے ہم حضرت مسیح کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور مجوسی کہتے تھے ہم سورج چاند کی پرستش کرتے ہیں اور مشرک کہتے تھے ہم بت پرست ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری کہ اے نبی تم کہدو کہ ہمارا معبود تو اللہ تعالیٰ ہے جو واحد اور احد ہے جس جیسا کوئی نہیں جس کا کوئی وزیر نہیں جس کا کوئ شریک نہیں جس کا کوئی ہمسر نہیں جس کا کوئی ہم جنس نہیں جس کا برابر اور کوئی نہیں جس کے سوا کسی میں الوہیت نہیں ۔ اس لفظ کا اطلاق صرف اسی کی ذات پاک پر ہوتا ہے وہ اپنی صفتوں میں اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتا اور بےنظیر ہوتا ہے ۔ وہ صمد ہے یعنی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بےنیاز ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ صمد وہ ہے جو اپنی سرداری میں ، اپنی شرافت میں ، اپنی بندگی اور عظمت میں ، اپنے علم و علم میں ، اپنی حکمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہے ۔ یہ صفتیں صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں ۔ اس کا ہمسر اور اس جیسا کوئی اور نہیں وہ اللہ سبانہ و تعالیٰ سب پر الب ہے اور اپنی ذات و صفات میں یکتا اور بینظیر ہے ، صمد کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جو تمام مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد بھی باقی رہے ، جو ہمیشہ کی بقا والا سب کی حفاظت کرنے والا ہو جس کی ذات لازول اور غیر فانونی ہو ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں صمد وہ ہے جو نہ کچھ کھائے نہ اس میں سے کچھ نکلے ۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ صمد کی تفسیر اس کے بعد ہے یعنی نہ اس میں سے کچھ نکلے نہ وہ کسی میں سے نکلے یعنی نہ اس کی اولاد ہو نہ ماں باپ ، یہ تفسیر بہت اچھی اور عمدہ ہے اور ابن جریر کی روایت سے حضرت ابی بن کعب سے صراحتاً یہ مروی ہے جیسے کہ پہلے گذرا اور بہت سے صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ صمد کہتے ہیں ٹھوس چیز کو جو کھوکھلی نہ ہو جس کا پیٹ نہ ہو ۔ شعبی کہتے ہیں جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو ، عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں صمد وہ نور ہے جو روشن ہو اور چمک دمک والا ہو ، ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ صمد میں ہے جس کا پیٹ نہ ہو ، لیکن اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں ، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے ۔ حافظ ابو القاسم طبراین رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب السنہ میں لفظ صمد کی تفسیر میں ان تمام اقوال وغیرہ کو وارد کر کے لکھتے ہیں کہ درصال یہ سب سچے ہیں اور صحیح ہیں ۔ کل صفتیں ہمارے رب عزوجل میں ہیں اس کی طرف سب محتاج بھی ہیں وہ سب سے بڑھ کر سردر اور سب سے بڑا ہے اسے نہ پیٹ ہے نہ وہ کھوکھلا ہے نہ وہ کھائے نہ پئے سب فانی ہے اور وہ باقی ہے وغیرہ ۔ پھر فرمایا اس کی اولاد نہیں نہ اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی ۔ جیسے اور جگہ ہے یعنی وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اسے اولاد کیسے ہو گی؟ اس کی بیوی نہیں ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا ہے: یعنی وہ ہر چیز کا خلاق مالک ہے پھر اس کی مخلوق اور ملکیت میں سے اس کی برابری اور ہمسری کرنے والا کون ہو گا ؟ وہ ان تمام عیوب اور نقصان سے پاک ہے جیسے اور جگہ فرمایا وقالو اتحذا الرحمٰن ولدا الخ ، یعنی یہ کفار کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے تم تو ایک بڑی بری چیز لائے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں ، اس بنا پر کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ کو یہ لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو تمام زمین و آسمان میں کے کل کے کل اللہ کے غلام ہی بن کر آنے والے ہیں اللہ کے پاس تمام کا شمار ہے اور انہیں ایک ایک کر کے گن رکھا ہے اور یہ سب کے سب تنہا تنہا اس کے پاس قیامت کے دن حاضر ہونے والے ہیں اور جگہ ہے ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ 26؀ۙ ) 21- الأنبياء:26 ) ، یعنی ان کافروں نے کہا کہ رحمان کی اولاد ہے اللہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ تو اللہ کے باعزت بندے ہیں بات میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اسی کے فرمان پر عامل ہیں اور جگہ ہے وجعلوا بینہ وبین الجنتہ نسبتاً الخ ، یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اور جنات کے درمیان نسب قائم کر رکھا ہے حالانکہ جنات تو خود اس کی فرمانبرداری میں حاضر ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ عیوب سے پاک و برتر ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایذاء دینے والی باتوں کو سنتے ہوئے صبر کرنے میں اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں اور پھر بھی وہ انہیں روزیاں دیتا ہے اور عافیت و تنگ دستی عطا فرماتا ہے ۔ بخاری کی اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اسے ایسا نہ چاہئے مجھے گالیاں دیتا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا اس کا مجھے جھٹلاتا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اولاً اللہ نے مجھے پیدا کیا ایسے ہی پھر نہیں لوٹائے گا حالانکہ پہلی مرتبہ کی پیدائش دوسری مرتبہ کی پیدائش سے کچھ آسان تو نہ تھی جب میں اس پر قادر ہوں تو اس پر کیوں نہیں؟ اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں تنہا ہوں میں ایک ہی ہوں میں صمد ہوں نہ میری اولاد نہ میرے ماں باپ نے مجھ جیسا کوئی اور احلمد اللہ سورہ اخلاص کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے ختم ہوئی ۔