سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 4
اصل میں لفظ صَمَد استعمال کیا گیا ہے جس کا مادہ ص ، م ، د ہے ۔ عربی زبان میں اس مادے سے جو الفاظ نکلے ہیں ان پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے معانی کی وسعت کس قدر ہے: ۔
اَلصَّمدُ ۔ قصد کرنا ، بلند مقام جو بڑی ضخامت رکھتا ہو ، سطح مرتفع ، وہ آدمی جسے جنگ میں بھوک پیاس نہ لگتی ہو ، وہ سردار جس کی طرف حاجات میں رجوع کیا جاتا ہو ۔
اَلصَّمَدُ ۔ ہر چیز کا بلند حصہ ، وہ شخس جس سے بالا تر کوئی دوسرا شخص نہ ہو ، وہ سردار جس کی اطاعت کی جاتی ہو اور اس کے بغیر کسی معاملہ کا فیصلہ نہ کیا جاتا ہو ، وہ سردار جس کی طرف حاجتمند لوگ رجوع کرتے ہوں ، دائم ، بلند مرتبہ ، ٹھوس جس میں کوئی خول یا جھول نہ ہو ، اور جس سے نہ کوئی چیز نکلتی ہو نہ اس میں داخل ہوسکتی ہو ، وہ آدمی جسے جنگ میں بھوک پیاس نہ لگتی ہو ۔
اَلمُصمَدُ ۔ ٹھوس چیز جس کا کوئی جوف نہ ہو ۔
اَلمُصَمَّدُ ۔ مقصود جس کی طرف جانے کا قصد کیا جائے ، سخت چیز جس میں کوئی کمزوری نہ ہو ۔
بَیتٌ مُصَمَّدٌ ۔ وہ گھر جس کی طرف حاجات میں رجوع کیا جاتا ہو ۔
بِنَاءٌ مُّصمَدٌ ۔ بلند عمارت ۔
صَمَدَہٗ وَ صَمَدَ اِلَیہِ صَمدًا ۔ اس شخص کی طرف جانے کا قصد کیا ۔
اَصمَدَ اِلَیہِ الاَمرَ ۔ اس کے سپرد معاملہ کردیا ، اس کے آگے معاملہ پیش کردیا ، اس کے آگے معاملہ پیش کردیا ، اس کے اوپر معاملہ میں اعتماد کیا ۔ ( صحاح ، قاموس ، لسان العرب )
ان لغوی معنوں کی بنا پر آیت اَللّٰهُ الصَّمَدُ میں لفظ الصَّمَدُ کی جو تفسیریں صحابہ و تابعین اور بعد کے اہل علم سے منقول ہیں انہیں ہم ذیل میں درج کرتے ہیں:
حضرت علی ، عکرمہ اور کعب احبا: صَمَد وہ ہے جس سے بالا تر کوئی نہ ہو ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عباس اور ابو وائل شقیق بن سلمہ: وہ سردار جس کی سیادت کامل ہو اور انتہا کو پہنچی ہوئی ہو ۔
ابن عباس کا دوسرا قول: صمد وہ ہے جس کی طرف لوگ کسی بلا یا مصیبت کے نازل ہونے پر مدد کے لیے رجوع کریں ۔ ان کا ایک اور قول وہ سردار جو اپنی سیادت میں ، اپنے شرف میں ، اپنی عظمت میں ، اپنے حلم اور بردباری میں ، اپنے علم میں اور اپنی حکمت میں کامل ہو
حضرت ابو ہریرہ: وہ جس میں سے نہ کوئی چیز کبھی نکلی ہو نہ نکلتی ہو ۔ جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو ۔ اسی کے ہم معنی اقوال شعبی اور محمد بن کعب القرظی سے بھی منقول ہیں ۔
سدی ۔ مطلوب چیزیں حاصل کرنے کے لیے لوگ جس کا قصد کریں اور مصائب میں مدد کے لیے جس کی طرف رجوع نہ کریں ۔
سعید بن جبیر: وہ جو اپنی تمام صفات اور اعمال میں کامل ہو ۔
ربیع بن انس: وہ جس پر کوئی آفت نہ آتی ہو ۔
مقاتل بن حیان: وہ جو بے عیب ہو ۔
ابن کیسان: وہ جس کی صفت سے کوئی دوسرا متصف نہ ہو ۔
حسن بصری اور قتادہ: جو باقی رہنے والا اور لازوال ہو اسی سے ملتے جلتے اقوال مجاہد اور معمر اور مرۃ الہمدانی سے بھی منقول ہیں ۔
مرۃ الہمدانی کا ایک اور قول یہ ہے کہ وہ جو اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے فیصلہ کرے اور جو کام چاہے کرے ، اس کے حکم اور فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا کوئی نہ ہو ۔
ابراہیم نخعی: وہ جس کی طرف لوگ اپنی حاجتوں کے لیے رجوع کریں ۔
ابوبکر الانباری: اہل لغت کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صَمَد اس سردار کو کہتے ہیں جس سے بالا تر کوئی اور سردار نہ ہو ، اور جس کی طرف لوگ اپنی حاجات اور اپنے معاملات میں رجوع کریں ۔ اسی کے قریب الزجاج کا قول ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ صَمَد وہ ہے جس پر سرداری ختم ہوگئی ہو اور ہر ایک اپنی حاجات کے لیے جس کی طرف رجوع کرے ۔
اب غور کیجیے کہ پہلے فقرے میں اللّٰهُ اَحَدٌ کیوں کہا گیا ، اور اس فقرے میں اَللّٰهُ الصَّمَدُ کہنے کی کیا وجہ ہے ۔ لفظ اَحَدٌ کے متعلق ہم بیان کرچکے ہیں کہ وہ صرف اللہ تعالی کے لیے مخصوص ہے ، کسی اور کے لیے سرے سے مستعمل ہی نہیں ہے ، اس لیے اسے اَحَدٌ ، یعنی نکرہ کی صورت میں استعمال کیا گیا ہے ، لیکن صَمَد کا لفظ چونکہ مخلوقات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اس لیے اللہ صمد کہنے کے بجائے اَللّٰهُ الصَّمَدُ کہا گیا ، جس کے معنی یہ ہیں کہ اصلی اور حقیقی صَمَد اللہ تعالی ہی ہے ۔ مخلوق اگر کسی حیثیت سے صمد ہو بھی تو کسی دوسری حیثیت سے وہ صمد نہیں ہے ، کیونکہ وہ فانی ہے ، لازوال نہیں ہے ، قابل تجزیہ و تقسیم ہے ، مرکب ہے ، کسی وقت اس کے اجزاء بکھر سکتے ہیں ، بعض مخلوقات اس کی محتاج ہیں تو بعض کا وہ خود محتاج ہے ، اس کی سیادت اضافی ہے نہ کہ مطلق ، کسی کے مقابلے میں وہ برتر ہے تو اس کے مقابلے میں کوئی اور برتر ہے ، بعض مخلوقات کی بعض حاجات کو وہ پورا کرسکتا ہے ، مگر سب کی تمام حاجات کو پورا کرنا کسی مخلوق کے بس میں نہیں ہے ۔ بخلاف اس کے اللہ تعالی کی صمدیت ہر حیثیت سے کامل ہے ۔ ساری دنیا اس کی محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ دنیا کی ہر اچیز اپنے وجود بقا اور اپنی حاجات و ضروریات کے لیے شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اسی کی طرف رجوع کرتی ہے اور سب کی تمام حاجات پوری کرنے والا وہی ہے ۔ وہ غیر فانی اور لازوال ہے ۔ رزق دیتا ہے ، لیتا نہیں ہے ، مفرد ہے ، مرکب نہیں ہے کہ قابل تجزیہ و تقسیم ہو ۔ ساری کائنات پر اس کی سیادت قائم ہے اور وہ سب سے برتر ہے ۔ اس لیے وہ محض صَمَد نہیں ، بلکہ الصمد ہے ، یعنی ایک ہی ایسی ہستی جو حقیقت میں صمدیت سے بتمام و کمال متصف ہے ۔
پھر چونکہ وہ الصمد ہے اس لیے لازم آتا ہے کہ وہ یکتا اور یگانہ ہو ، کیونکہ ایسی ہستی ایک ہی ہوسکتی ہے جو کسی کی حاجتمند نہ ہو اور سب جس کے محتاج ہوں ۔ دو یا زائد ہستیاں سب سے بے نیاز اور سب کی حاجت روا نہیں ہوسکتیں ۔ نیز اس کے الصمد ہونے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہی ایک معبود ہو ، کیونکہ انسان عبادت اسی کی کرتا ہے جس کا وہ محتاج ہو ۔ اور اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہ ہو ، کیونکہ جو حاجت روائی کی طاقت اور اختیارات ہی نہ رکھتا ہو اس کی بندگی و عبادت کوئی ہوشمند آدمی نہیں کرسکتا ۔